وزیراعظم کی حج آپریشن کی تیاری شروع کرنے اور نجی اسکیم ریگیولرائز کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے اگلے سال حج کی تیاریوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں وزارت مذہبی امور کو نجی حج اسکیم ریگیولرائز کرنے کی ہدایت کردی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ برس حج کی تیاری کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں وزارت مذہبی امور کو آئندہ برس حج آپریشن کی تیاری ابھی سے شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے جاری کردہ حج پالیسی سے لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور آئندہ برس حاجیوں کی خدمت میں کسی قسم کی لاپرواہی قبول نہیں ہوگی۔
اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت مذہبی امور کو نجی حج اسکیم ریگیولرائز کرنے کی بھی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ برس حج کے حوالے سے مدت کا تعین کرکے جلد لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کیا جائے۔
اجلاس میں وفاقی وزرا مصدق ملک، سردار محمد یوسف اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرنے کی
پڑھیں:
ٹیکس چوروں کیلئے ریلیف کا دور ختم، آئندہ بجٹ میں ایمنسٹی اسکیم کا امکان نہیں، محمد اورنگزیب
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کسی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم شامل نہیں ہوگی، ان کے مطابق حکومت کی توجہ اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور نظام کو شفاف بنانے پر ہے، کیونکہ ٹیکس چھوٹ اور رعایت کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی کمیٹیوں نے پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کرنے کی حکومتی تجویز کو عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جب کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ ٹیکس چھوٹ اور ایمنسٹی اسکیموں کا دور ختم ہو چکا ہے۔
تاہم، کمیٹیوں نے اعلیٰ پنشنز اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر نئے ٹیکسز کی منظوری دے دی۔
کاربن لیوی کا معاملہ اُس وقت مرکزِ نگاہ بن گیا جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خزانہ و ریونیو سے متعلق قائمہ کمیٹیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بیک وقت آئندہ مالی سال کے فنانس بل کی شق وار جانچ پڑتال کا آغاز کیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور ایم این اے نوید قمر کی زیر صدارت دونوں کمیٹیوں نے کئی ترامیم تجویز کیں اور متعدد اقدامات کو مسترد کر دیا، سینیٹ نے جمعرات کو مجوزہ ٹیکس اقدامات پر اپنی بحث مکمل کر لی۔
بحث اس نکتے پر مرکوز رہی کہ آیا یہ اقدام لیوی ہے یا ٹیکس، اس سے متوقع آمدن کتنی ہوگی، صوبوں کو اس میں کتنا حصہ ملے گا اور آیا یہ واقعی ماحولیاتی اقدام ہے یا وفاقی حکومت کی آمدن بڑھانے کا ذریعہ۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے واضح کیا کہ کاربن لیوی اور کاربن ٹیکس میں فرق ہے۔
اُن کے مطابق دنیا میں عموماً کاربن ٹیکس رائج ہے، کاربن لیوی نہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس قسم کا اقدام فنانس بل کے ذریعے نہیں بلکہ الگ قانون سازی سے نافذ ہونا چاہیے۔
سینیٹر شبلی فراز نے اس اقدام کو حکومت کا تضاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت ماحولیاتی تبدیلی کی بات کرتی ہے، دوسری طرف لیوی لا رہی ہے، یہ کاربن لیوی نہیں، بلکہ بھتہ خوری لگتی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے سپریم کورٹ کے ظفر اقبال جھگڑا کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس فیصلے کی روشنی میں کاربن لیوی عائد نہیں کی جاسکتی، ایسا کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
انہوں نے ایران سے ایندھن کی اسمگلنگ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ کاربن ٹیکس مخصوص صنعتوں پر ماحولیاتی مقاصد کے تحت لگایا جاتا ہے، نہ کہ براہِ راست عوام پر اور کلائمیٹ فنانس کے نام پر عام شہریوں پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا مؤقف واضح ہے کہ ایسا اقدام فنانس بل کے ذریعے قابلِ عمل نہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے بھی کاربن لیوی کی مخالفت کی اور اسے عوام پر بلاجواز بوجھ قرار دیا۔
ایم این اے نوید قمر نے کاربن لیوی سے ممکنہ آمدن کی وضاحت طلب کی۔ وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ اس اقدام سے آئندہ مالی سال میں 45 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔
نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ اگر اس کو ٹیکس کی شکل دی جائے تو وفاقی حکومت کو اس میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ جس پر وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے وضاحت کی کہ اگر یہ کاربن ٹیکس میں تبدیل ہوا تو وفاق کو 18 ارب روپے ملیں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کاربن ٹیکس کی تجویز آئی کہاں سے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ یہ معاملہ پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں زیرِ بحث آچکا ہے۔
ایم این اے ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے وضاحت کی کہ اگر یہ لیوی برقرار رہی تو تمام رقم وفاق کو جائے گی، لیکن اگر اسے ٹیکس بنایا جائے تو صوبے بھی اس میں شریک ہوں گے۔
سینیٹر مانڈوی والا نے ان فنڈز کے مخصوص استعمال کی تفصیلات طلب کیں، جب کہ شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) معاہدے کی تمام شرائط ظاہر کرے۔
سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد
دریں اثنا سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے بجلی صارفین پر اضافی بوجھ کے خدشے کے پیش نظر سرچارج کی حد ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔ کمیٹی نے چھوٹی گاڑیوں پر لیوی کی تجویز کو بھی رد کر دیا۔
تاہم، کمیٹی نے سالانہ 1 کروڑ روپے سے زائد پنشنز پر ٹیکس، بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمدن پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور اکنامک و اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی توسیع کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی نے سولر مصنوعات پر 10 فیصد سیلز ٹیکس کے مجوزہ اقدام پر بھی غور کیا۔
نوید قمر کے مطابق حکومت نے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی اور منظوری کے بعد ایف بی آر اس پر عمل درآمد کرے گا۔
ایم این اے مبین عارف نے تجویز دی کہ اگر سینیٹ نے 10 فیصد کی سفارش کی ہے تو قومی اسمبلی کی کمیٹی کو مزید کمی کی سفارش کرنی چاہیے، اس پر نوید قمر نے واضح کیا کہ یہ تجویز سینیٹ کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی طرف سے آئی تھی۔
دھوکہ دہی سے متعلق شقوں پر مزید غور کے لیے فیصلہ مؤخر کر دیا گیا اور فنانس بل کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا۔
کمیٹی نے خام کپاس کیلئے ایکسپورٹ فنانس اسکیم پر نظرِ ثانی اور مقامی کپاس پر ٹیکس کو درآمدی کپاس کے برابر کرنے کی تجویز دی۔
نئی انرجی وہیکلز لیوی
اراکین نے نیو انرجی وہیکل ایڈاپشن لیوی ایکٹ 2025 پر بات کی اور الیکٹرک گاڑیوں کی منتقلی کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی کمی اور چارجنگ اسٹیشنز کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اراکین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مجوزہ اقدامات میں ہائبرڈ گاڑیاں شامل نہیں۔
ان خدشات کے باعث، کمیٹی نے معاملے پر غور آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا اور وزارت سے قابلِ عمل منصوبہ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
بعدازاں، کمیٹی نے اسٹامپ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر غور کیا۔ تفصیلی بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ترمیم میں نان فائلر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، حالانکہ یہ زمرہ موجودہ قوانین سے حذف ہو چکا ہے۔
اس تضاد کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دیا۔
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب کوئی نئی ٹیکس چھوٹ یا ایمنسٹی اسکیم نہیں دی جائے گی۔
اُن کے مطابق حکومت اب ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر توجہ دے رہی ہے اور یہ عمل سرگرمی سے جاری ہے۔
کمیٹی کے مباحثے میں ٹیکس تعمیل (ٹیکس کمپلائنس) پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ایف بی آر نے تجویز دی کہ غیر رجسٹرڈ افراد کے بینک اکاؤنٹس بند کیے جائیں اور غیر مطیع ٹائر-1 ریٹیلرز کی یوٹیلیٹیز منقطع کی جائیں۔
تاہم، ایف بی آر نے اعتراف کیا کہ نظام میں خامیاں موجود ہیں، کیونکہ 3 لاکھ صنعتی یونٹس میں سے صرف 35 ہزار سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔
ایم این اے جاوید حنیف نے سخت اقدامات کی حمایت کی، جب کہ شرمیلا فاروقی نے سزاؤں کی بجائے مراعاتی پالیسی کی تجویز دی۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پوچھا کہ اب تک کتنے نان فائلرز کے کنکشن منقطع کیے گئے ہیں؟ انہوں نے خبردار کیا کہ ٹیکس حکام کو بہت زیادہ اختیارات دینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے حربوں کا اعتراف کیا اور اختیارات میں اضافے پر زور دیا، ساتھ ہی یقین دہانی کروائی کہ بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا عمل عارضی ہوگا۔
Post Views: 4