پاکستان نےایران کا ساتھ نہ دیا تو اگلا وار خود پاکستان پر ہوگا، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
لاہور میں خطاب کرتے ہوئے تحریک بیداری کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو صادقین کیساتھ نہیں، وہ لاشعوری طور پر غزہ، ایران اور انسانیت کے قاتلوں ٹرمپ، نیتن یاہو اور ان کے صہیونی ایجنڈے کیساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو خبردار کیا کہ اس معرکے میں خاموشی، غفلت یا غیر جانبداری دراصل ظلم کیساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان صدائے حق کے ساتھ واضح اور بے خوف انداز میں کھڑا ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ایران محض ایک ناجائز صہیونی ریاست کیخلاف نہیں لڑ رہا، بلکہ وہ اسلام، قرآن، انسانیت اور پاکستان کے دیرینہ دشمن کیخلاف صف آراء ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے ایران کیساتھ کھڑے ہونے کے بجائے غیر جانبداری کا راستہ اپنایا، تو صہیونی منصوبہ سازوں کا اگلا ہدف پاکستان خود ہوگا، اور یوں یہ جنگ ہماری دہلیز تک آن پہنچے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "یہ وقت فرقہ واریت کا نہیں، وحدت کا ہے، ہمیں شیعہ یا سنی نہیں، پاکستانی بن کر ایران کیساتھ کھڑا ہونا ہے، کیونکہ ایران کیساتھ کھڑا ہونا حق، صداقت اور صادقین کیساتھ کھڑا ہونا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ جو صادقین کیساتھ نہیں، وہ لاشعوری طور پر غزہ، ایران اور انسانیت کے قاتلوں ٹرمپ، نیتن یاہو اور ان کے صہیونی ایجنڈے کیساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو خبردار کیا کہ اس معرکے میں خاموشی، غفلت یا غیر جانبداری دراصل ظلم کیساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان صدائے حق کے ساتھ واضح اور بے خوف انداز میں کھڑا ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیساتھ کھڑا انہوں نے
پڑھیں:
پریس کلب پر پولیس کا دھاوا قابلِ مذمت ہے، صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں،مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ “پریس کلب میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ صحافیوں پر پولیس تشدد کسی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن اور باشعور لوگ ہیں، جو اپنا دائرہ کار جانتے ہیں۔ “نیشنل پریس کلب ایک مقدس جگہ ہے، اور وہاں موجود صحافی میدان میں نہیں بلکہ اپنی حدود میں موجود تھے۔ ان کے خلاف کسی قسم کی شکایت کا کوئی جواز نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔”
صحافیوں پر تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا
مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آباد پولیس کا صحافیوں کو مارنا پیٹنا، ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا، اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ “صحافیوں کا احتجاج ان کا آئینی و جمہوری حق ہے، ہم ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات: پریس کلب کی حرمت پامال
یاد رہے کہ 2 اکتوبر کو آزاد کشمیر میں تشدد کے خلاف چند مظاہرین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو کچھ مظاہرین عمارت کے اندر چلے گئے، جس کے تعاقب میں پولیس اہلکار زبردستی پریس کلب کے اندر داخل ہو گئے۔
اس دوران پولیس نے نہ صرف مظاہرین کو گرفتار کیا بلکہ وہاں موجود صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کلب کے عملے پر بھی تشدد کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک فوٹوگرافر کا کیمرا توڑ دیا گیا، جبکہ کیفے ٹیریا میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
صحافتی اداروں کا شدید ردعمل
اس واقعے پر ملک کی بڑی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش نہیں رہیں۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (AEMEND) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پولیس کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