اکنامک سروے اور زرعی پیداوار
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
پاکستان اکنامک سروے 2024-25 پیش کردیا گیا ہے، جس میں شرح نمو 2.7 فی صد حاصل ہوگی، بتایا گیا یعنی کم سہی مگر مثبت کبھی منفی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ محصولات میں اضافہ ہوا 26 فی صد اضافہ اچھی بات ہے لیکن عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لیجیے برآمد 6.8 فی صد بڑھ گئی۔
بہت زیادہ جتن کیے تھے لیکن آئی ایم ایف کے مشورے ہی رکاوٹ بن رہے ہیں یعنی بجلی،گیس کی قیمت بڑھائے چلے جاؤ، پٹرولیم کی قیمت بھی بڑھتی رہے۔ ایسے ماحول میں اتنا اضافہ بھی غنیمت ہے، مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
دو سال قبل حکومت نے کنٹرول کر لیا تھا لیکن کنٹرول کرنے والے ماہر نہیں تھے ورنہ وہ چیزکبھی نہ روکتے جن سے برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے جن سے کارخانے چل رہے ہوتے ہیں لیکن سب سے تشویش ناک بات یہ ہو گئی کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.
شرح نمو میں اضافے کا عدد 2.7 فی صد کا حاصل ہونا خزاں کے موسم میں امید بہار ہے اور ترقی کی نوید بھی ہے، لیکن اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں کیونکہ ترقی کی زمین تو پیاسی رہ گئی۔ کھیتوں سے ایسے اشارے مل گئے کہ پانی کم ملا ہے، پیاس بڑھی ہے۔ اب پانی کی کمی کا متبادل کب کیسے کس وقت استعمال کرنا ہے، شاید محکمہ زراعت کو خبر نہ ہوئی کہ کسانوں کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں جن کا فوری مداوا ضروری ہے۔
اس کے لیے ڈرپ ایری گیشن کا راستہ اختیار کر کے یعنی کم پانی میں زیادہ پیداوار کا حصول، ریزرو چھوٹے آبی ذخائر چھوٹے بڑے تالاب تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کر لیا جائے۔ آج کل تو ڈرونز پر سروے ہو سکتے ہیں۔ ایپس پر کسان کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اب کسان کن حالات سے گزر رہا ہے اس پر قرضوں کا بوجھ بھی ہے، اس کی آمدن کم سے کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب اس کا اثر آیندہ برس کے شرح نمو پر مرتب ہوگا۔
ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ خوش آیند بھی ہے ۔حکومت نے اقتصادی سروے میں کھیتوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو واضح کر دیا ہے۔ ساڑھے تیرہ فی صد پیداوار میں کمی کا مطلب ہے ساتواں حصہ۔ ایسے میں کسان کی امید تو ٹوٹ رہی ہے۔ کچھ موسم کی بے رخی بھی اب دست و گریباں ہو چکی ہے۔
موسمیاتی کلائیمیٹ چینج نے اپنا وار سب سے پہلے غریب کسان کی کٹیا پرکردیا ہے۔ کسان کو بلا سود قرض دیں بلکہ قرض حسنہ دیں۔ اگر وہ کم پیداوار حاصل کرتا ہے اور نقصان میں چلا جاتا ہے تو قرض معاف ہونا چاہیے، قدم قدم لمحے لمحے اس کی رہنمائی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اس کو آگاہ کریں تو شاید کھیت کی تقدیر بدل جائے، کسان خوش حال ہو جائے۔کلائیمیٹ چینج کا تو اثر ہر حال میں پڑ رہا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زمین اپنی زرخیزی کھو رہی ہے، بیج کھاد ایندھن ان سب کی قیمتوں میں 20 سے 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی زرعی معیشت پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ غذائی سلامتی پر گہرا زخم بھی ہے، اب آیندہ برس گندم درآمد کریں گے۔ کپاس بھی درآمد کریں گے اور درآمدی بل بڑھ کر رہے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ کلائیمیٹ چینج کے اثرات نے پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان کے کھیتوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
اوپر سے آئی ایم ایف نے بھی کسانوں پر ہلہ بول دیا ہے۔ سبسڈی ختم کرو، فنانسنگ تک محدود رسائی، کسانوں کے لیے آئی ایم ایف ایسی پالیسی دے رہا ہے جس سے کسان کی خوشحالی روٹھ کر رہ جائے گی۔ اگر کھیتوں نے آیندہ بھرپور فصل سے نوازا تو کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اکنامک سروے 2025-26 میں لکھا ہوگا کہ اہم فصلوں کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابل 13 فی صد کمی نے اپنا رنگ ایسے جمایا اب فصلوں نے اپنا رخ ایسا دکھایا، زمین نے وہ نوازشیں کیں کہ 13 فی صد کا کلائیمیٹ چینج یا بدلاؤ ایسا آیا کہ 13 سے 31 فی صد اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ خواب پورا ہوگا لیکن ڈرائنگ روم اے سی میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں بلکہ کھیتوں تک آئیں آئی ایم ایف کے بغیر کسانوں سے ملنے اور ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کلائیمیٹ چینج میں اضافہ ہو پیداوار میں آئی ایم ایف اضافہ ہوا فی صد کا کسان کی رہا ہے بھی ہے
پڑھیں:
کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل رقم صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ
سندھ حکومت کے متعارف کرائے گئے ای چالان سسٹم پر تنقید کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ شہریوں کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسے شہری عوام کی جیبوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور سینیٹر فیصل سبز واری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اس نظام پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ سندھ کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای چالان کا نظام بغیر ضروری اقدامات کے تھوپا گیا، اور صرف تین دن میں ہزاروں چالانز کے ذریعے کروڑوں روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔
فیصل سبز واری نے مزید کہا کہ کراچی کے مقابلے میں لاہور میں سڑکوں کی تعمیر و دیکھ بھال کے نظام اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں سختی کے باوجود ای چالان شہریوں کے لیے اضافی بوجھ نہیں بنے۔
سینیٹر نے نشاندہی کی کہ کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل ہونے والی رقم پورے صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی کے انفراسٹرکچر سیس، پراپرٹی ٹیکس، خدمات پر ٹیکس اور دیگر محصولات کا مکمل حصہ شہر کو دیا جائے تو اس سے نہ صرف شہر کی بہتری ہوگی بلکہ شہریوں کا بوجھ بھی کم ہوگا۔