Daily Ausaf:
2025-06-17@13:11:37 GMT

ریاست کا خزانہ یا خاندانی ورثہ؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

یاریاست یا کارٹل؟پاکستان کا حالیہ وفاقی بجٹ عوامی بجٹ کم اور اشرافیہ کا جشنِ مراعات زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس بجٹ میں جن طبقات کو ریلیف ملنا چاہیے تھا ان کی جھولی خالی رہی جبکہ حکمران اشرافیہ کی جھولیاں بے دریغ سرکاری خزانے سے بھر دی گئیں۔ وزیراعظم، وفاقی وزرا، مشیران، معاونین خصوصی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کے لیے کروڑوں روپے کی اضافی مراعات دی گئیں۔ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں سات سو فیصد اضافہ جبکہ عوام کو ایک بار پھر ٹیکسوں کے کوڑے مار کر معاشی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔بجٹ میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا پہلو وزیراعظم شہباز شریف کے سرکاری رہائش گاہ کے اخراجات میں اضافہ ہے۔ گزشتہ برس یہ اخراجات 72 کروڑ روپے تھے جو اب بڑھا کر 86 کروڑ روپے کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں جب ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے لئے9 کروڑ روپے گاڑیوں، 4کروڑ 48لاکھ روپے باغیچے، 1کروڑ 44 لاکھ روپے ڈسپنسری اور 60 لاکھ روپے غیر ملکی دوروں کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔مزید ستم ظریفی یہ کہ وزیراعظم چیریٹی کے نام پر بھی 42 لاکھ روپے کا بجٹ مانگ رہے ہیں۔
اس بجٹ میں تقریبا ً2ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں ۔ یہ ٹیکس براہِ راست ان طبقات پر اثر انداز ہوں گے جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی قلت کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حکومتی وزرا اور مشیروں کی مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وزرا و وزرائے مملکت کا بجٹ 27کروڑ سے بڑھا کر 50 کروڑ 54 لاکھ روپے، مشیروں کا بجٹ 3 کروڑ 61لاکھ سے بڑھا کر 6کروڑ 31لاکھ روپے، اور معاونین خصوصی کا بجٹ 3 کروڑ 70 لاکھ سے بڑھا کر 11کروڑ 34لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حکمران طبقہ ریاست کے خزانے کو اپنا خاندانی ورثہ سمجھتا ہے جہاں سے وہ حسبِ ضرورت بے نیازی سے اپنی مراعات نکالتا ہے۔قومی اسمبلی کا بجٹ آئندہ مالی سال میں 28 فیصد اضافے کے ساتھ 16 ارب 29 کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ سینیٹ کا بجٹ بھی 7 ارب 24 کروڑ روپے سے بڑھا کر 9 ارب 55 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی ایوان ہیں جہاں قانون سازی کا معیار دن بہ دن زوال پذیر ہے، اجلاسوں میں اراکین کی حاضری شرمناک حد تک کم ہو تی ہے اور عوامی مسائل پر بحث مفقود ہے۔ ان ایوانوں کے نمائندے جو خود کو عوام کا منتخب کردہ نمائندہ کہتے ہیں آج عوام سے کہیں زیادہ اپنے مفادات کے نمائندے بن چکے ہیں۔کابینہ ڈویژن کے لیے 68 کروڑ 87 لاکھ روپے اور سینٹرل کار پول کے لیے 62 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کیا یہ وہی ریاست نہیں جہاں ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں ملتیں اسکولوں کی چھتیں گر رہی ہیں اور تھانوں میں انصاف نیلام ہوتا ہے؟ مگر حکومتی گاڑیوں کے لیے کروڑوں کی مالیت کے فنڈز موجود ہیں۔حکمران بارہا ’’اسلامی ریاست‘‘اور یورپ کی مثال دیتے ہیں۔ مگر کیا اسلامی ریاستِ میں خلیفہ وقت بیت المال سے اپنے لیے کوئی شاہانہ خرچ لیتا تھا؟ کیا حضرت عمرؓ کے دور میں کوئی حاکم عوام سے زیادہ مراعات یافتہ ہوتا تھا؟ اگر ہم واقعی ان اصولوں پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو عمل کہاں ہے؟ سادگی کہاں ہے؟ کفایت شعاری کہاں ہے؟ہمارے حکمران یورپ کی مثالیں دیتے بھی نہیں تھکتے۔ عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ مگر کیا وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہاں کے حکمران خود بھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے ہیں؟ ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور ہالینڈ جیسے ممالک کے وزرائے اعظم سائیکل پر دفتر آتے ہیں۔ برطانیہ میں وزیراعظم عام سرکاری گھر میں رہتا ہے اور سخت میڈیا احتساب کا سامنا کرتا ہے۔ پاکستان میں تو حکمران طبقہ عوام سے قربانی کا مطالبہ کر کے خود عیاشیوں کے مزے لیتا ہے۔بجٹ کی یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے معاشی مسائل کا حل محض ٹیکس وصولی نہیں بلکہ ریاستی اخراجات میں حقیقی کمی ہے۔ جب تک حکمران خود سادگی اختیار نہیں کرتے عوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ کیا قربانی صرف عام شہریوں کا مقدر ہے؟ کیا حکمران طبقہ اس ملک کا بوجھ بانٹنے کو تیار نہیں؟یہ کڑوی حقیقت ہے کہ جب عوام مسلسل قربانیاں دیتی رہے اور حکمران مراعات سمیٹتے رہیں تو ایک دن عوام خود حساب لینے نکلتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایسی بے حس اشرافیہ کا انجام کبھی بھی خوشگوار نہیں ہوا۔قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں کی حالت نہایت افسوسناک ہے۔انہیں تو غرض ہی نہیں کہ عوام مریں یا جئیں۔اپوزیشن کا کردار جہاں مثبت ہوتا تھا اور وہ بجٹ سمیت دیگر امور میں اپنا کردار ادا کرتی تھے اب خالی اپنی تنخواہوں اور مراعات کی حد تک محدود ہو گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے خود کو ایک سنجیدہ سیاست دان کی بجائے محض ایک جذباتی اور غیر ذمے دار مقرر کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا سارا بیانیہ ذاتی مفادات، سیاسی انتقام اور ریاست مخالف جذبات پر مبنی ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست اب ملکی سلامتی اور وقار سے زیادہ اپنی قیادت کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ آئے روز ایسے بیانات دیے جاتے ہیں جن سے دشمن قوتوں کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اپوزیشن کا کردار جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہاں اپوزیشن نے اس ذمے داری کو مذاق بنا دیا ہے۔دوسری جانب بجٹ کی موجودہ صورت حال ہمارے معاشی نظام کی خستہ حالی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹیکسوں کی بھرمار سے معیشت نہیں سنبھلتی جب تک ریاستی اخراجات میں حقیقی کمی نہ کی جائے۔ حکمران طبقے کی عیاشی اور عوام پر قربانی کا مسلسل تقاضا ایک ایسا عدم توازن پیدا کر رہا ہے جو کسی بھی وقت تباہ کن صورت اختیار کر سکتا ہے۔ عوام اگر ہر سال نئی مشکلات جھیلیں اور اشرافیہ بدستور مراعات سمیٹے تو پھر ایک وقت آتا ہے جب عوام خود انصاف کا ترازو سنبھال لیتی ہے۔ تاریخ نے کئی بار دکھایا ہے کہ ایسی بے حس حکمرانی کا انجام ہمیشہ ذلت، پشیمانی اور عوامی ردعمل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہ بجٹ ایک معیشت زدہ قوم کے لیے کسی امید کی کرن نہیں بلکہ اشرافیہ کی خود غرضی کا واضح اعلان ہے۔ اس میں عوام کی فلاح، مہنگائی کا حل، روزگار کے مواقع یا تعلیم و صحت کے لیے کوئی انقلابی اقدام نہیں۔ یہ محض اختیارات، مراعات اور پرتعیش زندگی کے تحفظ کی دستاویز ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی سے بڑھا کر لاکھ روپے کروڑ روپے سے زیادہ گئے ہیں کے لیے کا بجٹ

