زباں فہمی253؛بازاری زبان اور بازاری زبان کی لغت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
فارسی لفظ ’بازار‘ اُن منفرد الفاظ میں شامل ہے جو اُردو سے فرینچ میں داخل ہوئے اور پھر اِنگریزی میں۔ برطانوی اور امریکی انگریزی دونوں ہی میں اسے اصل معنیٰ اور صحیح ہجّے یعنی Bazaarکے ساتھ برقرار رکھا گیا، جبکہ ہمارے کالے (دیسی) انگریز یا ’برگر‘ (یعنی مسٹر براؤن) زیادہ ’انگریز‘ ہیں، اس لیے، اس کے ہجّے Bazar کرنا درست سمجھتے ہیں نیز وہ بجائے بازار کے مارکیٹ کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
( ہمارے یہاں رومن رسم الخط کو آسان سمجھ کر، اپنا اُلٹا سیدھا بیان اس میں لکھنے والوں کی قلعی کھُل جاتی ہے جب اُنھیں یہ بتانا پڑجائے کہ فُلاں لفظ یا اسم کے انگریزی ہجّے یہ کیوں ہیں اور وہ کیوں نہیں؟ اردو کا اپنا رسم الخط ایسے لوگوں کو مشکل لگتا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ آسان لکھنے کی کوشش میں بعض اوقات، رومن رسم الخط میں لکھنے کا شوق، تحریرمیں کسی گالی کو راہ دیتا ہے)۔
فرہنگ ِ آصفیہ میں ’بازار‘ کا اندراج اس طرح ملتا ہے: بازار۔ف (فارسی)، اسم مذکر۔ خریدوفروخت کی جگہ، ہاٹ،پینٹھ، چوہٹّا، سُوق۔
علمی اردو لغت (جامع) از وَارِث سرہندی میں کچھ وضاحت سے یوں بیان کیا گیا: بازار۔ (ف۔امذ)، وہ راستۂ عام جس پر دُکانیں ہوں۔ منڈی، مارکیٹ ، خریدوفروخت کی جگہ۔۲)۔ نرخ، بھاؤ ۔۳)۔ خریدوفروخت، بِکری، مجمع عام۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کرتا چلوں کہ لفظ بازار دنیا کی متعدد زبانوں میں جُوں کا تُوں یا تلفظ کے تغیر کے ساتھ موجود ہے۔ عربی کے مصری لہجے میں ’سُوق‘ کی بجائے ’بازار‘ رائج ہے، اسی طرح انڈونیشیا کے خودمختار صوبے آچیہ (دارالسلام آچے) کی زبان باہسا آچیہ ۔یا۔Acehnese (آچے نیز) میں ’بازار‘ موجود ہے، اَرمنی یا آرمینی میں ’بازار‘ (ویسے عربی لفظ سُوق کا محرّف ’شُوکا‘ بھی رائج ہے)، افریکانس میں باسار، آسامی میں وَجار، اسپین کی زبان Asturian (استوریئن) میں بازار، آذری میں بَازار، انڈونیشیا کے جزیرے بالی کی زبان بالی نیز میں بازار، روسی مسلم قوم بشکیر [Bashkirs] کی زبان بشکیر میں بازار، انڈونیشیا کی قوم Toba Batak(توبا باتک) میں بازار، بیلارُوسی میں بَازار، بھوج پوری میں بازار، آسام (ہندوستان) کی باغی قوم بوڈو کی زبان میں ہٹائی بَجار، بوسنیائی میں بازار،بُلغار میں بازار،انڈونیشیا کی زبان Betawi (Batavian،Jakartanese ) میں بازار، فلی پینز کی زبان Bikol میں بھی بازار، بشناق یعنی بوسنیائی میں بازار، منگولوں کی زبان Buriat/Buryat میں بازار، برمی زبان میں جار، کیٹالِن میں بَسار، فلی پِینز کی زبان Cebuano میں بَسار، چھتیس گڑھی (اردو/ہندی کی بولی) میں بازار، کارسِیکا (Corsica) کی زبان Corsican (Corsu) میں بازار، کروشیئن [Croatian] میں بھی بازار، ڈینش میں بازار، دَری (افغان یا قدیم فارسی) میں بازار، دیویہِی (مالدیپ کی زبان) میں بازار، ڈوگری میں بازار، ولندیزی [Dutch] میں بازار، مصنوعی زبان اسپرانتو میں Bazaro (بازارو)، اسٹونیئن میں Basar یعنی باسار، Faroese