بلوچستان،پراکسی جنگ اور بھارت
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور بھارت کی مختلف محاذ پر پسپائی کے بعد یہ امر یقینی تھا کہ پاکستان میں آنے والے عرصے میں پراکسی جنگ جیسے امور کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگی۔ بھارت پراکسی جنگ کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار زیادہ شدت کے ساتھ استعمال کرے گا تاکہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے۔
بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ اس کا خصوصی ٹارگٹ ہوں گے۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان یعنی ٹی ٹی پی کی افغانستان کے ذریعے سہولت کاری اور معاونت کے ساتھ وہ اپنی پہلے سے جاری جنگ میں مزید شدت پیدا کرے گا۔
خضدار میں اسکول بس سانحہ ظاہر کرتا ہے دہشت گردی کا یہ کھیل آسانی سے نہیں رکے گا۔ آئی ایس پی آر کے بقول اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی اور وہ یہ حملہ اپنی پراکسی تنظیموں سے کروایا۔ خیبر پختون خوا میںہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ضرور ہوئی ہے مگر جنگ کے خطرات بدستور موجود ہیں، دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
معصوم نہتے شہریوں اور بالخصوص معصوم بچوں کو نشانہ بنانا گھناؤنا فعل ہی ہوسکتا ہے اور اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملوں سے کئی بے گناہ شہری اپنی جانوں سے گئے ہیں۔بالخصوص غیر بلوچیوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا زیادہ سنجیدہ اور تشویش کے پہلو کی عکاسی کرتا ہے ۔
بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگتی کے بقول ہمارے پاس یہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود تھیں کہ بھارت کی پراکسی جنگ بلوچستان میں ہوسکتی ہے۔پاکستان کافی عرصہ سے کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس پراکسی جنگ کے تناظر میں بلوچستان پر بھارت کے خلاف کافی مضبوط شواہد موجود ہیں ۔ اب جب کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو بھارت پر نہ صرف نفسیاتی برتری حاصل ہے بلکہ ہم سفارتی محاذ پر بھی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں ۔
اس لیے جعفر آباد ایکسپریس کا واقعہ ہو یا خضدار میں ہونے والی دہشت گردی یا مسلسل کئی عرصے سے بلوچستان کے علیحدگی پسند افراد یا بی ایل اے کی دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں کے جو بھی شواہد یا حقایق ثبوت کی صورت میں موجود ہیں اسے ہمیں عالمی دنیا میں موجود سفارتی محاذ پر پیش کرکے بھارت کو بڑے دباؤ میں لانا ہوگا۔کیونکہ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا ہمیں ان کی حکمت عملی سے گریز کرکے ثبوت کے ساتھ بھارت کے خلاف عالمی دنیا میں جانا ہوگا تاکہ ہم بہتر طور پر اپنا مقدمہ عالمی دنیا میں لڑسکیں ۔
یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ بلوچستان میں حالات سنگین ہیں ۔ اس بحران کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے ہمیں خود بھی مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں لانگ ٹرم ،مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم کی بنیادوں پر قومی اتفاق رائے کے ساتھ موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوں گی۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم داخلی سطح کے معاملات میں خلیج پیدا نہ کریں اور دشمن کو موقع نہ دیں کہ وہ ہماری داخلی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرنے ہوں گے۔
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہوگا۔بالخصوص ایسے موقع پر جب یہ خطرات موجود ہیں کہ بھارت بلوچستان میں اپنی مداخلت یا پراکسی جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں زیادہ خبردار رہنا ہوگا اور بلوچستان کی نگرانی اور گورننس سے جڑے تمام معاملات پر موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے داخلی بیانیہ کو بھی درست کرنا ہوگا۔بھارت سے آنے والے دنوں میں ہمارے خطرات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں ۔فغانستان کے معاملے میں بھی بھارت ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی پاکستان کی مخالفت میں اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
افغانستان سے جو ہمارے معاملات خراب ہیں یا جو کردار پاکستان کی مخالفت میں ٹی ٹی پی ادا کررہی ہے وہ بھارت کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔اس لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بھارت کی پراکسی کو کمزور کرنے کے لیے ہمیں افغانستان سے اپنے تعلقات میں بہتری بھی لانا ہوگی اور ٹی ٹی پی کا بھی علاج تلاش کرنا ہوگا۔
ہمیں سفارتی محاذ پر بھارت کے کردار کو محض بلوچستان تک محدود رکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنا بلکہ افغانستان اور ٹی ٹی پی کے معاملے میں بھی بھارت کی تصویر اور اس کے دوہرے معیارات کو عالمی دنیا میں پوری شدت ،ٹھوس دلیل ،منطق اور شواہد کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔مسئلہ کا حل جذباتیت پر مبنی پالیسی یا محض ردعمل پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمارے عمل اور اقدام سمیت حکمت عملیوں میں بھارت کے مقابلے میں زیادہ وسعت اور گہرائی ہونی چاہیے۔پاکستان میں موجود عالمی دنیا کے سفیروں کو بریف کرنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں بھارت کا ایجنڈا محض پاکستان مخالفت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ خطہ سمیت عالمی دنیا کے لیے بھی خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان جو سیاسی اور معاشی بنیادوں پر آگے بڑھنا چاہتا ہے یا خود کو اس علاقائی سیاست میں مستحکم کرنا چاہتا ہے تو اسے سیاسی و سفارتی بنیادوں پر پاکستان کی داخلی ،علاقائی اور عالمی سطح پر ایک بڑی سیاسی جنگ لڑنا ہوگی اور یہ جنگ اسی بنیاد پر لڑی جاسکتی ہے جب ہم خود بھی اپنی داخلی سطح پر مضبوط پوزیشن رکھ سکیں گے۔سیاسی عدم استحکام ہمارا بڑا چیلنج ہے اور اس کو نظرانداز کرکے یا غیر اہم سمجھ کر ہماری آگے بڑھنے کی حکمت عملی ہمیں کوئی موثر نتائج نہیں دے سکے گی۔
اس لیے ہمیںان حالات میں بطور ریاست اور حکومت خود کو بھی تیار کرنا ہے اور قوم کو بھی تیار کرنا ہے کہ کیسے ہمیں ان چیلنجز سے مقابلہ کرنا ہے۔اس کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے اتفاق رائے کا ماحول درکار ہے اور اس میں سب فریقین کواپنے اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے باہر نکل کر ریاست یا ملک کے مفادات کو اہمیت دینا ہوگی ۔اسی حکمت عملی کے تحت ہم بھارت کی پراکسی جنگ میں اس کو پسپائی پر مجبور کرسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی دنیا میں بلوچستان میں پراکسی جنگ موجود ہیں حکمت عملی کرنا ہوگا بھارت کے بھارت کی ٹی ٹی پی کے ساتھ کے لیے اور اس اس لیے ہے اور
پڑھیں:
گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔
بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔
کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔
داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔
جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔
اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی