Express News:
2025-07-28@20:05:53 GMT

اکنامک سروے اور زرعی پیداوار

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

پاکستان اکنامک سروے 2024-25 پیش کردیا گیا ہے، جس میں شرح نمو 2.7 فی صد حاصل ہوگی، بتایا گیا یعنی کم سہی مگر مثبت کبھی منفی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ محصولات میں اضافہ ہوا 26 فی صد اضافہ اچھی بات ہے لیکن عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ لیجیے برآمد 6.8 فی صد بڑھ گئی۔

بہت زیادہ جتن کیے تھے لیکن آئی ایم ایف کے مشورے ہی رکاوٹ بن رہے ہیں یعنی بجلی،گیس کی قیمت بڑھائے چلے جاؤ، پٹرولیم کی قیمت بھی بڑھتی رہے۔ ایسے ماحول میں اتنا اضافہ بھی غنیمت ہے، مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔

دو سال قبل حکومت نے کنٹرول کر لیا تھا لیکن کنٹرول کرنے والے ماہر نہیں تھے ورنہ وہ چیزکبھی نہ روکتے جن سے برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے جن سے کارخانے چل رہے ہوتے ہیں لیکن سب سے تشویش ناک بات یہ ہو گئی کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.

5 فی صد کمی ہوئی ہے۔ بھارت کی اصل خواہش یہی ہے کہ پانی کی کمی ہو اور فصلیں کم سے کم پیدا ہوں۔ اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 13.5 فی صد کی کمی کو کم سمجھنے کے بجائے بہت زیادہ کمی سمجھنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

شرح نمو میں اضافے کا عدد 2.7 فی صد کا حاصل ہونا خزاں کے موسم میں امید بہار ہے اور ترقی کی نوید بھی ہے، لیکن اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں کیونکہ ترقی کی زمین تو پیاسی رہ گئی۔ کھیتوں سے ایسے اشارے مل گئے کہ پانی کم ملا ہے، پیاس بڑھی ہے۔ اب پانی کی کمی کا متبادل کب کیسے کس وقت استعمال کرنا ہے، شاید محکمہ زراعت کو خبر نہ ہوئی کہ کسانوں کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں جن کا فوری مداوا ضروری ہے۔

اس کے لیے ڈرپ ایری گیشن کا راستہ اختیار کر کے یعنی کم پانی میں زیادہ پیداوار کا حصول، ریزرو چھوٹے آبی ذخائر چھوٹے بڑے تالاب تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کر لیا جائے۔ آج کل تو ڈرونز پر سروے ہو سکتے ہیں۔ ایپس پر کسان کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ اب کسان کن حالات سے گزر رہا ہے اس پر قرضوں کا بوجھ بھی ہے، اس کی آمدن کم سے کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب اس کا اثر آیندہ برس کے شرح نمو پر مرتب ہوگا۔

ترسیلات زر میں 31 فی صد کا اضافہ خوش آیند بھی ہے ۔حکومت نے اقتصادی سروے میں کھیتوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو واضح کر دیا ہے۔ ساڑھے تیرہ فی صد پیداوار میں کمی کا مطلب ہے ساتواں حصہ۔ ایسے میں کسان کی امید تو ٹوٹ رہی ہے۔ کچھ موسم کی بے رخی بھی اب دست و گریباں ہو چکی ہے۔

موسمیاتی کلائیمیٹ چینج نے اپنا وار سب سے پہلے غریب کسان کی کٹیا پرکردیا ہے۔ کسان کو بلا سود قرض دیں بلکہ قرض حسنہ دیں۔ اگر وہ کم پیداوار حاصل کرتا ہے اور نقصان میں چلا جاتا ہے تو قرض معاف ہونا چاہیے، قدم قدم لمحے لمحے اس کی رہنمائی کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اس کو آگاہ کریں تو شاید کھیت کی تقدیر بدل جائے، کسان خوش حال ہو جائے۔کلائیمیٹ چینج کا تو اثر ہر حال میں پڑ رہا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

زمین اپنی زرخیزی کھو رہی ہے، بیج کھاد ایندھن ان سب کی قیمتوں میں 20 سے 25 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فی صد کمی زرعی معیشت پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ غذائی سلامتی پر گہرا زخم بھی ہے، اب آیندہ برس گندم درآمد کریں گے۔ کپاس بھی درآمد کریں گے اور درآمدی بل بڑھ کر رہے گا۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ کلائیمیٹ چینج کے اثرات نے پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان کے کھیتوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔

اوپر سے آئی ایم ایف نے بھی کسانوں پر ہلہ بول دیا ہے۔ سبسڈی ختم کرو، فنانسنگ تک محدود رسائی، کسانوں کے لیے آئی ایم ایف ایسی پالیسی دے رہا ہے جس سے کسان کی خوشحالی روٹھ کر رہ جائے گی۔ اگر کھیتوں نے آیندہ بھرپور فصل سے نوازا تو کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اکنامک سروے 2025-26 میں لکھا ہوگا کہ اہم فصلوں کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابل 13 فی صد کمی نے اپنا رنگ ایسے جمایا اب فصلوں نے اپنا رخ ایسا دکھایا، زمین نے وہ نوازشیں کیں کہ 13 فی صد کا کلائیمیٹ چینج یا بدلاؤ ایسا آیا کہ 13 سے 31 فی صد اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ خواب پورا ہوگا لیکن ڈرائنگ روم اے سی میں بیٹھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں بلکہ کھیتوں تک آئیں آئی ایم ایف کے بغیر کسانوں سے ملنے اور ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کلائیمیٹ چینج میں اضافہ ہو پیداوار میں آئی ایم ایف اضافہ ہوا فی صد کا کسان کی رہا ہے بھی ہے

پڑھیں:

کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) پاکستان نے وقتاً فوقتاً کئی بڑے اور بین الاقوامی منصوبوں پر دستخط کیے لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر رابطوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔

تاہم گیس پائپ لائنوں، بجلی کی ترسیل اور ریلوے لائنوں جیسے یہ بڑے منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں۔

ان میں سے چند اہم منصوبوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبہ

سن 2023 میں طے پانے والے اس منصوبے کا مقصد وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے یورپ سے جوڑنا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کی تکمیل کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔

(جاری ہے)

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک حد سے زیادہ پُرعزم منصوبہ ہے اور بظاہر یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔

اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات ہیں، جیسے کہ اس کی لاگت کون برداشت کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا کیا ہوگا، جو پہلے سے طے شدہ کئی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘

دوسری جانب معروف معاشی تجزیہ کار عابد قیوم سلہری کہتے ہیں، ''ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبہ پاکستان کو یورپ سے جوڑ سکتا ہے اور کاروباری طبقہ وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کو رکاوٹ بنانے کے بجائے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ حالات وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں۔

ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن

سن 2010 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس کی فراہمی کے لیے تھا لیکن بھارت کے الگ ہونے اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہے۔

عابد قیوم سلہری کے مطابق سکیورٹی مسائل اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن

سن 2010 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر پائپ لائن مکمل کر لی ہے لیکن پاکستان بین الاقوامی پابندیوں کے خوف سے اپنا حصہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس تناظر میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، ''ہماری حکومت بغیر مکمل تیاری اور مناسب ہوم ورک کے جلد بازی میں معاہدے کر لیتی ہے اور یہی ان کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

‘‘ کاسا-1000 منصوبہ

سن 2015 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کرغزستان اور تاجکستان سے پن بجلی کی ترسیل کے لیے تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی صلاحیت کے پیش نظر یہ منصوبہ اب غیر اہم ہو سکتا ہے۔

سی پیک - ایم ایل-1 ریلوے منصوبہ

سن 2013 میں طے پانے والا یہ منصوبہ فنڈنگ مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تاہم سن 2024 میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں، ''پاکستان میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں چیلنجز ضرور ہیں، جن میں کمزور طرزِ حکمرانی، مالیاتی پیچیدگیاں، علاقائی سلامتی کے خدشات اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عمل درآمد کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تو بروقت تکمیل ممکن ہے۔ کیا یہ منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت اور عالمی رابطوں کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے مستقل پالیسیوں اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھنا ہو گا۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حالیہ برسوں میں ایم ایل-1 جیسے منصوبوں پر پیش رفت امید کی کرن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کمزور حکمرانی اور مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے شفاف اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی تعاون بھی ضروری ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سکیورٹی چیلنجز کو کم کرنے کے لیے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • کسانوں کو صرف گندم کی فصل کی مد میں 2 ہزار 200 ارب روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف
  • پنجاب حکومت کا ربییع سیزن میں کاشتکاروں کو ڈی اے پی فی بوری پر 3 ہزار روپے سبسڈی دینےکا فیصلہ
  • نو مئی اور سانحہ بلوچستان
  • 60سالہ چینی کسان نے آبدوز تیار کرلی
  • پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیاں
  • سچا اور کھرا انقلابی لیڈر
  • یہ عامل اور جادوگر
  • کراچی میں لوڈشیڈنگ سے متعلق کیس: کے الیکٹرک تیکنیکی سروے کروانے کے لئے تیار
  • کسی بھی تیکنیکی سروے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، کے الیکٹرک
  • کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