بھارت کی ایک اور سبکی، کینیڈا کی جی 7 سربراہی میٹنگ سے مودی مائنس
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
گزشتہ 6 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکیں گے کیوں کہ انہیں اس پروگرام کا دعوت نامہ نہیں بھجوایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور: بھارتی چیف کا طیارے گرنے کا اعتراف، اپوزیشن کا پارلیمنٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر دعوت دی بھی گئی تب بھی مودی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جس کی وجہ ہے کہ بھارت کو یقین نہیں کہ کینیڈا کی نئی حکومت خالصتان تحریک کی سرگرمیوں پر بھارتی خدشات کو سنجیدگی سے لے گی یا نہیں۔
میڈیا کا کہنا ہے کہ ویسے بھی اب دورے کی تیاری کے لیے وقت بھی بہت کم بچا ہے۔
سکھ علیحدگی پسندوں کے ممکنہ احتجاج اور کینیڈا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارتی حکومت آخری لمحے کے دعوت نامے کو شاید قبول بھی نہ کرے۔
مزید پڑھیے: سفارتی تنہائی کے شکار انڈیا میں مودی کے خلاف بغاوت کا خطرہ؟
دوسری جانب کینیڈین جی7 اجلاس کے منتظمین نے اس بات کی تاحال تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا بھارتی وزیراعظم کو اجلاس میں بلایا جائے گا یا نہیں۔
کینیڈا وسط 15 تا 17 جون جی 7 کے رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، جاپان، امریکا اور یورپی کمیشن کے صدور شامل ہوں گے۔
کینیڈین سکھ برادری بھی کینیڈا حکومت سے مطالبہ کرچکی ہے کہ جی 7 سربراہی اجلاس میں نریندر مودی کو مدعو نہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: چین کی بھارت کو بڑی دھمکی، مودی سرکار پریشان
ٹورنٹو کی سکھ فیڈریشن کا مؤقف ہے کہ جب تک بھارت کینیڈا میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مجرمانہ تحقیقات میں تعاون نہیں کرتا مودی کو جی 7 اجلاس میں مدعو نہ کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کی سبکی جی 7 سربراہی اجلاس کینیڈا نریندر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت بھارت کی سبکی جی 7 سربراہی اجلاس کینیڈا جی 7 سربراہی اجلاس میں
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