جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، حملہ بلا اشتعال کیا گیا، شیری رحمان
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
— فائل فوٹو
پاکستانی سفارتی وفد کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان نے غیر ضروری جنگ کا سامنا کیا، جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، حملہ بلا اشتعال کیا گیا۔
برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ واشنگٹن، نیویارک، لندن اور اب برسلز کا دورہ حقائق اُجاگر کرنے کےلیے کیا گیا، ہمارا پیغام امن کا ہے مگر بغیر کسی کمزوری کے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی مین اسٹریم میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دی، بھارتی ایجنڈا قوم پرستی اور تعصب پر مبنی ہے، پہلگام حملے کا کوئی ثبوت آج تک نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد بھارتی قیادت خود کو خطرناک وعدوں میں پھنسا چکی۔
شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان پر الزامات بغیر ثبوت کے لگائے گئے، پاکستانی بندرگاہوں پر قبضہ اور نقشہ مٹایا گیا، ہم نے پہلگام حملے کی مذمت کی اور افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے دوران حقائق کو مسخ کیا گیا، ہمارا مؤقف کمزوری نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کیا جنرل فیض نو مئی کے ٹرائل کا سامنا کرینگے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) فوج کی جانب سے 9؍ مئی کے فسادات میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے مبینہ کردار کی تحقیقات کے اعلان کے کئی ماہ بعد بھی ان کیخلاف اس واقعے کے حوالے سے اب تک کوئی باضابطہ الزام عائد نہیں کیا گیا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سیکورٹی عہدیدار نے بتایا کہ جنرل فیض کے کیس میں کچھ نیا نہیں ہے، تاہم، جیسے ہی کچھ ملا تو ہم آپ سے شیئر ضرور کریں گے۔ گزشتہ سال پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ جنرل فیض پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ریاست کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ تاہم بعض وفاقی وزراء کی جانب سے ان کا نام 9؍ مئی کے واقعات سے جوڑنے کے باوجود اس معاملے میں ان پر باضابطہ طور پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ جنرل فیض کے وکیل میاں علی اشفاق نے دی نیوز کو بتایا کہ 9؍ مئی کے واقعات میں کوئی ایسا ریکارڈ یا شہادت موجود نہیں جو ان کے موکل کا کردار ثابت کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جتنا بھی ریکارڈ دیکھا یا پڑھا گیا ہے، اس میں ایسا کچھ بھی نہیں جو جنرل فیض کا اس واقعے سے تعلق ظاہر کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوتا بھی، تو وہ اُسی صورت سامنے آ سکتا ہے جب باضابطہ فردِ جرم عائد کی جائے۔ ایسی کوئی فردِ جرم فی الوقت موجود ہی نہیں۔ آئی ایس پی آر پہلے ہی یہ بیان دے چکی ہے کہ جنرل فیض کا مبینہ کردار 9؍ مئی کے واقعات میں ’’سیاسی مفادات’’ کے ساتھ علیحدہ سے زیرِ تفتیش ہے، لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود اب تک اس کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔ قبل ازیں رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جنرل فیض کے سیاسی شخصیات سے وسیع روابط تھے، جن میں تحریک انصاف کے رہنما بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے سیاسی معاملات میں رہنمائی کرنے کی تردید کی تھی۔ ان کے مطابق کچھ ملاقاتیں سماجی نوعیت کی تھیں، جبکہ بعض ذاتی نوعیت کی درخواستوں پر مبنی تھیں، جیسے ملازمتوں یا پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے سفارش کرنا۔ فوج کی جانب سے ان کیخلاف ابتدائی الزامات میں آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین نکات شامل تھے۔ دوسری جانب، وفاقی وزراء مسلسل جنرل فیض اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے درمیان مبینہ تعلق کی نشاندہی کر رہے ہیں، لیکن یہاں بھی کوئی ٹھوس شواہد عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔ جہاں ایک جانب عدالتوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف کیسز کی سماعت جاری ہے اور متعدد کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں، وہیں دوسری طرف سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کیخلاف 9؍ مئی سے متعلق کسی فرد جرم کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس ضمن میں الزامات غیر مصدقہ اور نا پختہ لگتے ہیں۔
انصار عباسی