انسانیت کے نام محبت الٰہی کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
ہتھیار محبت کے سوا، سب توڑ دو اور دل کے در کھول دو۔ ذرا توقف کرواور اس خاموش آوازکو سنو جو ہر طرف گونج رہی ہے۔
جنگ کے میدانوں سے، اسکرینوں کے پیچھے سے، ویران دلوں سے،اور خالی آنکھوں سے یہ وہ زمانہ ہے جہاں محبت کمزوری بن چکی ہے، الفاظ کھوکھلے اور تعلقات دکھاوے بن چکے ہیں اور انسان اپنی ہی ایجادات کا قیدی بن چکا ہے ۔
ایسے میں ایک ندا عرش سے اترتی ہے کہ آئو تلواریں رکھ دو، توپیں توڑ دو،اور صرف ایک ہتھیار باقی رکھو: محبت یہ کوئی خواب نہیں یہ سچائی کا وہ چراغ ہے جو ہر بیدار دل میں جلتا ہے،ہر زخمی روح کی آخری دعا ہے،ہر سچے انسان کی پہلی امید ہے۔ ہم محبت سے پیدا ہوئے، محبت کے لیے پیدا ہوئے ۔ میں نے تجھے اپنی محبت کے لیے پیدا کیا۔
(حدیث قدسی) حضرت آدم کی مٹی جب گوندھی گئی تو اس میں کوئی نفرت، کوئی دشمنی نہ تھی اس میں فقط اللہ کی محبت کا نور شامل تھا۔اسی لیے آدم کو روحِ الہی عطا کی گئی،اور ہم سب کو اولادِ عشق بنایا گیا ۔ نہ قوم، نہ زبان، نہ مذہب بس محبت کا ایک ہی نسب۔
ہم تاجدارِ محبت ہیں ہم وہ قوم ہیں جسے رب نےبنایا: نہ نفرت کے لیے، نہ تسلط کے لیے،بلکہ فقط محبت، امن، اور قربت کے لیے۔ تو وہ آئینہ ہے جس میں خدا اپنی محبت کو دیکھتا ہے ۔
مولانا رومی۔۔ محبت وہ الہی طاقت جس سے دشمن، دوست بن جاتے ہیں ،اندھیرے روشنی بن جاتے ہیں، دلوں کے در یکجہتی سے کھل جاتے ہیں اور انسانیت، خدا کی قربت محسوس کرتی ہے ایک نئی دنیا خواب نہیں، ضرورت ہے! جہاں بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہوں، ہتھیار نہیں، جہاں رنگ و نسل نہیں صرف دل کی روشنی دیکھی جائے، جہاں امام، پنڈت، اور پادری سب محبت کی بات کریں اور جہاں انسان، صرف انسان کہلائے۔ خدائے واحد و لا شری کا عکس بنے۔ جج نہیں بلکہ عبد شکور بنا رہے اور عبادت کے نغمے دل سے ادا کرتا رہے۔
زمین جنت کا آئینہ ہے یہ مقتل نہیں، نہ بازارِ خون یہ آشیانہ ہے محبت کا، اور گلزارِ الہی کا، تو پھر اے انسان اب فیصلہ تیرا ہے کہ محبت کو چننا ہے یا نفرت کو؟خالق کی رضا یا مخلوق کی غلامی؟
مملکتِ عشق ایک روحانی دعوت ہے یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں،نہ کوئی مذہبی فرقہ بس لا الہ لااللہ ا علان زبان سے اور تصدیق دل سے جو نقطہ آغاز محبت رب العالمین ہے۔
یہ تو دلوں کا وطن ہے جہاں قانون صرف محبت ہے،کرسی فقط خلوص کی ہے اور عبادت صرف رحمت کے سجدے میں ہے ہمارا منشور’’ہر ذی روح محترم، ہر مسکراہٹ عبادت‘‘ اور ہر ایک کو معاف کردینا فتح عظیم ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے!
