اقوام متحدہ میں ایرانی اور اسرائیلی مندوبین کے مابین تند و تلخ جملوں کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں ایران اور اسرائیل کے نمائندے شدید سفارتی جھڑپ میں ملوث ہوئے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جارحیت کے الزامات لگائے اور اپنے اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر واضح کرنے کی کوشش کی۔
’ایران کا نیوکلیئر پروگرام خطرہ ہے‘، اسرائیل کا مؤقفاسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس وقت تک اپنے حملے جاری رکھے گا جب تک ایرانی خطرہ مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔
’اسرائیل انسانیت کے خلاف جنگ کر رہا ہے‘، ایران کا جوابایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایراوانی نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملے ’انسانیت کے خلاف جنگ‘ کے مترادف ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملے جارحانہ ہیں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایران نے اقوام متحدہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا تاکہ صورتحال مزید بگڑنے سے بچائی جا سکے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی وارننگاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے دونوں ممالک کو خبردار کیا کہ اگر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تو خطے اور دنیا کو تباہ کن نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پرہے، کشیدگی کو کم کیا جائے: اینتونیو گوتریس
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام فریقین امن کو موقع دیں۔
’جوہری تنصیبات پر حملے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں‘، IAEA کا خدشہاقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے بھی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے بشیر جوہری ری ایکٹر جیسے حساس مقامات پر حملے کسی بھی وقت تباہ کن جوہری حادثے کا سبب بن سکتے ہیں، جو کہ نہ صرف ایران بلکہ پڑوسی ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔
یورپ کی ثالثی ناکام، چین و روس کا تحمل پر زوریورپی ممالک نے ایران کے ساتھ جنیوا میں مذاکرات کی کوشش کی، تاہم ایران نے واضح طور پر کہا کہ جب تک اسرائیلی جارحیت بند نہیں ہوتی وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
امریکا نے بھی فی الوقت اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے سے گریز کیا ہے۔ دوسری جانب چین اور روس نے تحمل اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان مسلسل فوجی کارروائیاںواضح رہے کہ اسرائیل نے ایرانی نیوکلیئر اور فوجی مراکز پر فضائی حملے کیے جن کے جواب میں ایران نے اسرائیلی شہروں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔
دونوں ممالک کی جانب سے الزامات، حملے اور ردعمل کی صورت میں خطہ مکمل طور پر کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔
اقوام متحدہ میں کشیدگیاقوام متحدہ میں ایران اور اسرائیل کی زبانی جنگ دراصل میدانِ جنگ میں جاری لڑائی کا سفارتی عکس ہے۔ جہاں اقوام متحدہ امن کی اپیلیں کر رہا ہے، وہیں دونوں ممالک اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
اگر یہ تنازع مزید بڑھا تو یہ صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل مندوب اقوام متحدہ امیر سعید ایراوانی انتونیو گوتریس ایران ڈینی ڈینن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل مندوب اقوام متحدہ امیر سعید ایراوانی انتونیو گوتریس ایران ڈینی ڈینن اقوام متحدہ میں دونوں ممالک کہ اسرائیل میں ایران ایران کے کہا کہ
پڑھیں:
اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
چین، روس، الجزائر اور پاکستان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جنوبی کوریا اور گیانا نے اس پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سیرا لیون، سلووینیا، ڈنمارک، یونان، پاناما اور صومالیہ نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔ اسلام ٹائمز۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں میں توسیع کے خاتمے کے بارے میں قرارداد پر ووٹنگ کے لیے منعقد ہوا، اور مغربی ممالک کی جانب سے منفی ووٹ کی وجہ سے اس قرارداد کی منظوری جوہری معاہدے (JCPOA) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناکام ہوگئی۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، جمعہ کی سہ پہر سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران پر پابندیوں میں توسیع کے خاتمے کو جاری رکھنے کے حوالے سے ووٹنگ ہوئی۔ چین، روس، الجزائر اور پاکستان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جنوبی کوریا اور گیانا نے اس پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سیرا لیون، سلووینیا، ڈنمارک، یونان، پاناما اور صومالیہ نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے یورپی فریقوں کے ساتھ متعدد تعاملات اور مذاکرات اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے باوجود، تین ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایرانی عوام کے ساتھ اپنی دشمنی کو جاری رکھتے ہوئے، آج (جمعہ) "اسنیپ بیک" کے نام سے موسوم قرارداد کو ووٹنگ کے لیے پیش کی۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ ایران پر دباؤ بڑھانے پر اصرار کر رہا ہے، اور تین یورپی ممالک بھی واشنگٹن کی مکمل تابعداری اور بے عملی کے ذریعے عملی طور پر سفارت کاری کا راستہ مسدود کر رہے ہیں۔
اس طرح ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کا خاتمہ نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ اقدام تین یورپی ممالک کی جانب سے ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ایران نے گزشتہ مہینوں میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ وسیع تعاون کیا ہے اور قاہرہ معاہدے سمیت حالیہ مفاہمتوں کی ایجنسی نے مکمل طور پر توثیق کی ہے۔ اس اجلاس میں ہر ملک کے نمائندے نے اپنا موقف پیش کیا۔ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے نے کہا کہ جن ممالک نے ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں، انہیں ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے نے مزید کہا کہ ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے یورپی ٹرائیکا کا اقدام کسی قانونی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ روسی نمائندے نے زور دیا کہ یہ یورپ ہے، جو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں سفارتی عمل میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسی طرح اجلاس میں فرانسیسی نمائندے نے دعویٰ کیا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کے سفارتی حل کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران نے مجاز سطح سے 48 گنا زیادہ یورینیم افزودہ کیا ہے۔ چین کے نمائندے نے بھی ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خاتمے کے حق میں گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں جاری رکھنے سے بحران حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھیں، برجام اور قرارداد 2231 میں ہمارے اقدامات موجود ہیں اور ایران کو بھی اپنے وعدے پورے کرنے چاہیئں۔ امریکی نمائندے نے کہا کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ نے سلامتی کونسل کو ایران کی عدم تعمیل کے بارے میں رپورٹ دی، ایران نے برجام میں طے شدہ مقدار سے زیادہ افزودگی کی ہے۔ برطانوی نمائندے نے کہا کہ یورپی ٹرائیکا قانونی طور پر ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی پابند تھی۔