میں بازار، فیجی اَن میں بازار، فلی پِینو میں بازار، فی نِش [Finnish] میں باساری، فرینچ میں بازار (البتہ خالص پیرس والی فرینچ میں تلفظ : بازاغ)، فری زیئن [Frisian] میں بازار، Friulian میں بازار، گالیسئن (Galician) میں بازار، افریقی ملک یوگینڈا میں بولی جانے والی زبان گینڈا (Ganda)یاLuganda میں بازار، جارجی یا گُرجستانی [Georgian] کو ہماری گوجری زبان کی ماں بھی سمجھا جاتا ہے، اُس میں بازار کو ’’بازاری‘‘ کہتے ہیں، المانوی عُرف جرمن میں ’بازار‘ ہی ہے مگر ہجّے Basar ہیں۔ یونانی زبان میں ’پازاری‘ ہے تو Guarani(گُو۔رانی) میں Bazar-pegua، گجراتی میں بازار، مگر تلفظ باجار،Haiti (ہیتی) کی مخلوط زبان یعنی Haitian Creole میں ( ہندوستانی کے غالب اثرات کی وجہ سے) بازار ہی ہے، چھِن [Chin]، میاں مار کی زبان ہا۔کا۔چھِن میں بھی بازار، افریقی زبان ہَوسا (Hausa) میں بازار، ہَوائی کی زبان ’’اولے لو ہوائی ی‘‘ (Olelo Hawaii) میں بھی بازار کہتے ہیں، مگر حیران کُن طور پر عبرانی [Hebrew] میں بازار کا نام ’شُوق‘ ہے جو عربی میں جاکر سُوق ہوگیا۔ ابھی زبانوں کی فہرست باقی ہے، مگر قصداً ادھوری چھوڑ رہا ہوں۔
یہاں دیگر اَلفاظ نقل ہوئے تو ناواقفین کے لیے باری باری اُن کا ذکر بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لفظ ہاٹ ہندی اور بنگلہ میں مشترک ہے۔ بنگلہ میں تو لفظ بازار بھی مقبول ہے (البتہ چونکہ بنگلہ میں حرف ’ج‘ کی ادائی ’ز‘ اور ’ز‘ یا ’ذ‘ کی ادائی ’ج‘ کے طور پر کی جاتی ہے;گویا بنگلہ میں یہ باجار بولا جاتا ہے) اور بنگلہ دیش میں ایک جگہ کا نام ’کاکسس بازار‘ بہت مشہور ہے۔ بازار کے لیے عربی میں سُوق موجود ہے اور زمانہ قدیم تا جدید یہ لفظ غیرعرب بھی سمجھتے اور بولتے رہے ہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں، بازاری زبان کی۔ لفظ ’’بازاری‘‘ بھی فارسی ہی سے مستعار ہے اور صفت کے طور پر نیز مختلف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے۔ معانی : ا)۔ بازار سے نسبت رکھنے والا، عام، معمولی، مروّج ب)۔ بازار کے بیٹھنے والے، اوباش، شُہدے، بے اعتبار (فرہنگ ِ آصفیہ)
’بازاری‘ سے بننے والی تراکیب میں بازاری زبان، بازاری عورت (اردو: اسم مؤنث، کسبی، بِیسوا، پاتُر، پُتُریا) اور بازاری گپ (اردو: اسم مؤنث، افواہ، ہَوائی) شامل ہیں۔ مؤخرالذّکر توجہ طلب ہے کہ لفظ ’گپ‘ فرہنگ ِ آصفیہ کے عہدِتالیف (بیسویں صدی کے آغاز سے ذرا قبل) تک نہ صرف انگریزی سے اردو میں شامل ہوچکا تھا، بلکہ اس سے مرکب الفاظ بھی تشکیل دے دیے گئے تھے۔
بازاری زبان کی مختلف جہتیں ہیں اور یہ تمام کی تمام عوامی بول چال کا حصہ ہیں۔ ہم انھیں تحتی بولی، ذیلی بولی، چالو بولی یا زبان عُرف Slangکے زُمرے میں شامل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سُوقیانہ، فُحش، مُبتذل، کسی مخصوص طبقے، گروہ یا شعبے میں مروج مخصوص ومحدود بولی ٹھولی کے الفاظ، فقرے، محاورے نیز گالیاں شامل ہیں۔ اگر کوئی بولی کسی خاص طبقے یا شعبے یا گروہ تک ہی محدود ہو تو اُسے Jargon کہا جاتا ہے۔
