داخلی سیکیورٹی کا سنگین چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
پاکستان کی داخلی چیلنجز سے نمٹنا ہمارے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے دو صوبے بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات نے حکومتی رٹ کو بھی کمزور کیا ہے۔ دہشت گرد گروہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں، اس سے نمٹنا داخلی سلامتی کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے۔
آج کے درو میں اگر کسی فریق نے ریاست یا حکومت کے نظام کو کمزور کرنا ہے یا اسے عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے تو اس میں سیکیورٹی کے مسائل پیدا کرکے بہت کچھ پیچھے کی طرف دکھیلا جاسکتا ہے۔پاکستان جو خود کو معاشی بنیادوں پر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور نئے سیاسی اور معاشی امکانات کی تلاش میں ہے تو اس میں بھی ایک بڑی رکاوٹ داخلی سطح پر موجود سیکیورٹی سے جڑے مسائل ہیں۔
ہماری سیکیورٹی سے جڑے مسائل کی حکمت عملی کی ایک ناکامی داخلی مسائل کا درست تجزیہ بھی نہیں ہے۔ عموماً ہم فوری طور پر ان مسائل کی وجہ علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔یقینا یہ علاقائی ممالک کی جانب سے مداخلت اور دہشت گردوں کی سرپرستی بھی ایک فیکٹر ہو ۔لیکن ان مسائل میں جو کچھ ہماری داخلی سیکیورٹی سے جڑی کمزوریاں ہیں۔ سوال یہ بھی کہ کیا وجہ ہمارا داخلی ریاستی ، حکومتی اور سیکیورٹی کا نظام علاقائی ممالک کی مداخلت کو روکنے میں ناکام ہے اور کیونکر ہم طاقتور طبقے کا احتساب یا جوابدہی نہیں کرسکے ہیں۔
داخلی مسائل سے نمٹنے کے لیے جو فریم ورک بنایا ہوا ہے اس پر کیونکر عملدرآمد نہیں ہورہا اور کیونکر اس کی بنیاد شفافیت،مشاورت،اتفاق رائے اور جوابدہی یا احتساب پر قائم نہیں ہے۔ایک ایسی ریاست یا حکومت کا نظام جو داخلی سطح پر ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہے وہاں دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے پر مبنی بیانیہ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کی لکیریں اور زیادہ گہری ہورہی ہیں۔ا س کا ایک نتیجہ لوگوں میں عدم اعتماد اوربھروسہ کی کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
ہماری حکمت عملیوں میں طاقت اور انتظامی نوعیت کو زیادہ بالادستی حاصل ہے جب کہ ہم سیاسی حکمت عملیوں کو اختیار کرنے میں جہاں ناکامی سے دوچار ہیں وہیں یہ سیاسی حکمت عملیاں ہماری ترجیحات کے حصہ میں نمایاں طور پر دیکھنے کو بھی نہیں مل رہی یا اس کا فقدان نظر آتا ہے۔
اس کی ایک وجہ ان دونوں صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتوں کی کمزوری یا وفاقی حکومت کی سیاسی مجبوریوں یا سیاسی سمجھوتوں کی کہانی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔وفاقی حکومت کی غلطی یہ ہے کہ وہ خود کوئی بڑی ذمے داری یا خود کوجوابدہ بنانے کے بجائے ان تمام معاملات کی ذمے داری یا اس کی ناکامی کا سارا بوجھ صوبائی حکومتوں پر یا اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہے جب کہ خیبرپختونخوا حکومت کی پالیسی دہشت گردی کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے یا دوعملی کامظاہرہ ہو رہا ہے جب کہ بلوچستان کی حکومت زیادہ انحصار وفاقی اداروں پر کرتی ہے ۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی کشیدگی اور سیاسی سیز فائر کا نہ ہونا بھی ہمارے سیکیورٹی سے جڑے مسائل میں اضافہ پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جہاں حکومت اور حزب اختلاف تقسیم یا ٹکراو کا شکار ہوگی وہاں سیاسی خلا یا خلیج کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔اس کے نتیجے میں غیر جمہوری اور غیر ریاستی قوتیں یا بیرونی مداخلت کار اس خلیج یا خلا کا فائدہ اٹھا کر اپنا ایجنڈا مسلط کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے سیاسی کشیدگی کو کم یا ختم کرنے کا ایجنڈا بھی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکا اور ہم مسلسل محازآرائی اور انتشار کی سیاست میںجکڑے ہوئے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔جہاں ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کیا جائے گا وہاں سیاسی استحکام کو پیدا کرنا اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی سمجھنی ہوگی جہاں ریاست کے نظام میں لوگوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ نہیں دیا جائے گا یا حکمرانی کے نظام میںلوگوں کی ضروریات اور ترجیحات کو اہمیت نہیں دی جائے گی وہاں ریاست یا حکومت کے نظام لوگوں کا منفی ردعمل ،غصہ اور بغاوت کے اظہار کا سامنے آنا فطری ہوتا ہے۔
