26 مئی کی ایک شام کا اداس لمحہ تھا، جب ٹیبل لیمپ بجھا کر نظریں چھت کی طرف اٹھائیں تو لگا جیسے ایک کہانی ختم ہوئی ہو۔ وہ کہانی جو میری اپنی نہ تھی، لیکن لگتا تھا جیسے وہ میرے اندر سے نکلی ہو۔ یہ ’مظہر کلیم ایم اے‘ کی لکھی کوئی تازہ کہانی نہیں تھی، بلکہ ان کے قلم کی آخری جنبش کا احساس تھا۔ وہ جنبش جو کئی عشروں تک پاکستان کے بچوں، نوجوانوں اور والدین کی ذہنوں کو مہمیز دیتی رہی۔
ملتان کی قدیم گلیاں، جہاں مٹی اور کتابوں کی خوشبو ہوا میں گھل مل جاتی ہے، وہیں 22 جولائی 1942 کو جنم لیا۔ اصل نام مظہر نواز خان تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت، وکالت اور ادبیات کے میدان میں قدم رکھا۔ 1970 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے بطور اسکرپٹ رائٹر وابستہ ہوئے۔ کمپیئرنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ کا منفرد امتزاج انہیں ریڈیو کی معروف آواز (جمہور دی آواز) بنا گیا۔ لیکن وہ صرف آواز نہیں تھے، ایک ایسی قلمی طاقت تھے جو نوجوان ذہنوں کو تخیل، حب الوطنی، اور ذہانت کا سفر کراتی تھی۔
مظہر کلیم ایم اے نے اپنے پیشرو ابنِ صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کے ’علی عمران‘ کی شخصیت زیادہ تکنیکی، قومی سلامتی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ ایکس ٹو، صفدر، تنویر، جوزف، جولیا، سلیم، رشید اور نعمان جیسے کردار صرف نام نہ تھے، بلکہ ایسا منظر نامہ تھے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں کہانی کی طرح نقش ہو جاتے تھے۔
پاکستانی ادب میں جاسوسی اور تھرلر ناولوں کا منفرد باب ہے، جسے ابن صفی نے نہایت عمدگی سے رقم کیا۔ ابن صفی کے بعد ان کی جگہ لینا آسان نہ تھا، لیکن مظہر کلیم ایم اے نے نہ صرف خلا پر کیا بلکہ ’عمران سیریز‘ کو نئی زندگی دی۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی حقیقی روح، حب الوطنی اور سماجی حقائق کا عکس نظر آتا تھا۔ ان کے ناول صرف قصے کہانیاں نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ، احساسات، اور جذبوں کی نمائندگی تھے۔
مظہر کلیم کا ’علی عمران‘ وہ کردار تھا جو صرف جاسوس یا جاسوسی کہانی کا ہیرو نہیں تھا، بلکہ ایک قومی جذبے، سچائی کی تلاش اور ذہنی بیداری کی علامت تھا۔ ان کی تحریروں نے قاری کو محض تفریح نہیں دی بلکہ سوچنے، سمجھنے اور ملک و قوم کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کیا۔ ’عمران سیریز‘ میں شامل کردار، پلاٹ اور واقعات، حالات کے عکاس تھے۔
ان کے قلم نے دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا، دہشتگردی اور ملک دشمنی کے خلاف آواز بلند کی۔ مظہر کلیم کی تحریروں میں جاسوسی اور انٹیلی جنس کے ایسے پہلو سامنے آتے تھے جو قاری کے لیے حیرت اور معلومات کا ذریعہ بنتے۔ ان کا انداز بیان نہایت پر اثر، مگر عام فہم تھا، جو ہر طبقے تک پہنچتا تھا۔
مظہر کلیم کے تخلیقی عمل کا خاص رنگ یہ تھا کہ کبھی مکمل کہانی نہیں سوچتے تھے۔ وہ کہتے، ’میں بس کہانی شروع کرتا ہوں، پھر وہ خود ہی آگے بڑھتی ہے۔‘ یہ انداز تحریر میں تازگی اور حیرت کا تسلسل قائم رکھتا، اور قاری ہر صفحے پر اگلے پل کی پیش گوئی سے قاصر رہتا۔ یہی تو فن کی معراج اور پیش بینی کو مہارت سے شکست دینا ہے۔
دس کروڑ میں دو شیطان، ڈیشنگ تھری، گنجا بھکاری، آپریشن سینڈوچ، کیلنڈر کلر، ناقابل تسخیر مجرم، زندہ سائے، کاغذی قیامت، بلائنڈ مشن اور جیوش پاور جیسے ناول نہ صرف جاسوسی کہانیاں تھیں بلکہ ان میں قومی بیانیہ، سائنسی تخیل، اور نظریاتی تربیت پوشیدہ تھی۔
مظہر کلیم نے ’عمران سیریز‘ کے ذریعے محض سنسنی نہیں بیچی، بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ان کا ’علی عمران‘ نہ صرف ذہین تھا بلکہ ایسا ہیرو تھا جو نظریاتی، اخلاقی، اور نفسیاتی جنگ لڑتا تھا۔ مظہر کلیم کا ہنر یہی تھا کہ وہ معمولی واقعات میں بھی فلسفیانہ معنویت تلاش کر لیتے تھے۔