ممتاز ادیب، صحافی، سیاح اور مکینیکل انجینئرعبیداللّہ کیہر صاحب کی اٹھارہویں کتاب، ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ اپنی نوعیت کی اوّلین نہ سہی، مگر بہت مفید اور حوالہ جاتی قسم کی کتاب ہے، گرچہ مختصر ہے۔ اوّلین اس لیے نہیں کہ اس کا موضوع Slang ہی کی ایک قسم Jargon ہے اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ’اردو کی اوّلین سلینگ لُغت‘ بہت پہلے منصہ شہود پر آچکی ہے۔ اُس سے مدتوں پہلے کم از کم چار سے پانچ ایسی لغات منظرعام پرآئیں جن میں Jargon کا انتخاب یا مجموعہ شامل کیا گیا تھا۔ (کیہر صاحب کی انیسویں کتاب ’سفرنامہ نجدوحجاز‘ جلد منصہ شہود پر آئے گی)۔
’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ کا پہلا اندراج ’پھُلترو‘ ہے۔ {یہ بہت مشہور لفظ ہے جسے پھُلن ترو‘ اور (کیہر صاحب کی اطلاع کے لیے) فُل تھرو‘ بھی کہتے ہیں، جبکہ آنلائن دستیاب پنجابی لغات کے مطابق صحیح تلفظ ہے: پھُل۔تَرو‘}۔ زیرِنظر ’ڈکشنری‘ میں پھُلترو کی تعریف یوں بیان کی گئی کہ اس سے مراد، دُم کی طرح لٹکتی ہوئی کوئی چیز ہے۔ مزید لکھا گیا کہ یہ مزاحیہ اصطلاح دراَصل انگریزی کے Pull through سے نکلی ہے۔
جنریٹر چلانے کے لیے استعمال ہونے والی ڈوری کو بھی اِسی نام سے پُکارا جاتا ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ پہلا نکتہ تو صحیح ہے کہ یہ Pull throughکا اُردو اور پنجابی محرّف ہے، مگر موصوف نے اس باب میں اصل نکتہ نظراَنداز کردیا کہ ’پھُلترو‘ درحقیقت، برطانوی دور میں بندوق کی صفائی کرنے کے لیے استعمال ہونے والا برش۔یا۔آلہ ہے جسے Pull through device کہتے ہیں یا کہتے تھے۔ یوٹیوب پر موجود ایک وڈیو میں کسی صاحب نے یہی بتایا جو میں ماضی میں کسی کتاب میں بھی پڑھ چکا تھا، البتہ وڈیو والے صاحب نے پنجابی میں فقط اُس کے فُحش استعمال کی طرف ہی اشارہ کیا۔ فیس بک پر ایک صاحب عامرجلیل نے ہماری کہی ہوئی مندرجہ بالا بات اس طرح واضح کی کہ ’’برطانوی ہندوستانی فوج کے سپاہی جو رائفلیں استعمال کرتے تھے۔
ان کی نالی میں بارود کے ذرّے رہ جاتے تھے۔ ہدایت تھی کہ ان ذرّوں کو گرم پانی سے صاف کیا جائے۔ تاہم وقتی طور پر اُنہیں دھات کی سلاخ سے۔ یا۔ ڈور سے بندھے فلالین کے ٹکڑے سے صاف کیا جاتا تھا۔ اس ڈور کے ایک سرے پر دھات کا ٹکڑا ہوتا تھا۔ صفائی کے اس آلےPull through نے پنجابی زبان کو ایک نیا لفظ پھلترو دیا‘‘۔ ابھی یہ مضمون لکھتے ہوئے عبیداللّہ کیہر صاحب کو بھی آگاہ کیا تو اُنھوں نے کہا کہ جی بالکل یہ بھی ہے۔ ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ میں پھُلترو کی بابت یہ بھی لکھا ہوا دیکھا کہ کسی کا اِزاربند (کمربند) لٹکتا دیکھ کر بھی مذاق اُڑاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اِس کا ’پھُلترو لٹک رہا ہے‘۔ اب یہاں کیہر صاحب ہی کی نہیں، بلکہ خاکسار کی بھی معلومات میں اضافہ ہوا کہ ’پنجابی لغات ‘ (آنلائن ) کی رُو سے اس لفظ کے مندرجہ ذیل معانی ہیں:
’’چوپایوں کے قضیب کا غلاف، قُنب، قضیب، بچّے کا آلت، (پھلترو لٹکائے ہوئے);جب پاجامہ وغیرہ کے نیچے کپڑا پھٹ کر لٹک رہا ہو تو کہتے ہیں‘‘۔
[https://punjabilughaat.
