Express News:
2025-09-17@23:45:34 GMT

نو مئی اور سانحہ بلوچستان

اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT

نو مئی کے بہت سے ملزموں کو سزا ہو گئی۔سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور سزا تکلیف دہ ہے۔ یہ نوبت کبھی نہیں آنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ذمے داری سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ یہ ذمے داری کیا ہے، چند مثالوں کی مدد سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔

جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ مارشل لا اور پھانسی کی سزا دونوں متنازع تھے۔ اس کے ردعمل میں بھٹو صاحب کے صاحب زادے میر مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقار بنائی اور دہشت گردی شروع کر دی۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی بہت دکھی تھے لیکن سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے الذوالفقار سے لاتعلقی اختیار کی اور خالصتاً سیاسی جدوجہد کی جو بالآخر رنگ لائی۔

1953ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر ایک کتابچہ لکھنے کی پاداش میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں پر بار بار پابندی عائد کی گئی لیکن بڑی سے بڑی سزا ملنے کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو پی ٹی آئی نے اختیار کیا۔ دہشت گردی اور سیاسی سرگرمی کے درمیان یہ فرق ہے لیکن پی ٹی آئی یہ فرق ملحوظ نہیں رکھ سکی۔

نو مئی ہوا تو بانی پی ٹی آئی سمیت بہت سے دیگر راہ نماؤں نے ان سرگرمیوں کے جواز پیش کیے۔ بانی پی ٹی آئی تو یہاں تک کہہ گزرے کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا تو پھر اور کیا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی سرگرمی اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔

اس جماعت کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہ جماعت سیاست اور ریاست کے درمیان جو پہاڑ جیسا فرق ہے، اسے بھی سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ پی ٹی آئی یہ فرق سمجھتی تو نہ دفاعی تنصیبات پر حملے کرتی اور نہ پاکستان کے دفاعی ہیروز کی توہین کی مرتکب ہوتی۔ اسی طرح یہ جماعت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ریاستی کوششوں کو نقصان پہنچانے میں بھی ملوث رہی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب تھا کہ اس جماعت کے خیال میں ملک کی سلامتی اور مالی استحکام پر اس کا اقتدار فوقیت رکھتا ہے۔

یہ پی ٹی آئی کے سیاسی شعور کی ناکامی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ناکامی اور بھی ہے۔ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن غلطی کے بعد اس پر جم جانا اور شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح نہ کرنا زیادہ بڑی غلطی ہے۔اس قسم کے حالات میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ ریاست متعلقہ گروہ کو اتنے بڑے بحران سے نکلنے کا موقع فراہم کرے۔

ریاست نے نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کا جلد فیصلہ نہ کر کے پی ٹی آئی کو یہی موقع فراہم کیا لیکن پی ٹی آئی اپنی روش پر قائم رہی لہٰذا مجرموں کے خلاف فیصلے سنا دیے گئے۔ اب بھی وقت ہے، پی ٹی آئی ریاست اور سیاست کے درمیان فرق کو سمجھ کر اپنی اصلاح پر آمادہ ہو جائے تو صورت بدل سکتی ہے۔ کاش ایسا ہو جائے۔

بلوچستان میں شیتل اور اس کے شوہر کے قتل نے دکھی کر دیا ہے۔ ظلم کی بعض نوعیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اظہار سے الفاظ معذور ہو جاتے ہیں، اس واقعے پر دکھ کے اظہار کے لیے دکھ کا لفظ بھی معمولی محسوس ہوتا ہے۔یہ تکلیف دہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سماج کی بنیاد ابھی تک جہالت ہے۔

صدیوں بلکہ قرنوں سے جمتی ہوئی جہالت کی اس دبیز تہہ کو اکھاڑ پھینکنے میں نہ مذہبی گروہ کام یاب ہو سکا ہے اور نہ تعلیم۔ نئے عہد کی روشنی ہمارے سماج کے ان تاریک گوشوں تک نہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ دنیا بھر میں سماجی رویوں میں تیز رفتار تبدیلیاں پیدا کر دینے والے ذرایع ابلاغ بھی اس معاملے میں ناکام رہے ہیں جب کہ قانون تو ایسی ظالمانہ اجتماعیت میں ہے ہی موم کی ناک۔

انسان کے قلب و نظر میں لرزہ پیدا کر دینے والی وڈیو میں قاتلوں کا جو ہجوم دکھائی دے رہا ہے، اس میں تقریباً ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قبیلے میں یہ لرزہ خیز جرم ہوا ہے، اس میں اس جرم کے بارے میں مکمل یک سوئی تھی۔ ایک آدھ کوئی استثنا تھا بھی تو اس میں اختلاف کی جرات نہیں تھی لیکن وہ جو کوئی بھی تھا، صاحب ضمیر تھا جس نے نہایت دانش مندی کے ساتھ اس خونی عمل کی وڈیو بنا کر سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