انہوں نے دشمن کو ہمیشہ چالاک دکھایا، لیکن عمران کو بھی مکمل برتری نہیں دی۔ جب جنگیں میدانوں میں نہ لڑی جائیں، تو وہ خیالات، نظریات اور لفظوں کی دنیا میں لڑی جاتی ہیں۔ مظہر کلیم کے ناول ایسے ہی مورچے تھے، ایسا نہیں کہ انہوں نے صرف وطن پرستی کی کہانیاں لکھیں بلکہ انہوں نے بچوں کو فکشن (چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو اور آنگلو بانگلو) کے راستے شعور سکھایا۔
26 مئی 2018 کو جب مظہر کلیم دنیا سے رخصت ہوئے، تو ’عمران سیریز‘ کا عہد ختم ہوا، جسے انہوں نے تین دہائیوں تک تحریر کیا۔ ان کی کہانیوں کا آخری باب تو شاید انہوں نے خود بھی نہ سوچا ہو۔ لیکن آج، جب ان کا قاری، جسے کبھی ’علی عمران‘ نے بچپن میں ہنسا، ڈرانا اور جگانا سکھایا تھا، وہ قاری اب خود شعور کی منزل پر ہے، تو اُسے اندازہ ہو رہا ہے کہ مظہر کلیم نے اسے کیا دیا۔
کہانی ختم ہو سکتی ہے، کردار مٹ سکتے ہیں، مگر خیالات اور تخیل کی دنیا ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ مظہر کلیم ایم اے کا ’علی عمران‘ اب شاید کسی فائل میں بند ہو چکا، لیکن ذہنوں میں اب بھی برسرپیکار ہے۔ دشمنوں کے تعاقب میں، قوم کے دفاع میں اور نوجوان نسل کے مستقبل کی آبیاری میں۔
’علی عمران‘ اجتماعی شعور کا استعارہ تھا، ایسا استعارہ جو بیدار رکھتا، خبردار کرتا، اور خواب دکھاتا ہے۔ ابن صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کی شمع جس چراغ نے روشن رکھی، وہ مظہر کلیم ایم اے ہی تھے۔ ان کے بعد کئی ہاتھوں نے یہ عَلم تھامنے کی کوشش کی، لیکن وہ جوت، وہ روانی، وہ اثر کہیں کھو گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے ’عمران سیریز‘ کا اختتام ہوچکا، ایک عہد ختم ہوا، لیکن اس کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ابن صفی جاسوسی دنیا مشکورعلی مظہر کلیم ایم اے ملتان مظہر کلیم ایم اے علی عمران انہوں نے ابن صفی ختم ہو کے بعد
پڑھیں:
سانحہ خضدار چراغ علم کو بجھانے کی دلخراش واردات
21 مئی 2025ء کو بلوچستان کے مرکزی شہر خضدار میں ہونے والا دہشت گرد حملہ نہ صرف ایک دلخراش انسانی سانحہ تھا بلکہ یہ پاکستان کی ریاستی رٹ، قومی غیرت، اور علاقائی استحکام کے خلاف ایک چیلنج بھی بن کر سامنے آیا۔ آرمی پبلک اسکول کی بس پر ہونے والا یہ حملہ اس وقت پیش آیا جب درجنوں معصوم طلبہ اپنے خوابوں کے سفینے میں سوار ہو کر علم کے سفر پر روانہ تھے۔ اچانک ایک خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی لے کر ان کے سامنے آیا اور بس سے ٹکرا گیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ بس کے پرخچے اڑ گئے، معصوم بچوں کی لاشیں دور جا گریں، خون سے زمین سرخ ہو گئی، اور کتابیں، بستے اور یونیفارم ٹکڑوں میں بکھر گئے۔ اس حملے میں چار طلبہ، ڈرائیور اور کلینر موقع پر شہید ہو گئے جبکہ درجنوں بچے زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ محض جانی نقصان نہیں، بلکہ دشمن کی بوکھلاہٹ اور بزدلانہ ذہنیت کا غماز ہے، جو روایتی جنگوں میں بارہا شکست کھانے کے بعد اب معصوموں کے خون سے اپنی تسکین چاہتا ہے۔
خضدار، بلوچستان کا ایک ایسا ضلع ہے جو نہ صرف جغرافیائی بلکہ تزویراتی، عسکری اور تعلیمی لحاظ سے پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ضلع سی پیک کے روٹ پر واقع ہے، اور گوادر سے منسلک زمینی رابطوں کا اہم سنگم ہے۔ بلوچستان کا یہ علاقہ ان قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے جو عالمی طاقتوں کی نظروں کا مرکز ہیں تانبہ، سونا، کوئلہ، کرومائٹ اور دیگر قیمتی دھاتیں جن کے ذخائر یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتیں اور ان کے مقامی آلہ کار اس خطے کو مستقل بدامنی کی گرفت میں رکھ کر نہ صرف پاکستان کی معیشت کو زک پہنچانا چاہتے ہیں بلکہ علاقائی توازن کو بھی بگاڑنے کے درپے ہیں۔ یہی قوتیں خضدار جیسے علاقوں میں تعلیم، ترقی اور ریاستی ساکھ کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہی ہیں، اور آرمی پبلک اسکول جیسے ادارے ان کی آنکھوں میں کانٹے کی مانند چبھتے ہیں کیونکہ یہی ادارے نئی نسل کو شعور، حب الوطنی اور استقامت کی راہ دکھا رہے ہیں۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ کسی وقتی جنون یا علاقائی ناراضگی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ دشمن کی ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ بھارت، خاص طور پر مودی سرکار، پاکستان کی عسکری صلاحیتوں اور سفارتی کامیابیوں سے پریشان ہو کر اب پراکسی وار کی راہ پر گامزن ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بی ایل اے، ٹی ٹی پی، بی ایل ایف اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو مالی، عسکری اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس اور زمینی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خضدار حملے کی پشت پر بھی یہی نیٹ ورک کارفرما تھا، جس میں نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بلکہ اسرائیلی ایجنسی ’’موساد‘‘ اور کچھ مغربی عناصر بھی شامل ہیں۔ ان کا مقصد صرف جانی نقصان نہیں، بلکہ خوف و ہراس پھیلا کر ریاست کی گرفت کو کمزور کرنا اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کو روکنا ہے۔
یہ حملہ نظریاتی جنگ کا بھی حصہ ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ پاکستانی قوم اگر اپنی فوج اور ریاستی اداروں پر اعتماد کھو دے تو ملک اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا۔ معصوم بچوں پر حملہ کر کے قوم کے دل پر چوٹ لگائی گئی ہے تاکہ جذباتی طور پر مایوسی پیدا کی جائے، والدین کو خوفزدہ کیا جائے اور نئی نسل کو علم کی روشنی سے محروم کیا جائے۔ تاہم دشمن یہ بھول جاتا ہے کہ یہ قوم سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد متحد ہوئی، اپنے زخموں کو طاقت میں بدلا، اور دہشت گردی کے خلاف ایک ناقابلِ شکست بیانیہ تشکیل دیا۔ خضدار کا سانحہ ایک بار پھر قوم کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن یہ جھنجھوڑنا شکست کا پیش خیمہ نہیں بلکہ جاگنے، اٹھ کھڑے ہونے اور فیصلہ کن اقدام کا اعلان ہے۔
ریاست پاکستان اب اس پالیسی پر نہیں رہ سکتی کہ ہر سانحے کے بعد صرف مذمت کے بیانات دیے جائیں۔ یہ وقت عملی اقدامات کا ہے۔ سب سے پہلے بلوچستان میں خفیہ نیٹ ورک کو مزید فعال کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردی کی کسی بھی کوشش کو پیشگی ناکام بنایا جا سکے۔ دوسرے، ان گروہوں کے خلاف بلا امتیاز اور بلا خوف ہدفی آپریشنز کیے جائیں چاہے وہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ہوں یا سرحد پار افغانستان یا ایران کے علاقوں میں چھپے ہوں۔ تیسرے، بین الاقوامی سطح پر بھارت اور اس کے اتحادیوں کے کردار کو بے نقاب کیا جائے، اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر ان کے جرائم کے شواہد رکھے جائیں تاکہ سفارتی دبا بھی پیدا ہو۔ چوتھے، تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو ازسرنو منظم اور مضبوط کیا جائے، خاص طور پر ان اداروں کو جو فوجی پس منظر رکھتے ہیں، تاکہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
میڈیا کا کردار بھی اس مرحلے پر کلیدی ہے۔ ایک ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو قوم کو نہ صرف متحد رکھے بلکہ نئی نسل کو دشمن کے پراپیگنڈے سے محفوظ رکھے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ دشمن کی گولیاں نہیں بلکہ اس کے نظریات کا ہدف ہیں، اور ان کا سب سے بڑا دفاع علم، شعور اور حب الوطنی ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مضبوط کریں گے، تو دشمن کی ہر چال ناکام ہوگی۔خضدار میں بہنے والا خون ہمیں جھکنے نہیں، اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے قومی وقار، ریاستی اداروں اور معصوم شہیدوں کے خون کا حساب لیں ۔