خوشخبری ،چین کی الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی نے گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑی کمی کر دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
چین کی آٹو انڈسٹری میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی جنگ نے دنیا کے سب سے بڑے کار بازار میں طویل عرصے سے متوقع تبدیلی کے خدشات کو جنم دیا ہے، چین کی الیکٹرک کار بنانے والی بی وائی ڈی کمپنی نے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں 34 فیصد تک کمی کا اعلان کر دیا۔
چینی الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی نے اپنی سب سے سستی گاڑی، بیٹری سے چلنے والی سیگل ہیچ بیک کی ابتدائی قیمت کو 55,800 یوآن (تقریباً 7765 ڈالر) تک کم کر دیا، جو کہ پہلے قریباً 10,000 ڈالر تھی۔
سینو آٹو انسائٹس کے منیجنگ ڈائریکٹر ٹو لی کا کہنا ہے کہ بی وائی ڈی کی قیمتوں میں کمی سے کمزور کمپنیاں اب قیمتوں کی گراوٹ سے ہونے والے نقصانات کو برداشت نہیں کر سکتی۔ سال کے آخر میں مقابلہ متوقع ہے جو نیٹا اور پولسٹار جیسی اسٹارٹ اپ کمپنیوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
گریٹ وال موٹرز کے چیئرمین وی جین جن نے کہا کہ چین کا آٹو سیکٹر غیر ضروری حالت میں ہے، کیونکہ قیمتوں کا دباؤ کار کمپنیوں اور سپلائرز کی آمدنی کو متاثر کر رہا ہےآٹو انڈسٹری میں بھی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو ابھی تک ڈوب نہیں سکیں۔
ماہر مائیکل ڈن کا کہنا ہے کہ چین کی کار مارکیٹ میں استحکام کی پیش گوئیاں برسوں سے ہو رہی ہیں، لیکن مارکیٹ صرف بڑھتی جا رہی ہےبی وائی ڈی کی قیمتوں میں کمی کچھ کمزور کمپنیوں کو باہر کر دے گی، لیکن ہر ناکام کمپنی کے بعد شیاؤمی یا ہواوے جیسی نئی کمپنیاں میدان میں اتر رہی ہیں۔
برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ چینی حکام صفر میل والے نئے کاروں کو استعمال شدہ گاڑیوں کے طور پر فروخت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی جانچ کر رہے ہیں، ہانگ کانگ میں بی وائی ڈی کے حصص پیر کو 8.
جے ٹو ڈائنامکس کے مطابق چین میں 169 آٹو میکرز ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ کا مارکیٹ شیئر 0.1 فیصد سے بھی کم ہے یہ صورتحال بیسویں صدی کے ابتدائی امریکی آٹو سیکٹر سے ملتی جلتی ہے، جب فورڈ جیسے بڑے اداروں کے ساتھ 100 سے زائد کمپنیاں مقابلہ کر رہی تھیں، لیکن بعد میں مارکیٹ محدود ہو گئی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں بی وائی ڈی چین کی
پڑھیں:
غزہ: امداد تقسیم کرنے والی کمپنی میں مسلم مخالف ‘انفیڈلز’ گینگ کے کارکنوں کی بھرتی کا انکشاف
غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز پر ہونے والے خونریز حملوں کی تہلکہ خیز تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مراکز نہ تو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر قائم تھے اور نہ ہی عام شہریوں کے زیرِانتظام بلکہ انہیں ایک نجی سیکیورٹی کمپنی چلا رہی تھی جس نے امریکی موٹر سائیکل گینگ ‘انفیڈلز’ کو خدمات پر مامور کر رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں قحط: امداد کو ہتھیار بنانے کی اسرائیلی حکمتِ عملی
یہ گروہ عراق جنگ کے سابق فوجیوں پر مشتمل ہے جو صلیبی نعروں اور اسلام دشمنی کے کھلے اظہار کے لیے بدنام ہے۔ گینگ کے سربراہ جانی ملفورڈ سابق امریکی فوجی تھا جسے چوری اور غلط بیانی پر سزا ہوئی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گینگ کے 7 نمایاں رہنما ان مراکز میں سیکیورٹی انتظامات کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ ۔ انہیں روزانہ 1580 ڈالر تک تنخواہ دی جاتی ہے اور یہ لوگ ’میک غزہ گریٹ اگین‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔
یہ گینگ مسلمانوں کی توہین کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں اور رمضان المبارک میں خنزیر کے گوشت کی باربی کیو محفلوں کا انعقاد کرتا ہے۔ اب یہی گروہ بھوکے پیاسے فلسطینیوں کی زندگیوں کا انچارج بنا دیا گیا ہے جنہیں روٹی کے ایک ٹکڑے کی تلاش تھی۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 62 فلسطینی شہید، زیادہ تر امداد کے متلاشی تھے
امریکی انسانی حقوق کی تنظیم کیر کے مطابق یہ کوئی انسانی عمل نہیں بلکہ ایک سخت گیر سیکیورٹی کھیل ہے جو المیے کو بڑھا رہا ہے اور قابض طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی میں امدادی سامان حاصل کرنے والے 1500 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں