پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف و سینیئر اداکارہ، ماڈل و میزبان عفت عمر کا کہنا ہے کہ اولاد کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ آپ کا خیال رکھے یا بڑھاپے میں آپ کا سہارا بنے۔

عفت عمر نے حال ہی میں ایک پروگرام میں شرکت کی جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر اور خاص طور پر بیٹی کے ساتھ اپنے رشتے کے حوالے سے بات چیت کی۔

اداکارہ نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کو وہ زندگی دی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکے۔ میری بیٹی میرے لیے بہت اہم ہے۔ اگر وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے تو میں دنیا کے سب کام چھوڑ کر پہلے اس سے بات کروں گی۔

عفت عمرکا کہنا تھا کہ اولاد کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ آپ کا خیال رکھے یا بڑھاپے میں آپ کا سہارا بنے۔ ان کی اپنی زندگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ والدین پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں انہیں یہ پریشر نہ دیں کہ ہم نے تمہارے لیے اتنا کچھ کیا ہے۔ یہ ان کا احسان ہے کہ وہ ہمارے بچے ہیں۔

اداکارہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی گزشتہ 6 سال سے پڑھائی کے لیے امریکا میں مقیم ہے اور اس کی شادی مارچ میں طے ہے۔ بیٹی جیون ساتھی کے انتخاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جیون ساتھی کا انتخاب بیٹی نے خود کیا اور وہ کبھی یہ نہیں سمجھتیں کہ بیٹی کو یہ بتایا جائے کہ کیا کرنا ہے یا کیا نہیں کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹی کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرتی۔

یہ بھی پڑھیں: عفت عمر نے بیٹی کی منگنی کی تصاویر شیئر کردیں مگر ہونے والے داماد کی تفصیلات کیوں نہ بتائیں؟

واضح رہے کہ عفت عمر کی بیٹی نورجہاں نے ایک سال قبل نیو یارک کی کارنیل یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔

عفت عمر ایک خوبصورت اور ملٹی ٹیلنٹڈ فلم و ٹی وی اداکارہ ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کم عمری میں 90 کی دہائی کے اوائل میں ماڈلنگ سے کیا۔

انہوں نے بطور ماڈل شہرت حاصل کی اور پھر اداکاری کے میدان میں بھی قدم رکھ دیا۔ انہوں نے ٹی وی پر کئی شاندار پرفارمنس دیں اور خود کو ایک اچھی اداکارہ کے طور پر ثابت کیا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی اداکارہ عفت عمر عفت عمر بیٹی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستانی اداکارہ عفت عمر عفت عمر بیٹی انہوں نے ہے کہ وہ عفت عمر

پڑھیں:

مکی میڈیسن…جنریشن زی کی پہلی آسکر ونر اداکارہ

جنریشن زی یا جنریشن زیڈ سے مراد وہ نئی نسل ہے جو 1990ء کی دہائی کے اواخر سے 2010ء کے وسط کے دوران پیدا ہوئی۔ یہ وہ نسل ہے جس نے اپنی آنکھ انٹرنیٹ، موبائل فونز، لیپ ٹاپس، اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کھولی۔

جنریشن زی کو وہ خوش نصیب نسل کہا جا سکتا ہے جس نے بچپن سے ہی ڈیجیٹل دنیا تک رسائی حاصل کی اور جس کی روزمرہ زندگی ٹیکنالوجی سے اس قدر منسلک ہو چکی ہے کہ اب ان کے لیے آن لائن اور آف لائن دنیا میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ نسل مکمل طور پر ڈیجیٹل ماحول میں پلی بڑھی ہے، اسی لیے انہیں "ڈیجیٹل نیٹیوز" (Digital Natives) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹیکنالوجی کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ اسے اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔

اس نسل کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مختلف ثقافتوں، زبانوں اور سماجی پس منظر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، جو دنیا کو ایک گلوبل ویلیج (عالمی گاؤں) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جنریشن زی کے نوجوان دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں، مسائل اور رجحانات سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کھلے ذہن کے مالک ہیں اور نئے خیالات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے لیے تنوع (diversity)، شمولیت (inclusion)، اور برابری (equality) جیسے تصورات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ نسل ثقافتی طور پر نہایت حساس اور سیاسی طور پر بھی فعال مانی جاتی ہے۔

وہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی تحفظ، سماجی انصاف، صنفی برابری اور نسلی مساوات جیسے موضوعات پر سنجیدہ رویہ رکھتی ہے اور اپنی آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک کے ذریعے یہ نسل نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے بلکہ مختلف مہمات اور تحریکوں کا بھی حصہ بنتی ہے۔ اس ڈیجیٹل دنیا میں ان کی موجودگی نے معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں میں ایک نیا رجحان متعارف کروایا ہے، جہاں نوجوان اب صرف تماشائی نہیں بلکہ عملی کردار ادا کرنے والے بن چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جنریشن زی کے افراد تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی دنیا کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کی توجہ کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے، لیکن ان کی معلومات تک رسائی کی رفتار اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہایت متاثر کن ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے پر فوری تحقیق کر سکتے ہیں، اس کے حقائق تلاش کر سکتے ہیں، اور اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نسل تخلیقی بھی ہے اور انہوں نے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات اور فن کو پیش کر کے نئے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جنریشن زی ایک ایسی نسل ہے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہے بلکہ عالمی سطح پر مسائل کا شعور بھی رکھتی ہے اور ایک بہتر، منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی تشکیل میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نسل کے نمائندہ افراد بلاشبہ تمام شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، تاہم یہاں چوں کہ ہمارا موضوع سخن شوبز ہے تو ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت سے ملوانے جا رہے ہیں، جو اداکاری میں جنریشن زی کی پہلی آسکر ایوارڈ ونر ہیں۔ جی ہاں! اور وہ ہیں ہالی وڈ سٹار مکی میڈیسن۔

ہالی ووڈ کی دنیا اکثر ایسی کہانیوں سے بھرپور ہوتی ہے جہاں خوابوں کی تعبیر آسان نہیں ہوتی۔ یہاں کامیابی کے لیے صرف چہرہ یا جسم نہیں بلکہ کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔ ان ہی صفات کی حامل اداکارہ مکی میڈیسن ہیں، جنہوں نے کم عمری سے ہی نہ صرف اپنے فن سے دنیا کو متوجہ کیا بلکہ اپنی اداکاری، خیالات اور سماجی شعور سے بھی الگ پہچان بنائی۔ وہ آج کی نوجوان نسل کی ایک نمائندہ شخصیت ہیں جو صرف کیمرے کے سامنے ہی نہیں بلکہ پردے کے پیچھے بھی بصیرت اور اصولوں کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ مکی میڈیسن کا اصل نام مکئیلا میڈیسن روزبرگ ہے۔ وہ 25 مارچ 1999ء کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے معروف اور ثقافتی طور پر بھرپور شہر لاس اینجلس میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر نہ صرف فلمی صنعت کا دل ہے بلکہ دنیا بھر کے فنکاروں کے خوابوں کی منزل بھی۔ مکی کا خاندانی پس منظر کافی دلچسپ ہے۔

ان کے والدین دونوں پیشے کے اعتبار سے ماہرِ نفسیات ہیں، جس کا اثر اْن کی شخصیت کی گہرائی اور جذباتی فہم پر بخوبی نظر آتا ہے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں، جن میں ایک ان کا جڑواں بھائی بھی شامل ہے۔ ان کی پرورش سانتا کلاریتا کے پْر فضا اور درمیانے طبقے کے علاقے میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کا خاندان لاس اینجلس کے ایک اور علاقے ووڈ لینڈ ہلز منتقل ہو گیا، جہاں ان کے فنی سفر کی بنیاد پڑی۔ بچپن میں مکی میڈیسن کا رجحان اداکاری کے بجائے گھڑسواری کی جانب تھا۔ وہ باقاعدہ مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ وہ گھڑ سوار بنیں۔ مگر تقدیر نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں انہوں نے اداکاری کی طرف رجوع کیا اور گھڑ سواری کو خیرباد کہہ دیا۔

مکی میڈیسن کی اداکاری کا آغاز ابتدائی طور پر کچھ چھوٹے پروجیکٹس سے ہوا۔ 2013ء میں انہوں نے اپنی پہلی مختصر فلموں Retirement اور Pani’s Box میں کام کیا۔ اگرچہ یہ فلمیں مین اسٹریم سینما کا حصہ نہ بن سکیں، مگر انہوں نے مکی کے اندر فن کی پہلی چنگاری کو روشن کیا۔ ان کے لیے ہر چھوٹا پراجیکٹ ایک تربیت گاہ تھا۔ ان ہی تجربات نے ان کے اعتماد، تاثرات، مکالمہ ادائیگی اور کیمرے سے تعلق کو مضبوط کیا۔ 2014ء میں مکی نے اپنی پہلی فیچر فلم Liza, Liza, Skies Are Grey مکمل کی، جو کئی سال کی تاخیر کے بعد 2017ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور نوجوان نسل کے جذبات، بے چینی اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑی ہنرمندی سے ادا کیا۔

یہ فلم بظاہر سادہ تھی لیکن اس میں مکی کی موجودگی نے اسے خاص بنا دیا۔ ان کا اصل بریک تھرو 2016ء میں ہوا، جب انہوں نے مشہور ٹی وی شو Better Things میں Max Fox کا کردار ادا کیا۔ یہ ڈرامہ ایک اکیلی ماں اور اس کی بیٹیوں کی زندگیوں کے گرد گھومتا تھا۔ مکی نے بڑی ہنرمندی سے ایک حساس، بظاہر باغی لیکن اندر سے نرم دل نوجوان بیٹی کا کردار ادا کیا۔ اس کردار نے انہیں ناظرین کے دلوں میں جگہ دلا دی۔ وہ صرف اسکرین پر موجود نہیں تھیں، بلکہ ناظرین کے احساسات سے جڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف پراجیکٹس میں چھوٹے کردار بھی کیے، جن میں Bravo چینل کی سیریز Imposters شامل ہے۔ لیکن ان کی اگلی بڑی کامیابی ایک غیرمعمولی فلم Once Upon a Time in Hollywood میں آئی، جس کے ہدایتکار کوئی اور نہیں بلکہ مشہور فلمساز کوئنٹن ٹارانتینو تھے۔