پڑھیں:

(سندھ بجٹ)بے گھر افراد کیلیے 1ارب 19 کروڑکا اعلان

پارکس، لائبریریز اور کراچی زو کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے گئے ،جرأت رپورٹ
گٹر باغیچہ پارک کی بحالی کے لئے 14 کروڑ 70 لاکھ، قبرستانوں کی تعمیر کیلیے40کروڑ

سندھ بجٹ میں کراچی کے پارکس، لائبریریز اور کراچی زو کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ نالوں سے بے گھر ہونے والوں کو آباد کرنے کے لئے ایک ارب 19 کروڑ روپے رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جرات کی رپورٹ کے مطابق محکمہ بلدیات سندھ کے تحت آئندہ مالی سال کی بجٹ میں ناظم آباد کی غالب تیموریہ لائبریری کی بحالی و خوبصورتی کے لئے 9 کروڑ 80 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، لال قلعہ پارک عزیز آباد کی بحالی اور خوبصورتی کے لئے 18 کروڑ روپے خرچ ہونگے، کراچی زو کی بحالی اور خوبصورتی کے لئے 4 کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں، بینظیر بھٹو پارک کے لئے ڈھائی کروڑ اور ملیر لائبریری کمیونٹی سینٹر کے لئے 8 کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ ہونگے۔ ناظم آباد کے کھجی گرانڈ کی بحالی کے لئے 12 کروڑ اور شہر کے انڈر پاسز کے نیچے خوبصورتی، تفریحی اشیا کی فراہمی کے لئے 22 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، کڈنی ہل پارک میں پرندوں کے پنجرے کے لئے 20 کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں، گٹر باغیچہ پارک کی بحالی کے لئے 14 کروڑ 70 لاکھ اور قبرستانوں کی تعمیر کے لئے 40 کروڑ روپے خرچ ہونگے، نارتھ ناظم آباد میں ضیا الدین اسپتال کے ہاکی گرانڈ کی تعمیر و بحالی کے لئے 35 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، گریٹر کراچی ریجنل پلان تیار کرنے کے لئے 20 کروڑ روپے مختص ہوئے ہیں۔ کراچی کے تین بڑے نالوں گجر، اورنگی اور محمود آباد نالوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کو آباد کرنے کے لئے ایک ارب 19 کروڑ روپے خرچ ہونگے۔

متعلقہ مضامین

  • ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کی فلم ’لو گرو‘ نے باکس آفس پر کتنے کروڑ کمائے؟
  • (سندھ بجٹ)بے گھر افراد کیلیے 1ارب 19 کروڑکا اعلان
  • سندھ بجٹ، کراچی کی سڑکوں کی تعمیرات کے لیے مختص فنڈزسامنے آگیا
  • سیدناعثمان غنیؓ جیساخدمت کا جذبہ کسی حکمران میں نہیں، شاہ عبد الحق
  • خیبر پختونخوا کے دو بڑے آئینی سربراہوں کے خرچے بڑھ گئے
  • خیبرپختونخوا کے دو بڑے آئینی سربراہوں کے خرچے بڑھ گئے
  • خیبر پختونخوا کے ایک سال کے دوران قرضوں میں 43 ارب 59 کروڑ روپے کا اضافہ
  • خیبرپختونخوا کے ایک سال کے دوران قرضوں میں 43 ارب 59 کروڑ روپے کا اضافہ
  • جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا‘مولانا فضل الرحمان