جہاں انسانیت متحد ہو،مخلوق محفوظ ہو، اور محبت حکمران ہو۔آئو اس نورانی انقلاب کا حصہ بنو،جو تلوار نہیں، دعا سے جیتا ہے جو فوج نہیں، فرشتوں کے قافلے لاتا ہے اور جس کا پرچم صرف ایک ہے۔ محبت ہی اصل بادشاہی ہے محبت کو زبان بنا محبت کو راستہ بنا محبت کو آئندہ نسلوں کی میراث بنایہ پیغام دل سے نکلا ہےاور دلوں تک پہنچے گا کیونکہ آخر میں صرف محبت باقی رہ جاتی ہے قرآن تصدیق سب کی تسلی کے لئےسورۃ البقرۃ (2:165)
ترجمہ:اورجو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔تفسیریہ آیت بیان کرتی ہے کہ مومنوں کی سب سے گہری محبت اللہ سے ہوتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ اسی کا ہے، اور وہی سب سے زیادہ رحیم و کریم ہے۔ ان کے دل میں کوئی اور محبت اللہ کی محبت پر غالب نہیں آتی۔ سورۃالمائدہ (5:54)
ترجمہ:عنقریب اللہ ایک ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔
تفسیر، یہ آیت ایک ایسے گروہ کی پیش گوئی ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کے تعلق میں مضبوط ہو گا۔ اللہ ان سے راضی ہو گا، اور وہ اللہ سے سچی محبت کریں گے۔ یہ مقامِ قرب اور مقامِ محبوبیت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محبت کے محبت کو کے لیے
پڑھیں:
ایمان اور توکل کی پرواز
بچپن کی وہ راتیں آج بھی یاد آتی ہیں جب دادی اماں ہمیں لالٹین کی مدھم روشنی میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ یہ کہانیاں صرف تفریح کے لیے نہ تھیں بلکہ ان میں اخلاقی تربیت، سچائی، اور بھلائی کی تعلیم چھپی ہوتی تھی۔ ایک کہانی اکثر سنی جاتی تھی۔ تین دوست ایک غار میں پھنس جاتے ہیں، اس کا منہ ایک بڑی چٹان سے بند ہو جاتا ہے۔ وہ تینوں اپنی اپنی نیکیوں کو وسیلہ بنا کر ربِ ذوالجلال سے دعا کرتے ہیں، اور ان کی سچائی اور خلوص کے باعث چٹان ہٹتی ہے اور وہ نجات پاتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ہمارے دل و دماغ میں یوں پیوست ہوگئیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خالص نیت اور ایمان پہاڑوں کو بھی ہلا سکتا ہے۔ لیکن حال ہی میں لیبیا میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے گویا ان بچپن کی کہانیوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ یہ کوئی قصہ نہیں، کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک سچائی ہے، ایک معجزہ ہے، جو ہزاروں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش آیا۔
یہ ہے عامر مہدی منصور قذافی نامی ایک نوجوان لیبیا کے حاجی کی حیرت انگیز داستان، جو اب پورے اسلامی دنیا میں ایک معروف نام بن چکا ہے۔ اس کا قصہ محض حج کا نہیں، نہ ہی کسی ایئر لائن کی خرابی کا، بلکہ یہ اللہ سے تعلق، یقینِ کامل اور ایمان کے ایک ناقابلِ یقین سفر کا احوال ہے۔
’’تمہارا اللہ سے تعلق کیسا ہے؟‘‘ یہی سوال ہے جو یہ واقعہ ہم سب سے کرتا ہے۔
عامر مہدی حج کی نیت سے سبہا ایئرپورٹ (جنوبی لیبیا) پہنچا تو اسے پاسپورٹ کے مسئلے کی بنیاد پر پرواز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ پرواز اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہو گئی، سینکڑوں خوش نصیب مسافروں کو لیے ہوئے، لیکن عامر وہیں رہ گیا۔ کوئی اور ہوتا تو شاید مایوس ہو کر لوٹ جاتا، احتجاج کرتا یا رو کر بیٹھ جاتا۔ لیکن عامر مہدی وہیں کھڑا رہا۔ وہ بار بار دہراتا رہا۔
’’میں نے ارادہ کر لیا ہے، میں حج پر جاؤں گا، اور ضرور جاؤں گا!‘‘
لوگوں نے سمجھایا: ’’بھائی، پرواز چلی گئی ہے، اب اگلے سال سہی، ان شاء اللہ‘‘