2019ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں مائکی میڈیسن نے سوزن ایٹکنز کا کردار ادا کیا، جو چارلس مینسن کی پیروکار تھی اور ایک بدنام زمانہ جرم کا حصہ۔ یہ کردار نہایت متنازع، پیچیدہ اور جذباتی طور پر گہرا تھا مگر مکی نے نہ صرف اسے بخوبی نبھایا بلکہ اپنی اداکاری سے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ صرف معصوم چہرہ نہیں بلکہ ایک مکمل فنکارہ ہیں۔ اس کردار کی اداکاری نے ناقدین کو متوجہ کیا اور اْن کی فنی گہرائی کو سراہا گیا۔

2022ء ان کے کیریئر کا ایک اور اہم سال ثابت ہوا، جب انہوں نے کلاسک ہارر فرنچائز Scream کی پانچویں قسط میں Amber Freeman کا کردار ادا کیا۔ یہ کردار ایک سسپنس سے بھرپور، بظاہر عام نوجوان لڑکی کا تھا جو آخرکار فلم کے قاتل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ان کی اداکاری میں وہ پیچیدگی اور سرد مہری نظر آئی جس کی اس کردار کو ضرورت تھی۔ ناقدین نے نہ صرف انہیں سراہا بلکہ مداحوں نے بھی انہیں یادگار ولن کے طور پر یاد رکھا۔

2024ء میں ان کی ایک اور فلم Anora ریلیز ہوئی، جسے شان بیکر جیسے حساس اور حقیقت پسند ہدایتکار نے تخلیق کیا۔ یہ فلم ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو سوشل اور اخلاقی حدود سے باہر کی زندگی جیتی ہے۔ مکی نے اس کردار کو اس قدر ایمانداری اور حقیقت پسندی سے نبھایا کہ فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں Palme d'Or جیسا اعلیٰ ترین اعزاز ملا۔ وہ نہ صرف اس ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں بلکہ آسکر (Academy Award) اور بافٹا (BAFTA) ایوارڈز میں بھی بہترین اداکارہ کا خطاب جیتنے والی پہلی "جنریشن زی" اداکارہ بن گئیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مکی میڈیسن نے نہایت مختصر کام کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی، انہوں نے آج تک صرف 9 فلموں اور 4 ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا ہے۔ دوسری طرف مکی کا شمار اْن اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو صرف اداکاری کو ہی اپنا مقصد نہیں سمجھتیں بلکہ سماجی مسائل پر آواز بلند کرنا بھی اپنا فرض جانتی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق، ذہنی صحت، نوجوانوں کی خودکشی جیسے نازک موضوعات پر کھل کر بولتی ہیں۔

ان کے انٹرویوز میں ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ ہر کردار کو نبھانے سے قبل نہ صرف اس کی نفسیات کو سمجھتی ہیں بلکہ معاشرتی پس منظر کو بھی اہمیت دیتی ہیں۔ وہ میڈیا سے محتاط رہتی ہیں، سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ متحرک نہیں، اور اپنی زندگی کے ذاتی پہلوؤں کو عوامی نمائش سے دور رکھتی ہیں۔

اس عمل کو وہ اپنی "ذہنی صحت کی حفاظت" قرار دیتی ہیں۔ یہی خود آگہی اور اندرونی سکون اْن کے فن کا اصل سرچشمہ معلوم ہوتا ہے۔ مکی کا سفر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے سخت محنت، غیر معمولی جرات اور اپنے فن پر پختہ یقین ضروری ہے۔ بچپن کی گھڑ سواری سے لے کر دنیا کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈز تک کا یہ سفر خود ایک فلمی کہانی سے کم نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: ناجائز تعلقات کے شبہ، ملزم نے تیز دھار آلے سے بیٹی اور بہنوئی کو قتل کردیا
  • بیٹی خود مختار ہے، بڑھاپے کا سہارا بننا اس کی ذمے داری نہیں، عفت عمر
  • بیواؤں کو محض ہمدردی نہیں سہارا بھی دے رہے ہیں، مریم نواز
  • مکی میڈیسن…جنریشن زی کی پہلی آسکر ونر اداکارہ
  • بیوہ خواتین کو محض ہمدردی نہیں، حق اور سہارا بھی دے رہے ہیں، مریم نواز
  • بیوہ خواتین کو محض ہمدردی نہیں، حق اور سہارا بھی دے رہے ہیں: مریم نواز
  • ’سپورٹنگ اداکاروں کے ساتھ دوسرے درجے کے انسانوں جیسا سلوک ہوتا ہے‘ بھارتی اداکارہ فاطمہ ثنا شیخ
  • طلحہ انجم پرکانسرٹ کے دوران بوتل پھینکنے پر ہانیہ عامر برس پڑیں
  • اداکاری میں کوئی کرئیر نہیں، اداکارہ غنیٰ علی