اس جرات مندانہ عمل کے لیے پورا پاکستانی سماج اس کا شکر گزار ہے۔ یہ ایک عمل ایسا ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے نئے مظاہر نے کم از کم یہ تو کیا ہے کہ ایسے سنگ دل سماج میں بھی جونک لگا دی ہے۔ امید کی بس یہی ایک کرن ہے۔
چودہ سو برس قبل بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے سماج میں مذہب کی روشنی پیدا ہوئی تو ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔

کیا سبب ہے کہ بیٹیوں اور بیٹوں کو یوں سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دینے والے معاشرے پر مذہبی طبقہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے قبائلی سماج میں مذہب کا نمایندہ بھی اسی قسم کا ایک پرزہ ہے جیسے وڈیرے اور سردار کے جائز اور ناجائز ہر قسم کے احکام بجا لانے والے دیگر کارندے ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ قبائلی سماج میں اس قسم کے مظالم کے لیے اس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ 

دل کو دہلا دینے والے اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد لوگ فطری طور پر دکھی ہیں اور وہ مختلف انداز میں اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بنجر سماج میں کچھ نہ کچھ تو ہیجان پیدا کرے گا۔ دکھ کا یہ اظہار مزید مفید ہو سکتا ہے، اگر یہ ان ظالمانہ سماجی رویوں کی اصلاح کے لیے فکر مندی کا ذریعہ بن سکے۔یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے سنگ دلانہ رویوں کی اصلاح پلک جھپکنے میں نہیں ہو سکتی لیکن اس کا آغاز کہیں سے تو ہونا چاہیے۔ 

ہمارے یہاں جدید رجحانات رکھنے والی این جی اوز اور دینی رجحانات کے نمایندوں میں ہزاروں میل کی دوری ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لوگ اپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اس نکتے پر متفق ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست سہولت کار کا کردار ادا کرے تاکہ وہ غور و فکر کر کے کچھ عملی تجاویز سامنے لا سکیں۔

ذرایع ابلاغ خاص طور پر شوبز میں ایسے موضوعات کو حکمت سے نہیں برتا جاتا۔ یہ شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے، خاص طور پر بھارت کی بے سوچے سمجھے نقالی کی جا رہی ہے لیکن شوبز کے لوگ اگر تھوڑی محنت کر کے پاکستانی قبائلی روایات کے مثبت پہلوؤں کو سمجھ کر فلم اور ڈرامہ بنا سکیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

ایک بلکہ بنیادی کام ریاست کو بھی کرنا ہے۔ اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ روشن خیال اور دین کی حقیقی تعلیمات پر یقین رکھنے والے قبائلی بزرگوں اور مؤثر افراد کو ایک پلیٹ فارم پر لائے تاکہ یہ لوگ اپنے لوگوں کی ذہنی سطح اور انداز فکر کے مطابق تبدیلی کا عمل شروع کر سکیں۔یہ کام کرنے میں ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ مزید دیر نہیں کی جا سکتی۔ اس سے پہلے کہ یہ خون آشامی ہمارے سماج اور ریاست کو ہڑپ کر جائے، بسم اللہ کر دیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے درمیان دینے والے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

 سیاسی حریفوں نے حب کینال اور شاہراہ بھٹو کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا، میئر کراچی

 مئیر کراچی مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ کراچی والوں کو آج حقائق سے آگاہ کرنے آیا ہوں، سیاسی حریفوں نے حب کینال اور شاہراہ بھٹو کے حوالے سے منفی پراپیگنڈہ چلایا۔

مئیر کراچی مرتضی وہاب نے ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ مراد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ جلال پور پیر والا موٹر وے سندھ کا حصہ نہیں ہے، جلال پور والا موٹر وے سندھ میں ہوتا تو اپوزیشن کے اراکین پہنچ چکے ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی مخالفین اس پر بھی درجنوں پریس کانفرنس کر چکے ہوتے،  ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو قدرتی طور پر نقصان ہوتا ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس طرح کی آفت جب آتی ہے تو بہت سارے اسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے، حلیم عادل شیخ پہنچے اور کہا کہ حب کنال بہہ گیا ہے، حب کنال کے 20 میٹر حصے کو نقصان پہنچا، حب کنال کے 20 میٹر حصے کو فوری طور پر  48 گھنٹوں کے دوران ہی بنوایا گیا۔

