مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہم نے فتح کا جشن منالیا۔ قوم کو متحد کر لیا، آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نواز دیا۔ وزیر اعظم اور صدر نے بارہا افواج پاکستان کی دلیری اور شجاعت کا اعتراف کر لیا۔ ترانے بج گئے اور اعلانات ہوگئے تو سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیشہ سے پاکستان کے پاس بہترین فوج اور بدترین معیشت رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں معیشت میں بہتری کی کچھ صورت نظر آئی ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب بھی ہم آئی ایم ایف سے ایک بلین ڈالر کے لیے ملتمس دکھائی دیتے ہیں۔ تحریر: عمار مسعود
یہ درست ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے ایک فقید المثال عسکری فتح حاصل کی۔ ایسی فتح جس کا بھارت کو گمان بھی نہیں تھا۔ مودی جی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ایسی پاک بھارت جنگ ہوگی اور اس میں پاکستان فتح حاصل کرے گا اور پھر کانگریس ان سے لوک سبھا میں سوال کرے گی کہ مودی جی بتائیں، ہمارے کتنے طیارے مارے گئے؟ کتنے رافیل زمیں بوس ہوئے؟ کتنی دفعہ فرانس کی ٹیکنالوجی کا پاکستان نے تمسخر اڑایا تو مودی جی کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔
خجالت بھارتی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکی ہے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ صلح ٹرمپ نے نہیں کروائی تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا صدر بیچ میں کود پڑتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے کہ صلح تو میں نے کروائی تھی۔ وہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وقت، دن سب کچھ یاد کروا دیتا ہے جب بھارت ٹرمپ سے ملتمس ہوا کہ خدارا جنگ بندی کراؤ ورنہ ہم تو ڈوب چلے۔
اگرچہ جھوٹ کے بل بوتے پر بھارت کے وزیر اعظم اور انکی ٹیم اس عبرتناک شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے اپنے تجزیہ کار اور بین الاقوامی مبصرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ نقصان بھی بھارت کا زیادہ ہوا، طیارے بھی بھارت کے زیادہ گرائے گئے، شکست بھی بھارت کے ماتھے پر لکھی گئی۔ جنگ بندی کی درخواست بھی مودی جی نے کروائی تو یہ پروپیگنڈا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
جھوٹ کا یہ کاروبار زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ بھارت کو بدترین شکست ہوئی ہے۔ کسی نہ کسی سٹیج پر مودی جی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا اور جس دن وہ یہ تسلیم کریں گے وہ دن ان کی حکومت کا آخری دن ہوگا۔ یہ بات مودی جی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلسل اپنے عوام کو جھانسہ دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
اب ذرا پاکستان کی طرف بھی توجہ کیجیے۔ ہم نے فتح کا جشن منالیا۔ قوم کو متحد کر لیا، آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نواز دیا۔ وزیر اعظم اور صدر نے بارہا افواج پاکستان کی دلیری اور شجاعت کا اعتراف کر لیا۔ ترانے بج گئے اور اعلانات ہوگئے تو سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیشہ سے پاکستان کے پاس بہترین فوج اور بدترین معیشت رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں معیشت میں بہتری کی کچھ صورت نظر آئی ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اب بھی ہم آئی ایم ایف سے ایک بلین ڈالر کے لیے ملتمس دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھی آئی ایم ایف کی قسط ہمارے لیے سب سے بڑی معاشی کامیابی رہی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری معیشت کا سائز بہت سکڑ گیا ہے۔ ہم مائیکرو اکنامکس کی سطح پر تبدیلیاں تو کر سکے ہیں مگر غریب کے چولہے کو ابھی بھی اس مبہم معاشی ترقی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
ہمارے ہاں غربت آج بھی غریب کے سر پر ناچ رہی ہے۔ افلاس سے تنگ آئی ایک مخلوق اس ملک میں وجود رکھتی ہے۔ خط ناداری آئے روز اوپر جارہا ہے اور کروڑوں لوگ اس کی زد میں آر ہے ہیں۔ بجلی کے بل، آٹے کی قیمت، پٹرول کے نرخ ہمارے پاؤں کی بیڑیاں بن چکے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ شہباز شریف اس معاملے میں اسحاق ڈار کی معاونت سے بہتر کام کر رہے ہیں مگر اب اس ملک کے عوام میں مزید انتظار کا یارا نہیں ہے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ دنیا میں عسکری اور حربی جنگ اب خال خال ہی ہوگی اور اگر ہوگی تو پاکستان اس کے لیے اتنا تیار ہے کہ اسے فتح مبین حاصل ہوگی۔ اب میدان معیشت کا ہے۔ ساری دنیا میں مقابلہ اس کا ہو رہا ہے۔ اصل دوڑ معاشی ترقی کی ہے۔ دنیا ایک دوسرے سے معاشی میدان میں سبقت لے جانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ درآمدات، برآمدات کی ایک علیحدہ جنگ چل رہی ہے۔ ٹیرف نام کا ایک اور حربی طریقہ ٹرمپ وضع کر چکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ساری دنیا کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ جنگ کرنا کوئی مناسب بات نہیں۔ ہاں البتہ معاشی میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا بہت کام کی بات ہے۔ یہی ایک میدان ہے جس میں ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے ہوں گے۔ اب معاشی پالیسیوں کی طرف دھیان دینے کی ضروت ہے۔ اب معاشی طور پر خود کو مضبوط اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔ اب معیشت کے میدان میں خود کو ناقابل شکست بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم عسکری میدان میں بھارت کو شکست دے چکے ہیں لیکن کیا یہ موقع نہیں ہے کہ اب ہم اپنی توجہ معاشی میدان کی طرف دیں اور بھارت سے سبقت لے جائیں۔