کیہر صاحب کی ڈکشنری میں بعض مفید اِندراجات، دیگر لغات سے مختلف بھی ہیں جیسے ’’کھڑپینچ‘‘۔ اُن کے بیان کے مطابق اس مرکب لفظ کا مفہوم یوں ہے: کھڑپینچ عام طور پر کسی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو ہرفن مولا ہو اور مشکل سے مشکل کام بھی کر دِکھائے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی سلینگ لغت میں اس کے بالکل برعکس یہ بتایا گیا ہے: ا)۔ مصیبت، پریشانی، شورغوغا، ہنگامہ آرائی، جھگڑا، فساد جیسے کھڑپینچ مت کرو۔ ب)۔ وہ شخص جو جھگڑا کرے، شور شرابا کرنے والا، فسادی، جھگڑالو جیسے وہ بڑا کھڑپینچ آدمی ہے۔
کیہر صاحب نے ’کھڑپینچ‘ کا اصل مطلب بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’وہ پیچ جو کسی سطح کو کاٹتے ہوئے خود ہی اندر چلا جائے، اُسے کہیں گے، کٹ پیچ۔ یہی لفظ کٹ پیچ، زبان کے ردّوبدل سے، پہلے ’کھڑپیچ‘ بنا اور پھر ’کھڑ پینچ ‘ ہوگیا۔ یعنی ایسا پیچ جو سوراخ بھی خود کرے ، اپنا راستہ بھی خود بنائے اور کام بھی مکمل کردے، وہ ہوا کھڑپینچ۔ چنانچہ یہ لفظ ایسے شخص کے لیے بھی بولا جانے لگا جو مشکل حالات میں بھی اپنا راستہ نکال لے‘‘۔
’’ماموں بنانا ‘‘ کراچی سمیت تقریباً پورے مُلک میں مشہور Slang ہے اور ہمارے فاضل دوست بھی یہ جانتے ہیں، چنانچہ اُنھوں نے اسے کراچی کے کھاتے میں ڈال کر بطور ِ حوالہ ذکر تو کردیا، مگر کمال ِحیرت ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ’ماموں بنانا‘ یعنی بے وقوف بنانا، ایک ہندوستانی فلم ’’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ کا باربار دُہرایا گیا فقرہ ہے۔ اسی طرح ’’بھرم ‘‘ اور ’’بھرم بازی‘‘ کے مفاہیم میں بھی محترم عبیداللّہ کیہر چُوک گئے کہ یہ بھی ہندوستانی فلموں کی دین ہے، ورنہ معیاری اُردو میں بھرم کے معانی یہ ہیں: بھروسا، اعتبار، ساکھ، شک، شبہ، گمان، ظن، دھوکا، ظاہری ناموری، شہرت، راز، بھید (فرہنگ ِ آصفیہ)۔ ہم نے اپنے گھرانے میں اس لفظ کا استعمال رُعب کے معنوں میں بھی دیکھا ہے، شاید ایسا اختلاف محض مخصوص علاقائی بول چال تک محدود ہو۔
’’ہٹ جا، ہَوا آنے دے ‘‘ کے مشہور عوامی فقرے کے بارے میں لکھتے ہوئے، مشہور فلسفی دیوجانس (یا دیوژن)کلبی (Diogenes the Cynic) کے ذکر میں کیہر صاحب نے سہواً اُس کی عرفیت ’قلبی‘ لکھ دی۔ یہ کلب یعنی کُتّے کی نسبت سے کلبی ہے۔
’’کراچی کی بازاری ڈکشنری ‘‘ میں لفظ ’چراند‘ کے اصل معنیٰ چمڑے کی بُو صحیح درج کیے گئے، (نیز بال، روغن یا ہڈّی جلنے کی بُو: فرہنگ آصفیہ) لیکن یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ لفظ اصل میں چراہند تھا جو کثرتِ استعمال سے چراند بن گیا۔ مثال:
ا)۔ ’’گوگل، کچھ بال، کچھ چمڑا آگ پر رکھا جس کی چراہند اور بدبو نے سارا گھر سڑا دیا‘‘۔: افسانہ از نادرجہاں (اردو ویب ڈاٹ آرگ)
ب)۔ ’’آنسوگیس کی بُو سے لے کر خودسوزی کرنے والوں کے زندہ بدن سے اُٹھتی جلتی چربی کی چراہند تک، وہ کون سا عذاب تھا جو پاکستانیوں کے اعصاب پر سے نہیں گزرا‘‘۔: ’’بیس برس بعد۔ از وجاہت مسعود، مشمولہ بی بی سی اردو ویب سائٹ (مؤرخہ 18اکتوبر2007ء)۔