میئر کراچی نے کہا کہ خدارا سیاسی جماعتیں سیاست کے بجائے لوگوں کو گمراہ نہ کریں، ہمارے شہر میں تاثر دیا جاتا ہے کہ کام نہیں ہوتا، اس  بار ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کام کرینگے بھی،  دکھائیں گے بھی، شاہراہِ بھٹو پر جب کام شروع ہوا تو کہا گیا کہ نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جب شاہراہِ بھٹو بن گیا تو کہا گیا کہ صورت حال بہتر نہیں، سفر مت کریں، شاہراہِ بھٹو پر دن و رات گاڑیاں چل رہی ہیں، جس کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری نے کیا، شاہراہِ بھٹو پر جہاں کام چل رہا ہے اس حوالے سے پروپیگنڈا کیا گیا، جب ہر بندے نے انجنئیر ہی بننا ہے تو جامعات کو بند کردیتے ہیں۔

https://x.com/PPP_Org/status/1967523261568471045

ان کا کہنا تھا کہ شاہراہِ بھٹو کے جس حصے میں بھی کام ہوگا، پرانے پیسوں پر ہی ٹھیکیدار کام کریگا، جماعت اسلامی کو 27 ارب روپے دیے گئے جس کا اعتراف جماعت اسلامی نے کیا، تمام تر ٹیکسز کے پیسے ٹاؤنز چیئرمینوں کو ملتے ہیں پھر بھی کام نہیں کرتے ہیں، اب میں مزید خاموش نہیں رے سکتا، حقائق سامنے لاؤں گا۔

میئر کراچی نے کہا کہ  عدالت میں جماعت اسلامی نے کیس کیا کہ کے ایم سی نے کراچی کے پارکوں کو کمرشلائز کیا، عدالت میں باوضو ہوکر جماعت اسلامی کے سیف الدین نے  ٹاؤنز چیئرمینوں کے ہمراہ جھوٹا حلف اٹھایا، باغ ابن قاسم کی روشنیاں دوبارہ بحال کرنے کے لئے کام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نعمت اللہ خان صاحب نے کراچی کی سڑکوں کو کمرشلائز کیا، کونسل کی منظوری سے پہلے جو کمیٹی بنائی تھی اس میں جماعت اسلامی کے ذمہ دار موجود تھے، ہماری عدالتوں کے 3 کیسز کا ریفرنس موجود تھا کہ چند پارکس میں کمرشل سرگرمیاں ٹھیک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تو یہ بات ہے کہ انٹری فیس بھی لی جاسکتی ہے،  فیصلے میں کہا گیا کہ پارکس کے ڈی اے کو دے دیے جائیں، ہمارے وکیل کو موقع دیا جاتا تو وکیل عدالت کو بتاتا کہ ماضی میں فیصلے موجود ہیں، مئیر قوانین اور کونسل کے ختیارات کے تحت فیصلہ کرتا ہے۔

میئر کراچی نے کہا کہ جماعتی بھائی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں، مئیر اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریگا،  ہم کام کرینگے تو اس شہر کے مسائل حل ہونگے۔

ان کہنا تھا کہ مجھے مئیر مخاطب نہیں بلکہ مرتضی مخاطب کہا جائے جماعت اسلامی خوش ہوجائیگی، اگر اختیارات کا رونا ہے تو گھر چلے جاؤ، ہم کام کرکے دیکھائیں گے کہ کام کیسے ہوتا ہے، حافظ نعیم الرحمن لاہور چلے گئے ہیں، ان کو حقائق نہیں بتائے جارہے،  ماڈل کالونی ٹاؤن کو ڈھائی ارب روپے ملے ہیں ایک سڑک نہیں بنی ہے۔ 

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ حافظ نعیم میرے بڑے ہیں میں آجاتا ہو اصل حقائق سے آگاہ کرتا ہو، ان کا منصوبہ تھا کہ رقم سنبھال کر رکھیں گے،  یہ رقم الیکشن سے چند ماہ قبل خرچ کی جانے تھی۔

مئیر کراچی نے کہا کہ سعدی ٹاؤن پانی کی گزرگاہ پر بنائی گیا گیا ہے، سعدی ٹاؤن کا حل ایک بڑا نالہ ہے جس کےلئے فنڈ مختص ہے، اگر یہ نالہ بن جاتا ہے تو مستقبل میں سعدی ٹاؤن میں بہتری آسکتی ہے، میرے پاس 28 ارب روپے ہیں، شہر قائد پر لگاؤں گا۔  

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم وفاق سے 20 ارب روپے لیکر آرہی ہے، جماعت اسلامی کو بھی بڑا پیسہ ملتا ہے، تمام جماعتوں سے کہتا ہوں کہ آئیں مل کر شہر کی ترقی پر کام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی جو ٹیکس لے رہی ہے وہ قانون کے مطابق ہے، ایم کیو ایم کے مئیر کراچی کے دور میں دکانوں پر ٹیکس 5ہزار روپے تھا، ہم نے اس ٹیکس کو کم کر کے پہلے 400 اور اب 750 روپے کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور
  •  سیاسی حریفوں نے حب کینال اور شاہراہ بھٹو کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کیا، میئر کراچی