لیکن اس ردعمل سے نمٹنے کا علاج محض طاقت اور بندوق کا استعمال نہیں ہوتا اور جہاں لوگوں کے اہم سیاسی،سماجی ،قانونی اور معاشی مسائل ہیں ان سے سیاسی بنیادوں پر نمٹنا ہی درست حکمت عملی ہوتی ہے۔ہمیں لوگوں کی آوازوںکو سننا ہوگا اور ان کے مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔ان کو باغی یا غدار یا ان کی وفاداری کو چیلنج کرنے یا ان پر الزامات کی بارش بھی مسائل کا حل نہیں ہے اور اس کے لیے علمی، فکری اور سیاسی راستہ ہی تلاش کرنا ہوگا۔
پاکستان جو سفارتی سطح پر اپنے مفادات کے لیے علاقائی یا عالمی سطح پر جنگ لڑنا چاہتا ہے یا اس کی تیاری کررہا ہے یا آج بھی براہ راست خود اس میں شامل ہے اس کی کامیابی کا انحصار بھی ہماری داخلی سیکیورٹی کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ہمیںضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی داخلی سیکیورٹی سے جڑے مسائل کا بہتر پوسٹ مارٹم کریں اور ایک مشاورت کی بنیاد پر تجزیہ کریں کہ ہم سے خود ہماری پالیسیوں یا حکمت عملی میں کہاں کہاں غلطیاں ہورہی ہیںاور اس کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی معاملات یا اپنے گھر کو درست یا اس کی ترتیب کو نئے سرے سے نہیں جوڑیں گے ہم کوئی بڑا مثبت نتیجہ نہیں نکال سکیں گے۔یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیکیورٹی کے جو مسائل بڑھ رہے ہیں اس میں ہمارا سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا یا اس سے جڑے منفی پہلو یا گورننس یعنی حکمرانی کے بحران کا بھی جو بلاوجہ یا ہماری اپنی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے سیکیورٹی سمیت دیگر مسائل میں اضافہ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ہم پہلے ہی بہت غلطیاں کرچکے ہیں اور مزید ہمارے پاس غلطیوں کی گنجائش کم ہیں۔اس لیے ریاست کے داخلی بحران کی گہراہیوں کو سمجھنا اور اس کی بنیاد پر مسائل کے حل کی تلاش اہمیت رکھتی ہے۔لیکن پہلے ہمیں ریاست اور حکومت کے درمیان سمیت جتنے بھی سیاسی اور غیر سیاسی فریق ہیں ان میں عملا اعتماد سازی یاآگے بڑھنے کے لیے مشترکہ سازگار ماحول پیدا کرنا ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
ہمیں شخصیات کی سیاست میں الجھنے کے بجائے ریاست کی سطح پر اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر ایک بڑے سیاسی،معاشی اورسیکیورٹی کے فریم ورک کو بنیاد بنا کر خود بھی آگے کی طرف بڑھنا ہے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینا ہے کہ مثبت طور وہ ریاستی نظام کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں۔کیونکہ ریاست اور حکومت کے نظام کی مضبوطی ہی عوامی مفادات کی سیاست کو بھی مضبوط بنانے کا سبب بن سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: داخلی سیکیورٹی سیکیورٹی کے حکومت کے کے نظام نہیں ہے خود کو ہے اور اور اس کو بھی کے لیے
پڑھیں:
کراچی کی بحالی سیاسی نعرہ نہیں عوام کا بنیادی حق ہے، ارشدکاظمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک )تحریک اہلسنّت پاکستان کے مرکزی رہنماوچیئرمین ارشدعلی شاہ کاظمی القادری نے کہاہے کہ کراچی کی بحالی کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے۔ اگر میئر کراچی اور بلدیاتی نظام سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو اس شہر کو دوبارہ ایک مہذب، صاف اور روشن کراچی بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ کراچی شہر اس وقت سنگین شہری بحران کا شکار ہے۔ ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کی قلت، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، کچرے کے ڈھیر، ٹریفک جام اور انتظامی نااہلی کے مناظر عام ہیں۔