بھارت رقبے کے حوالے سے ہم سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا سائز بھی بڑا ہے لیکن کیا معیشت کا سائز رقبے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ سنگاپور کی مثال لیں۔ چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا ہے لیکن دنیا بھر میں بینکنگ کی دنیا کا آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس سنگاپور سے زیادہ بہتر انسانی اور قدرتی ذرائع موجود ہیں لیکن ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اپنی ترقی میں ہم خود ہی مانع ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: درست ہے کہ معیشت کا بھارت کے کر لیا رہی ہے یہ بات
پڑھیں:
ڈیجیٹل معیشت، تمام اہداف ڈبل کئے جائیں: وزیراعظم آذربائیجان پہنچ گئے
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معیشت میں شفافیت لانے کے لئے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن سسٹم ناگزیر ہے، شہریوں اور کاروباری اداروں کے درمیان ادائیگی کو آسان بنانا ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے کیش لیس اور ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے حوالے سے ہفتہ وار اجلاس کی صدارت کی، جس میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو معیشت میں شفافیت لانے کا بنیادی ذریعہ قرار دیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ شہریوں اور کاروباری اداروں میں ادائیگیوں کو آسان اور تیز بنانے کیلئے ڈیجیٹل نظام کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ کیش لیس معیشت سے متعلق قائم کردہ کمیٹیاں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے قابلِ عمل تجاویز جلد پیش کریں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ اجلاس میں قائم کی گئی ڈیجیٹل پیمنٹس انوویشن اینڈ ایڈوپشن کمیٹی، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کمیٹی اور گورنمنٹ پیمنٹس کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہیں۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ سٹیٹ بنک ڈیجیٹل ادائیگیوں کو سہل بنانے اور تاجر طبقے کو اس نظام میں شامل کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ چھوٹے کاروباروں کی شمولیت کیلئے خصوصی پیکج متعارف کرانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل ادائیگیوں کیلئے موبائل فون ایپلی کیشنز استعمال کرنے والوں کی تعداد95 ملین سے بڑھا کر120 ملین، کیو آر کوڈ استعمال کرنے والے تاجروں کی تعداد0.9 ملین سے2 ملین اور مجموعی ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو7.5 بلین روپے سے 12 بلین روپے تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے تمام اہداف کو دگنا کرنے کی ہدایت جاری کی۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ڈیجیٹل نیشنل پاکستان کے تحت ڈیجیٹل معیشت کے منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان آئی ڈی منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ وزیراعظم نے یہ سہولیات آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور دیگر وفاقی علاقوں تک توسیع دینے کی ہدایت بھی جاری کی۔ قبل ازیں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کو پولیو فری بنانے اور ہر بچے کو موذی مرض سے بچانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ انسداد پولیو کی ٹاسک فورس کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ سعودی ولی عہد و وزیر اعظم محمد بن سلمان کا بھی شکر گزار ہوں جو کہ انسداد پولیو میں پاکستان کا ہر طرح سے ساتھ دے رہے ہیں۔ بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے آذربائیجان پہنچ گئے۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی وزیراعظم کے ہمراہ وفد میں شریک ہیں۔ ترجمان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف دورہ کے دوران اقتصادی تعاون تنظیم کے17 ویں سربراہی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔ سمٹ میں علاقائی اور عالمی چیلنجز پر پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف ای سی او ویژن 2025 ء کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کریں گے۔ وزیراعظم ای سی او رکن ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے، جس میں علاقائی تجارت، توانائی اور رابطے کے فروغ پر زور دیں گے۔ آذربائیجان کے وزیر ثقافت اور پاکستانی سفیر نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