بھارت نے سندھ طاس معاہدہ بحال کرنے سے انکار کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ بحال نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ پاکستان کو اب وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کے مطابق اس کا کوئی حق نہیں۔
امیت شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان جانے والے پانی کو روکنے کے لیے ایک نہر بنائی جائے گی جس کے ذریعے یہ پانی بھارت کے صوبے راجستھان منتقل کیا جائے گا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت اپنے حصے کا پانی اندرون ملک استعمال کرے گا اور پاکستان کو اس سے محروم رکھا جائے گا۔
یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب چند ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں فائرنگ کے ایک واقعے میں 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بھارت نے کسی واضح ثبوت کے بغیر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، اور یہ ایک دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے، جسے کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر ختم یا معطل نہیں کر سکتا۔
پاکستانی حکام نے واضح کیا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ خطے میں پانی کے اشتراک سے متعلق عالمی اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسلام آباد نے عالمی برادری سے اس مسئلے کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سر سبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کے تصور کی عالمی اہمیت پر خصوصی سمپوزیم کا انعقاد
بیجنگ :
رواں سال “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں” کے تصور کو پیش کیے ہوئے بیس سال ہو چکے ہیں۔اس فلسفے کی عالمی اہمیت پر ایک خصوصی سمپوزیم حال ہی میں بیجنگ میں منعقد ہوا ۔ سمپوزیم میں اس بات پر زور دیا گیا کہ “سرسبز پہاڑ اور صاف پانی انمول اثاثہ ہیں”‘ کا تصور اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان نظریاتی اتحاد کو گہرائی سے واضح کرتا ہے۔ یہ تصور ظاہر کرتا ہے کہ ماحولیاتی نظام کی حفاظت دراصل پیداواری صلاحیت کی حفاظت کے برابر ہے، اور ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانا دراصل پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے مترادف ہے۔ یہ تصور چینی خصوصیات کے حامل ایک اختراعی کارنامے کی نمائندگی کرتا ہے، جو دور حاضر کے جذبے کو مجسم کرتا ہے، ترقی کے رجحانات کے مطابق ہے، اور تہذیبی ترقی کی رہنمائی کرتا ہے۔
چین میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر سدھارت چیٹرجی نے کہا کہ اس تصور کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام، گلوبل انوائرنمنٹ فیسلیٹی، اور عالمی بینک جیسی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے نمایاں تحسین اور پہچان ملی ہے۔ اقوام متحدہ اور چین مل کر موسمیاتی موافقت، سبز جدت، اور جنوب-جنوب تعاون کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ایک جامع، سبز، اور منصفانہ پائیدار مستقبل حاصل کیا جا سکے۔
عالمی ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے، شرکاء نے متفقہ طور پر اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری تبادلوں اور تعاون کو گہرائی سے فروغ دے گی، مل کر ماحولیاتی جدیدیت کو فروغ دے گی، اور ایک صاف، خوبصورت، اور پائیدار دنیا کی مشترکہ تعمیر کے لیے کوشش کرے گی۔
شرکاء میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، چین میں متعلقہ سفارت خانوں، بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں ، اور ملکی و بین الاقوامی یونیورسٹیوں، تھنک ٹینکس، اور تحقیقی اداروں کے نمائندے شامل تھے، جو امریکہ، برطانیہ، نیدرلینڈز، بیلجیم، ہنگری، ازبکستان، سری لنکا، آذربائیجان، اور اردن جیسے ممالک کی نمائندگی کر رہے تھے۔