کے الیکٹرک کی رات کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی یقین دہانی
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
پیپلز پارٹی کے وفد نے کے ای حکام سے مطالبہ کیا کہ ایف سی ایریا میں رات کو ڈھائی بجے سے صبح ساڑھے پانچ بجے تک اور زینت اسکوائر میں رات 4 بجے سے 6 بجے تک جاری غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ کے الیکٹرک انتظامیہ نے کراچی کے علاقوں ایف سی ایریا اور زینت اسکوائر میں رات کے وقت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے کے الیکٹرک لیاقت آباد آئی بی سی کے ڈپٹی جنرل منیجر خواجہ احسن اور دیگر افسران سے ملاقات کی۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنماء اور چیئرمین لوکل زکوۃٰ کمیٹی و ممبر پبلک ہیلتھ ویلفیئر کمیٹی سعد یوسف نے بتایا کہ وفد نے کے الیکٹرک حکام کو ایف سی ایریا اور زینت اسکوائر لیاقت آباد میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ اور عوام کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے کے ای حکام سے مطالبہ کیا کہ ایف سی ایریا میں رات کو ڈھائی بجے سے صبح ساڑھے پانچ بجے تک اور زینت اسکوائر میں رات 4 بجے سے 6 بجے تک جاری غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جائے۔ سعد یوسف کے مطابق کے الیکٹرک حکام کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ رات میں ہونے والے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو جلد سے جلد ختم کر دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور زینت اسکوائر پیپلز پارٹی کے ایف سی ایریا کے الیکٹرک وفد نے کے میں رات بجے تک
پڑھیں:
نسل کشی کا جنون
اسلام ٹائمز: آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔ تحریر: رسول قبادی
غزہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بن چکا ہے۔ ایسا زندان جس کے قیدیوں کا واحد جرم فلسطینی ہونا ہے اور انہیں اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مارچ 2025ء سے غزہ کی پٹی کا مکمل گھیراو جاری ہے اور حتی بنیادی ضرورت کی انسانی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تقریباً تمام آبادی جو 22 لاکھ افراد پر مشتمل ہے غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: 9 لاکھ 24 ہزار افراد غذائی بحران جبکہ 2 لاکھ 44 ہزار افراد غذائی اشیاء کی قلت کے باعث موت کے خطرے سے روبرو ہیں۔ اس خاموش جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے اور اب تک سینکڑوں بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اسی طرح 60 ہزار بچے غذائی قلت کے باعث شدید خرابی صحت کا شکار ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی امداد رسانی کرنے والے ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ اس کے طبی مراکز میں معائنہ ہونے والے ہر 10 بچوں میں سے ایک غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے معیارات کی روشنی میں یہ صورتحال مرحلہ وار نسل کشی ہے اور بین الاقوامی ادارے واضح طور پر اسرائیل پر قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
بھوکے افراد کا قتل عام، بے مثال جرم
گذشتہ کچھ عرصے سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی قسم کا مجرمانہ اقدام انجام پا رہا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ یہ کہ غذائی امداد تقسیم کرنے کے بہانے مخصوص مراکز میں بھوکے فلسطینیوں کو بلایا جاتا ہے اور پھر صیہونی فوج ان پر فائرنگ کر کے ان کا قتل عام کرتی ہے۔
جی ایچ ایف، اسرائیل کے چہرے پر امریکی نقاب
حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے ایک نیا ادارہ بنایا ہے جس کا نام جی ایچ اف (Gaza Humanitarian Foundation) رکھا گیا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت غزہ میں "قاتل انسانی امداد" کی علامت بن چکا ہے۔ اس ادارے نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا اور تشہیر کے ذریعے غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کو اپنے امدادی مراکز آ کر امداد وصول کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور جب ان مراکز میں فلسطینیوں کا اکٹھ ہو جاتا ہے تو صیہونی فوجی فائرنگ کر کے دسیوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیتے ہیں۔ یہ ادارہ وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو اہل غزہ کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا ماہیانہ بجٹ 140 ملین ڈالر ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس ادارے کی تشکیل کا اصل مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی مدد نہیں بلکہ انہیں کنٹرول کرنا ہے۔
جبری منتقلی اور اندھی بمباری
غزہ میں شدید قحط کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جنگی مشینری بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے اور آئے دن نہتے فلسطینیوں پر زمین اور ہوا سے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ 20 اور 21 جولائی کی بات ہے جب اسرائیلی ٹینک غزہ کے مرکزی حصے میں واقع دیر البلح شہر میں گھس گئے اور شہری علاقوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی۔ اس حملے میں کم از کم تین عام شہری شہید اور ہزاروں دیگر شہری وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت غزہ کا تقریباً 90 فیصد حصہ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی تسلط یا وہاں سے شہریوں کی جبری جلاوطنی کا شکار ہے۔ امریکی اور صیہونی حکام نے حال ہی میں ایک اور منصوبہ بنایا ہے جسے "انسان پسند شہر" نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کے جنوب میں 6 لاکھ فلسطینیوں کو جمع کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس کی مذمت کی ہے۔
مغرب کی مجرمانہ خاموشی اور تعاون
عالمی سطح پر غزہ میں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کے ردعمل میں دنیا کے اکثر ممالک نے زبان کی حد تک مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ پاپ کوئی چہاردھم نے بھی اپنے سرکاری بیانیے میں اسرائیلی اقدامات کو "وحشیانہ" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک کھل کر اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت پر بھی اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ سنانے کے جرم میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یورپی یونین نے غزہ کے لیے امدادرسانی کے معاہدے پر دستخط کے باوجود اب تک غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچنے کی یقین دہانی کے لیے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے یورپی یونین پر بھی اسرائیلی جرائم میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی میں مغرب کا کردار
آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