Express News:
2025-06-25@05:17:44 GMT

جس طرح جنگ بند ہوئی یہ لوگوں کو سمجھ نہیں آیا

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا کریڈٹ اس جنگ میں ایران کو جاتا ہے جیسے انڈیا پاکستان جنگ میں سیز فائر کا کریڈٹ پاکستان کو گیا تھا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ دونوں جو تصادم ہوئے پاکستان انڈیا میں اور اس کے بعد ایران اور اسرائیل میں اس کا آرکیٹیکٹ ایک ہی تھا، جس نے چیک کرنے کی کوشش کی اور کمزور سمجھ کر اس نے کہاکہ بس یہ تو پہلے ہی ہلے میں فارغ ہو جائیں گے، جو مجھے لگتا ہے اس سارے منظرنامے میں جب جواب ملا تو وہاں بھی سیز فائر کیلیے انڈیا گیا امریکا کے پاس اور یہاں بھی سیزفائر کیلیے اسرائیل امریکا کے پاس گیا۔ 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ جنگ بندی تو ہوگئی لیکن جس طرح یہ جنگ بندی ہوئی ہے یہ لوگوں کو ابھی تک سمجھ میں ہی نہیں آیا، جنگ بندی کا جو عمل ہے وہ ٹرمپ کے ٹویٹ نے اور متنازع بنا دیا کہ بھئی ہم نے تو کہہ دیا تھا ان کوآپ اس طرح حملہ کر دینا، ہم جگہیں خالی کر دیں گے یہ کس طرح کا حملہ تھا جو ایران نے کیا، اس جنگ کا تقابلی جائزہ لیں تو نقصان زیادہ ایران کا ہواہے لیکن اپنے سے کئی گنا بڑی مضبوط قوت کے سامنے ایران کھڑا ہوا، یہ ایران کا کریڈٹ ہے، پاکستان بھی اپنے سے کئی گنا مضبوط قوت کے سامنے کھڑا ہواتھا اور اس کو پسپا کر دیا تھا۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ جو جنگ لڑ رہے تھے ان دونوں کو کریڈٹ جا رہا ہے، تیسرا فریق جو اینڈ پر شامل ہوا اس کو بھی کریڈٹ جا رہا ہے، نام امریکا ہے آپ مجھے بتائیں کہ امریکا حملہ کرتا ہے، بہادری دکھاتا ہے،B-2 بمبار امریکا سے آتے ہیں اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو اڑا دیتے ہیں، ساتھ ایران کہتا ہے کہ ہمیں پہلے بتادیا تھا اور ہم نے وہاں نے یورینیم افزودگی کا سارا مال نکال لیا، سائٹس تو اڑ گئیں کوئی ایشو نہیں۔ 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہاکہ سیزفائر اچانک ہو گیا، ایران نے اپنا غصہ نکالنے کیلیے امریکی اڈے پر حملہ کیا، اس نے اپنی عوام کو بھی مطمئن کرنا تھا، سارے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ ایک اسکرپٹ تھا، امریکہ نے ایران سے کہا کہ ہم آپ پر حملہ کرنے لگے ہیں، ایران نے امریکا کو اس کے اڈے پر حملے کے بارے میں اطلاع دی، اسرائیل کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا اس نے ایک بار پھر حملہ کرنے کی کوشش کی جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل سے ناخوش ہیں۔ 

تجزیہ کار سندس مستقیم نے کہا کہ ایران کو اپنی خامیوں پہ نظر ڈالنی چاہیے کہ کیا وجوہات کار فرما رہی ہیں کہ انھوں نے بارہ روزہ جنگ دیکھی، پانچ سو سے زیادہ ان کے لوگ شہید ہو گئے ہیں، میرا خیال ہے کہ ایران مس کیلکولیٹڈ نہیں تھا لیکن ایران کے اپنے اندر جو اسرائیلی ایجنٹ کام کر رہے تھے انھوں نے ڈومیسٹک ڈرونز کیسے بنائے، تین شہروں میں اسرائیلی ایجنٹ دندناتے ہوئے پھر رہے تھے تو پہلے ان کو یہ دیکھنا چاہیے، مس کیلکولیٹڈ جس طرح پاکستان کو لیکر انڈیا تھا اسی طرح ایران کو لیکر اسرائیل بھی ثابت ہوا بالکل وہی ماڈل رپیٹ ہوا ہے جو انڈیا پاکستان وار میں ہوا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ رہے تھے حملہ کر

پڑھیں:

ایران پر امریکی حملہ، کیا پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟

اسلام ٹائمز: ہر پاکستانی کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ ہماری ریاست کسی کی آلہ کار بن کر کام کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لئے یہ سوال اہم نہیں کہ آگے چل کر امریکی و اسرائیلی حملوں کا عام مسلمان دنیا بھر میں جواب کیسے دیں گے اور مستقبل میں جب اسرائیل اپنا اگلا نشانہ پاکستان کو بنائے گا تو پاکستان کے دفاع کیلئے ہمسایہ ممالک کا رویّہ کیسا ہوگا؟ ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ اُس وقت امریکہ پاکستان کی سیاسی و اخلاقی مدد کرے گا یا وہ بھی نہیں؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

