پاکستان انڈیا جنگ بند کرانے میں امریکا کا اہم کردار تھا، شاہد خان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سابق امریکی پالیسی ایڈوائزر شاہد خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی پیشرفت ہے اور پاکستان کے حق میں بہت زیادہ جاتی ہے، اس وقت سولو سپر پاور جس کی طرف سب دیکھتے ہیں وہ یقیناً امریکا ہے،کچھ ماہ پہلے جب صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالی تو تاثر تھا کہ امریکا اور انڈیا کے تعلقات بہت بہتر ہوں گے کیونکہ بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدرکے درمیان ذاتی تعلقات ہیں مگر یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ امریکی صدر کی طرف سے جو لنچ تھا، اس سے پہلے اس قسم کی کوئی پیشرفت امریکی تاریخ میں نہیں ہوئی کہ کسی ملک کے آرمی چیف کو صدر ذاتی طور پر بلائے اور اس کو اسٹیٹ گیسٹ کا پروٹوکول دیا جائے ، یہ ریاست پاکستان کے لیے اور پاکستانی عوام کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان انڈیا جنگ بند کرانے میں یقیناً امریکا کا بہت بڑا کردار تھا۔
ماہر بین الاقوامی امور سلمی ملک نے کہا کہ ایران تو گفتگو کیلیے تیار ہے اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بات چیت کر بھی رہا ہے، مگر بدقسمتی سے اسرائیل کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی امریکا کا موڈ ہے ، ان کی شرائط پر اگر ایران جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے توپھر بات ٹھیک ہے ورنہ یہ جنگ چلتی رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس جنگ میں امریکا اتنا ہی ملوث ہے جتنا اسرائیل ہے،ماہر بین الاقوامی امور احمر بلال صوفی نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں ایسی کوئی پرویڑن نہیں ہے کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے یا پانی کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اگر اس قسم کی ٹریٹی نہ بھی ہو تو بین الاقوامی قانون میں اپر رپیرین کے پاس پانی کا رخ کسی بھی طریقے سے موڑنے کے کوئی رائٹس نہیں ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
امریکی صدر کی پاکستان سے ’’محبت‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے لیے جذبات محبت آج کل کچھ زیادہ ہی امڈے چلے آ رہے ہیں چنانچہ اسی جذباتی کیفیت میں جہاں انہوں نے ’’آئی لو پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے وہیں امریکا کے دورے پر مدعو کیے گئے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بھی غیر معمولی پذیرائی بخشی گئی ہے جسے بجا طور پر ذرائع ابلاغ نے ’’تاریخی‘‘ قرار دیا ہے، امریکی صدر نے پاک فوج کے سپہ سالار کو ایوان صدر ’وائٹ ہائوس‘ کے کیبنٹ روم میں ظہرانہ دیا اس موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی خصوصی ملاقات بھی ہوئی جس کے دوران انہوں نے امریکی صدر کو پاک بھارت جنگ سے متعلق امور سے آگاہ کیا اور خطے میں امن و امان کی صورت حال پر تبادلہ خیالات بھی کیا گیا۔ اس ملاقات میں پاک امریکا تعلقات کو مزید وسعت دینے پر بات چیت بھی ہوئی۔ دو گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں ایران سے متعلق امور بھی زیر غور آئے۔ اس موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیکسگتھ سے ملاقاتیں بھی کیں بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفت گو کرتے ہوئے امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے باعث اعزاز قرار دیا اور کہا کہ میں نے انہیں بھارت سے جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے ایوان صدر ’وائٹ ہائوس‘ مدعو کیا تھا۔ میں ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ جنگ کی طرف نہیں گئے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ فیلڈ مارشل سے ملاقات کے دوران حالیہ ایران اور اسرائیل کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ پاکستان ایران کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے جب کہ فیلڈ مارشل سے پاکستان کے تجارتی معاہدے پر بھی بات ہوئی۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور کہا آئی لو پاکستان، مجھے پاکستان سے پیار ہے، پاکستان ایک اہم ایٹمی طاقت اور مجھے پسند ہے۔ میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کو روکا ہے۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر اپنے ملک کی ایک با اثر شخصیت ہیں اور انہوں نے پاکستان کی طرف سے جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹرمپ نے کہا پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں۔ ادھر آرمی چیف کی امریکی صدر سے ملاقات کو اسلام آباد میں ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کسی بھی بھارتی وفد سے پہلے وائٹ ہائوس مدعو کیا گیا جو امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان اسٹرٹیجک ترجیح کا واضح اشارہ ہے۔ امریکی صدر سے فیلڈ مارشل کی ملاقات اس بات کی غمازی ہے کہ امریکا علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار سے بخوبی واقف ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے جنہوں نے وائٹ ہائوس میں موجودہ امریکی صدر سے اعلیٰ سطحی ملاقات کی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی یہ تاریخی مصروفیت پاکستان امریکا تعلقات میں اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے اور پاکستان کی عسکری قیادت کے بلند عالمی قد کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ ملاقات سویلین نمائندگی کے بغیر پاکستان کی فوجی قیادت اور امریکی حکومت کے اعلیٰ ترین سطح کے براہ راست روابط کی جانب اشارہ بھی کرتی ہے۔ اس وقت جب کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ نے پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت و سرپرستی پر کمربستہ ہے بلکہ اسرائیل کی سالمیت کے تحفظ کے نام پر خود بھی براہ راست اس جنگ میں کودنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور صدر ٹرمپ اس حوالے سے اپنے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے دعوے اور ایران کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا حکم سنا رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اس جنگ میں اعلانیہ ایران کی حمایت کر رہا ہے، پاکستان اسرائیل کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا اور اسے واضح الفاظ میں ایک جارح ریاست تصور کرتا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے فوجی سربراہ کی اس غیر معمولی اور غیر روایتی پذیرائی کو خالی ازعلت نہیں سمجھا جا سکتا۔ خاص طور پر امریکا کے پاکستان کے بارے میں ماضی قریب و بعید کے طرز عمل کی روشنی میں صدر ٹرمپ کی پاکستان سے یہ محبت بے مقصد نہیں ہو سکتی اس لیے لازم ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور پاکستان کے دیگر فیصلہ ساز امریکا سے دفاعی ہوں یا تجارتی معاملات میں کسی پیش رفت اور وعدہ وعید یا معاہدوں وغیرہ سے قبل دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والے اتار چڑھائو کا ایک بار پھر سے بغور مطالعہ کر لیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے پیش اور ملک کے پہلے فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی خود نوشت ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ جس کا ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے دستیاب ہے، کا مطالعہ ضرور کیا ہو گا۔ اس میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے، انہیں بہرحال فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم، امریکا کو جس قدر محبوب تھے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر اپنا مقصد پورا ہو جانے کے بعد امریکا نے ان سے جو سلوک کیا وہ ہر باشعور فرد کے لیے باعث عبرت ہے۔ اہل پاکستان اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور پھر ان طیاروں کی قیمت وصول کرنے کے باوجود طیاروں کی فراہمی سے صاف انکار کر دیا تھا اور پاکستان کو طیاروں کی قیمت تک واپس کرنے سے منکر ہو گیا تھا اور ہمیں اس رقم کے عوض گندم کی خریداری پر مجبور کیا گیا تھا اور یہ بات کوئی غیرت مند پاکستانی کس طرح بھول سکتا ہے کہ یہ ہمارے دوست امریکا کے حکمران ہی تھے جنہوں نے اہل پاکستان پر ’’مادر فروشی‘‘ کا الزام لگانے اور طعنہ زنی تک سے گریز نہیں کیا تھا۔ آج اس امریکا کے صدر کے پیٹ میں پاکستان کی محبت کا مروڑ اٹھا ہے اور وہ ہمارے فیلڈ مارشل کو غیر معمولی پذیرائی بخش رہا ہے تو دال میں کچھ کالا کا شک بلاجواز نہیں اس لیے ضروری ہے کہ پاکستانی حکمران خصوصاً عسکری قیادت ان چکنی چپڑی باتوں اور خوشامد کے جال میں پھنسنے کے بجائے نہایت احتیاط سے سوچ بچار کرکے پاکستان کے مفاد کو اوّلین ترجیح سمجھتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائے…!! خاص طور پر کشمیر پر صدر ٹرمپ کی بار بار ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے سے قبل یہ امر پیش نظر رہے کہ امریکا کشمیر پر اپنا مخصوص ایجنڈا رکھتا ہے جو وہ ثالثی کے دوران منوانے کی کوشش کرے گا اگرچہ موجودہ حالات میں بھارت بھی ایسے کسی حل اور امریکی ثالثی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں، تاہم ہمیں بھی یہ حقیقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ امریکی ایجنڈے کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان کے قطعی مفاد میں نہیں۔