لیکن عامر نہ مانا۔ وہ کہتا رہا: ’’یہ جہاز میرے بغیر نہیں جائے گا، یہ واپس آئے گا‘‘
پھر پہلا معجزہ رونما ہوا۔ جہاز جو فضا میں بلند ہو چکا تھا، اچانک تکنیکی خرابی کا شکار ہو کر واپس ایئرپورٹ آ گیا۔ یہ گویا ایک کرشمہ تھا۔ لیکن جب اس موقع پر عامر کے لیے سوار ہونے کی اجازت مانگی گئی، تو عملے نے انکار کر دیا۔ خرابی دور کی گئی اور جہاز ایک بار پھر اُڑان بھر گیا—عامر کے بغیر۔
مگر وہ نہ تھکا، نہ مایوس ہوا، وہیں ڈٹا رہا۔ اُس نے پُرایمان لہجے میں کہا
’’اطاعت میرے بغیر نہیں جائے گی، یہ پھر لوٹے گی‘‘
اور وہی ہوا۔ جہاز نے دوبارہ فضا میں جا کر ایک اور خرابی کے باعث واپس لینڈنگ کی۔ اس بار پائلٹ نے اعلان کیا’’جب تک عامر مہدی سوار نہیں ہوگا، میں جہاز نہیں اُڑاؤں گا!‘‘
یوں وہ شخص، جو نظر انداز کیا گیا تھا، اب پرواز کی کنجی بن چکا تھا۔ جیسے ہی عامر نے احرام میں ملبوس ہو کر جہاز میں قدم رکھا، یہ لمحہ ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ اُس کا چہرہ ایمان کی روشنی سے دمک رہا تھا۔
قرآن فرماتا ہے:
’’اور جو اللہ پر بھروسا کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘(سورۃ الطلاق: 65:3)
ایک اور جگہ فرمایا۔
”کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟”
(سورۃ الزمر: 39:36)
یہ نوجوان وہی تھا جس نے اپنا پورا بھروسہ اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا، اور اللہ نے اسے وہ عطا کیا جو دنیا میں کم ہی کسی کو یوں نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ واقعہ چھا گیا۔ کسی نے کہا ’’جب جہاز دو بار تمہارے لیے لوٹے، تو یہ معمولی بات نہیں۔ تمہارا اللہ سے تعلق خاص ہے‘‘
ایک اور صارف نے لکھا ”’’جب نیت خالص ہو، بھروسا سچا ہو، تو معجزے ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث اس واقعے کی بہترین تفسیر ہے۔
’’جان لو کہ اگر ساری قوم تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے، وہ تمہیں صرف وہی دے سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہو۔ اور اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے، تو وہ تمہیں صرف وہی نقصان دے سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے خلاف لکھ دیا ہو۔ قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
واقعی، جو اللہ نے عامر مہدی کے لیے لکھ دیا تھا، اُسے کوئی امیگریشن آفیسر، پرواز کی فہرست یا ضابطہ نہیں روک سکا۔
جب وہ بیت اللہ پہنچا تو ایک ویڈیو میں وہ احرام پہنے، عاجزی سے کہتا ہے۔
’’الحمد للہ! میں اللہ کے گھر پہنچ گیا ہوں۔‘‘
ایک دل شکر سے لبریز، ایک روح ایمان سے سرشار۔
آج عامر مہدی اسلامی دنیا کا سب سے مشہور شخص بن چکا ہے،نہ اس لیے کہ وہ شہرت کا طلبگار تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ اللہ کا طلبگار تھا۔ اور قرآن کہتا ہے
’’تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
(سورۃ آلِ عمران: 3:26)
یہ وہی کہانی ہے جو ہماری دادی اماں سنایا کرتی تھیں، مگر آج یہ سچائی بن چکی ہے۔ نہ یہ غار میں پھنسے تین دوستوں کی کہانی ہے، نہ کسی بس کے معجزاتی حادثے کی۔ بلکہ یہ اس حاجی کی داستان ہے جس نے یقین رکھا کہ اس کا رب اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور وہ صحیح تھا۔ جہاز اس کے بغیر نہیں گیا، کیونکہ آسمانوں کا مالک کچھ اور ہی لکھ چکا تھا۔
جب دل خالص پکارے، اور روح سچے بھروسے سے لبریز ہو، تو آسمان بھی رک جاتے ہیں۔ کیونکہ جو اڑتے جہاز کو روک سکتا ہے، وہی دلوں کے حال جاننے والا ہے۔