جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما اظہرالاسلام کی بریت پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
جماعت اسلامی کے رہنما اظہر الاسلام کی بریت کے بعد نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے ناردرن ریجن کے چیف آرگنائزر سرجیس عالم نے سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاید صلاح الدین قادر چودھری یا دلاور حسین سعیدی اسی طرح ہمارے پاس واپس آئے ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو ملک کی سابقہ فاشسٹ حکومت کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے ایک مقدمے میں سنائی گئی سزائے موت سے بری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس سے سوشل میڈیا پر اہم بحث اور رد عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کی سزائے موت کیخلاف اپیل منظور، رہائی کا حکم
اپنے تصدیق شدہ پروفائل سے فیس بک پوسٹ میں سرجیس عالم نے لکھا کہ جماعت کے رہنما اے ٹی ایم اظہر، جنہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی، آج ایک جھوٹے مقدمے سے رہا ہو گئے ہیں۔
اس پیش رفت پر غور کرتے ہوئے سرجیس نے مزید لکھا کہ آج مجھے وہ لوگ یاد آرہے ہیں جو عوامی حکومت کے ظلم کا شکار ہوئے اور جھوٹے الزامات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ’شاید صلاح الدین قادر چودھری یا دلاور حسین سعیدی بھی اس طرح واپس لوٹ سکتے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ لیکن وہ موقع ہاتھ سے گیا ہے۔ ’ہم میں سے جنہیں اس مادر وطن کی خدمت کا موقع ملا ہے وہ اس مقدس ذمہ داری سے بے وفائی نہیں کریں گے جو ہمیں قسمت نے دی ہے۔‘
پس منظربنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو اس سے قبل جنگی جرائم کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، مقدمے کی سماعت سابق آمرانہ حکومت کے تحت قائم ہونے والے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے کی تھی، ناقدین نے طویل عرصے سے دعویٰ کیا تھا کہ فیصلے سیاسی طور پر محرک تھے۔
بڑے پیمانے پر طلبا اور عوامی بغاوت کے بعد، گزشتہ برس 5 اگست کو وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا، جس سے عدالتی جائزوں اور تبدیلیوں کی لہر شروع ہوئی، ہزاروں شہریوں کے خلاف درج غیر منصفانہ مقدمات بتدریج واپس لیے جا رہے ہیں، اسی سلسلے میں جاری عمل میں اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو اب تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اظہر الاسلام انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بنگلہ دیش جماعت اسلامی سپریم کورٹ سرجیس عالم سوشل میڈیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اظہر الاسلام بنگلہ دیش جماعت اسلامی سپریم کورٹ سرجیس عالم سوشل میڈیا اے ٹی ایم اظہر جماعت اسلامی اظہر الاسلام سوشل میڈیا بنگلہ دیش کے رہنما
پڑھیں:
این سی سی آئی اے کی جیل میں تفتیش، سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوالات پر عمران خان مشتعل ہوگئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق تفتیش کی گئی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان کی قیادت میں تین رکنی ٹیم نے اڈیالہ جیل پہنچ کر تفتیش کی۔
ذرائع کے مطابق عمران خان سوالات کے جواب دینے پر آمادہ نہیں تھے اور بار بار مشتعل ہوتے رہے۔
عمران خان نے ایاز خان پر ذاتی تعصب کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ “یہی افسر میرے خلاف سائفر اور جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات بناتا رہا ہے، اس کا ضمیر مر چکا ہے اور میں اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔”
اس پر این سی سی آئی اے ٹیم نے کہا کہ وہ ذاتی ایجنڈے کے تحت نہیں بلکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں تفتیش کر رہے ہیں۔
تفتیش کے دوران پوچھا گیا کہ کیا آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جبران الیاس، سی آئی اے، را یا موساد چلا رہے ہیں؟ ذرائع کے مطابق یہ سوال سنتے ہی عمران خان شدید مشتعل ہو گئے اور کہا، “جبران الیاس تم سب سے زیادہ محب وطن ہو؛ تم اچھی طرح جانتے ہو کون موساد کے ساتھ ہے۔”
جب ٹیم نے پوچھا کہ آپ کے پیغامات جیل سے باہر کیسے پہنچتے ہیں تو عمران خان نے کہا کہ کوئی خاص پیغام رساں نہیں — جو بھی ملاقات کرتا ہے وہی پیغام سوشل میڈیا ٹیم تک پہنچا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ طویل عرصے سے پابندِ سلاسل ہیں اور ملاقاتوں کی بھی سخت پابندی ہے، ان کے سیاسی ساتھیوں کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
تفتیشی ٹیم کے سوال پر کہ عمران خان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے فساد کیوں پھیلاتے ہیں، انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فساد پھیلا رہے نہیں، بلکہ قبائلی اضلاع میں فوجی آپریشن پر اختلافی رائے دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنما ان کے پیغامات ری پوسٹ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ انہیں نتائج کا خوف ہے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے کہا کہ اگر بتایا جائے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کون چلاتا ہے تو وہ اغوا ہونے کا خدشہ ہے۔