امریکی صدر نے تصدیق کی ہے کہ ہم نے ایران کی 3 نیوکلیئر سائٹس پر کامیاب حملہ مکمل کرلیا ہے، امریکی طیاروں نے فردو، نظنز اور اصفہان میں نیوکلیئر پلانٹس کو نشانہ بنایا۔ او آئی سی میں شامل ممالک کی مدد کے بغیر امریکہ یہ حملہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ممالک تو سرِ عام اپنی بیٹیاں تک امریکہ و اسرائیل کو پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے لہذا ایران پر امریکی حملے نے عربوں کے بجائے  سب سے زیادہ عجمیوں کو اور اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے عجمیوں میں سے بھی سب سے زیادہ پاکستانیوں کو پریشان کیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ کیا پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا تھا؟ ایران پر امریکی حملے کے بعد دنیا بھر میں امریکی شہری غیر محفوظ ضرور ہوگئے، مگر پاکستان کا تو  نظریاتی تشخص، سفارتی توازن، اور جغرافیائی وقار خطرے میں پڑ گیا ہے۔پاکستانیوں کیلئے امریکہ صدر کا یہ اعلان انتہائی غیر معمولی نوعیت کا ہے کہ امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کر دی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ طے ہوگیا ہے کہ  افغان جنگ کے بعد پاکستان نے ایک مرتبہ پھر منطقے میں  امریکی شطرنج کے مہرے کا کردار ادا  کرنا ہے، خدا  کرے ایسا نہ ہو۔

ہماری نیک خواہشات پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی میں پاکستان نے ہندوستان اور طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات امریکہ پر اعتماد کرکے ہی خراب کئے ہیں۔ یہ خراب تعلقات سب کے سامنے مسئلہ کشمیر اور آبی مسائل پر پاکستان کی شکست پر منتہج ہوئے۔ ابھی جون 2025ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان نے امریکہ پر اعتماد کرکے ایران اور چین کی نظروں میں بھی اپنا اعتماد کھو دیا ہے۔ اس صورتحال سے اشرافیہ تو مطمئن ہے لیکن عام پاکستانی پریشان ہیں چونکہ اب اس منطقے میں چاروں طرف سے پاکستان تنہا ہوکر فقط امریکہ کے رحم و کرم پر رہ گیا ہے۔ پاکستانی فیلڈ مارشل کے امریکی صدر سے ملاقات کے بعد ایران پر امریکی حملے سے پاکستان کے بارے میں دنیا میں جو پیغام گیا ہے کیا اُس کے اثرات سے پاکستان کبھی نکل پائے گا؟

 بعض لوگوں کے نزدیک امریکی جنگی طیاروں کے ایران پر حملہ کرنے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی لیکن پاکستان نے عالمی برادری اور خطے کے ممالک کے درمیان اپنا جو وزن اور اعتماد کھویا ہے وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے پاکستان کا اعتماد، وقار اور علاقائی اہمیت مٹی میں مل گئی۔ ایران پر امریکی حملے نے پاکستان کے ایٹمی رعب، پلاننگ اور اسٹیٹجک کے لحاظ سے دنیا کی نظروں میں گرا دیا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھارت اور طالبان سے اپنے تعلقات صرف امریکہ کی خوشنودی کے لیے خراب کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ کشمیر بچا، نہ پانی، نہ قومی وقار اور اب ایٹمی و عسکری طاقت ہونے کا رُعب بھی گیا۔ ملکی اقتصاد کے لحاظ سے بھی یہ ایک اہم سوال ہے کہ امریکی جیت کی خاطر اپنی علاقائی اہمیّت کا سودا ایک تجارت ہے یا جوا؟

اس جوئے کی دوڑ میں امریکہ کا تازیانہ ہمیں بھارت، افغانستان، ایران اور چین سے بہت دور لے گیا ہے۔ اتنے دور کہ ہم صرف ہمسایہ ممالک سے دور نہیں ہوئے بلکہ اپنے عوام سے بھی بہت دور ہوگئے۔ ہم اپنے عوام سے اتنے دور نکل چکے ہیں کہ اب عنقریب آبی مسائل اور کشمیر کے ایشو پر ہمیں از سرِنو بھارت سے لڑوایا جائے گا۔ ہم بھارت سے لڑیں گے، ٹیکس مزید لگیں گے، مہنگائی مزید عروج پر جائے گی، لوگ فاقوں سے مریں گے، اوپر سے بھارت سرحدی علاقوں میں سول آبادیوں پر حملے  کرے گا اور پاک فوج کے جوان اور سویلین دونوں شہید ہوں گے، اس کے بعد ہمیشہ کی طرح امریکہ اُن لوگوں کی کچھ مدد وغیرہ کرے گا جن کی وہ کرتا رہتا ہے، یوں ان مسائل میں الجھ کر لوگ ہمیشہ کی طرح ملکی مسائل بھول جائیں گے۔ ہمارے ہاں یہ نسخہ اگرچہ آزمودہ اور مجرب ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ کارگر بھی ہو۔ کشمیر کا مقدمہ ہو یا دریاؤں کا مستقبل، پاکستان کی کمزوری اب صرف جغرافیائی مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ پاکستان کے وقار اور قومی تشخص کا مسئلہ بھی بن گئی ہے۔