فاضل لغت نویس ’کراچی کی بازاری ڈکشنری‘ مرتب کرتے ہوئے کہیں کہیں بہت زیادہ عجلت کا شکار محسوس ہوئے کہ انھوں نے بعض مشہور الفاظ، فقروں اور کہاوتوں کا مشہور پس منظر بھی معلوم کرنے کی زحمت نہ اُٹھائی جیسے ’’بیزتی (بے عزتی) خراب ہونا‘‘۔ یہ کراچی والوں کی ایجاد نہیں، بلکہ اہل پنجاب کا مشہور ترین Slang ہے، البتہ وہاں بہ اختلاف ِ تلفظ ’بِستی ‘ خراب ہوتی ہے اور کچھ عرصہ قبل خاکسار کے واٹس ایپ حلقے بزم زباں فہمی میں اس کے صحیح تلفظ کی بحث بھی چھِڑی تھی۔ اسی طرح ’پنگا‘ کے متعلق بھی ادھوری معلومات درج کی گئی ہیں۔ یہ لفظ قدیم اردو میں ان معانی میں بطور صفت مستعمل تھا: وہ شخص جس کے پیروں میں کجی ہو، پاؤں پھِرا ہوا، کج قدم (فرہنگ آصفیہ) مگر پنجاب میں پنگا اور پنگا لینا کچھ اور ہی ہے۔ پہلے یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں ، پھر راقم کا پرانا انکشاف:
’’پنگا ایسا لفظ ہے جس کی جامع تعریف ممکن نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ پنجابی ڈکشنری مرتب ہورہی تھی، مرتبین کے سامنے ''پنگا'' کا لفظ آیا، سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے لیکن اس کا متبادل لفظ نہ مل سکا۔ تھک ہار کر اہل علم کا وہ وفد ایک دیہاتی بزرگ کے پاس گیا اور اس سے لفظ پنگا کا درست متبادل اور معنی پوچھے۔ دیہاتی بزرگ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بڑی سنجیدگی سے بولا 'دوستو! لفظ پنگا کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی یک لفظی معنی ہے۔ آپ یہ لکھ دیں کہ پنگے کا مطلب معلوم نہیں لیکن پنگا لینا ہر کسی نے ہوتا ہے‘‘۔ (ہر کسی کو لینا ہوتا ہے: س ا ص)
’’پنگا‘‘ (کالم) از لطیف چودھری۔ مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 23 جون 2023(آنلائن دستیاب)۔ اب ذرا میرا ’انکشاف‘ تیسری مرتبہ ملاحظہ فرمائیں:
ٹیلیوژن ، صحافت اور تدریس میں خاکسار کے بزرگ معاصر پروفیسر سلیم مغل کے انکشاف کے مطابق، پنگا سے مراد کسی درخت کی وہ نرم شاخ ہے جسے پکڑ کر نیچے تک لائیں اور پھر چھوڑ دیں تو وہ واپس اپنی جگہ پر چلی جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ’پنگا لینا‘ جو عملاً کسی معاملے میں کسی کی بے جا مداخلت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
’’ہم کیا شکار پور سے آئے ہیں‘‘ کے ذیل میں سائیں کیہر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک شکار پور تو وہ ہے جو ہمارے سندھ میں ہے، لیکن سُنا ہے کہ ایک بھارت میں بھی ہے۔ اب یہ خدا جانے اِدھر والے شکارپور کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا اُدھر والے..............سائیں! آپ واقعی بہت بھولے ہیں اور کم از کم سندھ والے شکار پور کے تو نہیں۔ ماضی میں اسی سلسلہ زباں فہمی میں اسی راقم نے مضمون لکھا تھا : ’’شکار پور ... اور ... شکارپور‘‘۔ یہ 21 نومبر 2021ء کو شایع ہوا تھا اور ایکسپریس ڈاٹ پی کے پر دستیاب ہے:
https://www.express.pk/story/2249175/zban-fhmy- shkarpwrawr-shkarpwr-2249175
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہندوستانی شکارپور کے لوگ بے وقوف مشہور ہیں ، جبکہ ہمارے شکارپور کے لوگ چالاک۔
’’سیانا پن‘‘ کی بجائے ’’سیانڑا پن‘‘ یا ’’سیانڑ پتی‘‘ یا ’’شیانڑ پتی‘‘ کراچی والے بولتے ضرور ہیں، مگر جناب! یہ ہمیں ہندوستانی شہر بمبئی سے ملا ہے (جسے ممبئی لکھنا مجھے گراں گزرتا ہے)۔ ابھی بندہ اس ستّر (70) صفحات والی ڈکشنری کے صفحہ نمبر 25 تک ہی پہنچا ہے، مگر ’زباں فہمی‘ کے لیے مختص ڈھائی ہزار الفاظ پر مشتمل صفحہ پورا ہورہا ہے....اس لیے اسے وہیں چھوڑنا مناسب ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور جواب دیں گے، ایرانی وزیرخارجہ
استنبول ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جون 2025ء ) ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ امریکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور جواب دیں گے، امریکی صدر نے نہ صرف ایران کو دھوکا دیا بلکہ اپنی قوم کو بھی دھوکا دیا ہے، ایران اپنی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی حملہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا، ایران کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور وہ استعمال کرتے رہیں گے۔ استنبول میں میڈیا بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ایران کی پُرامن ایٹمی تنصیبات پر امریکہ کے جارحانہ حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں، امریکہ نے صیہونی حکومت کے وزیراعظم کو بچانے کے لیے کارروائی کی ہے، وہ اسرائیل کو اپنا گندا کام کرنے کے لیے سپورٹ کرتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے یہ شرمناک ہے، امریکی حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں، امریکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور اُس نے ہی عالمی امن کو نقصان پہنچایا، ٹرمپ اس وعدے پر انتخاب جیتے تھے کہ وہ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں جنگوں میں حصہ نہیں لیں گے۔(جاری ہے)
عباس عراقچی نے کا کہنا ہے کہ تہران اپنی خود مختاری اور عوام کا دفاع جاری رکھے گا، دنیا کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے امن مذاکرات کے ہوتے ہوئے حملہ کیا اور سفارتکاری کا قتل کیا، اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ایران جوابی اقدامات کا حق محفوظ رکھتا ہے، تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اقوا م متحدہ، آئی اے ای اے سمیت دیگر ادارے امریکی جارحیت کے خلاف خاموش ہیں، امریکی حملوں پر خاموشی سے خطہ تباہی کا شکار ہوگا، ایران امریکہ کے گھناؤنے فعل پر سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کرتا ہے۔