12 روزہ جنگ میں اسرائیلی حملوں میں کتنا نقصان ہوا؟ ایران نے تفصیلات جاری کردیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
تہران: ایران نے 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات جاری کردیں۔
ایران کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں 610 افراد شہید ہوئے جن میں 2 ماہ کے کم عمر بچے سمیت 13 بچے شامل تھے، اس کے علاوہ 49 خواتین بھی جان کی بازی ہار گئیں۔
ترجمان نے بتایا کہ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 5 طبی کارکن بھی اسرائیلی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے۔
وزارت صحت کے ترجمان حسین کرمانپور نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار 746 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں 971 افراد تاحال اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں جبکہ 687 افراد کی سرجریز بھی ہوئیں۔
ایرانی وزارت صحت کے ترجمان نے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں طبی سہولیات کو پہنچنے والے نقصانات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ اسرائیلی فوج کے حملوں میں 7 اسپتال، 9 ایمبولنسز، 6 ایمرجنسی رسپانس بیسز اور 4 کلینک تباہ ہوگئے جس سے متاثرہ علاقوں میں طبی امداد کی فراہمی مزید مشکل ہوگئی۔
یاد رہےکہ گزشتہ 12 روز سے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کا سلسلہ جاری تھا تاہم آج امریکا اور قطر کی ثالثی میں ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