حالات سے لگ رہا ہے کہ اندرونِ خانہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ فی الحال اپنے قومی تشخص کو ایک طرف رکھ کر امریکی و اسرائیلی تشخص اور عزت و وقار کی جنگ لڑی جائے۔ اب ایسی جنگوں کے ایک کونے کو بھارت سے جوڑ کر انہیں قوموں جنگوں کا ٹائٹل دے دینا ہی ہمارے ہاں عین سیاست ہے۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ سیاست کی دنیا میں جب کوئی ریاست اپنے قومی و سیاسی نظریات سے دستبردار ہو جائے تو وہ دوسروں کے نظریاتی مفادات کیلئے اُن کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ بہرحال ہر پاکستانی کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ ہماری ریاست کسی کی آلہ کار بن کر کام کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے لئے یہ سوال اہم نہیں کہ آگے چل کر امریکی و اسرائیلی حملوں کا عام مسلمان دنیا بھر میں جواب کیسے دیں گے اور مستقبل میں جب اسرائیل اپنا اگلا نشانہ پاکستان کو بنائے گا تو پاکستان کے دفاع کیلئے ہمسایہ ممالک کا رویّہ کیسا ہوگا؟ ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ اُس وقت امریکہ پاکستان کی سیاسی و اخلاقی مدد کرے گا یا وہ بھی نہیں؟

ہم ایسے سوالات اس لئے نہیں سوچتے کہ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ سوچتے بھی ہوں لیکن وہ مطمئن ہوں کہ ایسے میں پاکستان کا ایٹم بم پاکستان کے کام آئے گا۔ ایسے سادہ دل یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایٹم بمب آج بھی محفوط ہاتھوں میں ہے اور وہ  ہمیشہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گا لہذا اُس وقت بھی اُس کی حفاظت کی خاطر اُسے آج کی طرح محفوظ ہی رکھا جائے گا۔ وطنِ عزیز کیلئے سلامتی کی تمام تر دعاوں کے باوجود ہمیں صرف یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ جو قومیں دوسروں کی سوچ اور دوسروں کے فیصلوں کے تابع ہو جاتی ہیں، اُن کی اپنی شکل اور حُلیہ بگڑ جاتا ہے۔ ہمیں یہ کھٹکا اس لئے بھی لگا ہوا ہے کہ  کیا پاکستان اتنا کمزور ہے کہ واشنگٹن نے اسلام آباد کو اعتماد میں لیے بغیر تہران پر حملہ کر دیا؟ یا پھر ہمارے فیلڈ مارشل کو ٹرمپ نے بلا کر کھانا کھلایا اور پھر دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ پاکستان وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا جاتا ہے؟ کیا ہماری ریاست اتنی نابالغ ہے کہ اس نے سوچنے اور فیصلے کرنے کا اختیار کسی اور کو سونپ رکھا ہے؟

پاکستان بلکہ دنیا کے ہر باشعور شخص کے نزدیک ایران پر امریکہ کا حملہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ یہ امریکہ کا انتخاب ہے اور امریکہ پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر ایسا  انتخاب نہیں کر سکتا۔ اس حملے سے پہلے امریکہ کا پاکستان کو اعتماد میں لینا پاکستان کیلئے کتنی بداعتمادیوں کو جنم دے گا، اس سے امریکہ و اسرائیل کو کوئی غرض بھی نہیں۔ لہذا عقلا کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر مرض کا علاج ممکن ہے، مگر شرط یہ ہے کہ مریض کو اپنی بیماری کا ادراک ہو۔ بیماری صرف تشخیص سے ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ اس کا علاج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک آج بھی پاکستان کے تمام تر مسائل کے ذمہ دار سیاستدان ہیں لیکن صرف امریکی سیاستدان۔ یہ پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر کچھ کرتے ہی نہیں اور کچھ کر سکتے بھی نہیں، وہ چاہے افغانستان پر حملہ ہو یا ایران پر۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی نے سندھ کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے،حافظ نصر اللہ چنا
  • ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے سے واشنگٹن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے. چین
  • ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ، آپریشن مڈنائٹ ہیمر کی تفصیلات جاری
  • امریکی حملے کے بعد سفارتکاری کی گنجائش نہیں، ایران کا حق دفاع کے تحت جواب دینے کا اعلان
  • ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا،،تہران نے حملہ کیا تو بھرپور طاقت سے جواب دینگے، امریکا
  • ٹرمپ نے ایران پر حملہ کرکے امریکا کیلئے نئی جنگ کا آغاز کردیا،دمتری میدویدیف
  • بیرسٹر گوہر کی ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت
  • ایران پر امریکی حملہ، کیا پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟
  • ٹرمپ نے یہ حملہ ایران پر نہیں، اپنے آپ پر کیا ہے، حامد میر