ایس یو سی سربراہ نے کہا کہ ایام عزا کی آمد سے قبل ملک میں سنسنی، خوف، بدامنی یا جنگ کا سماں پیدا کرنا یا کرفیو اور سنگینوں کے سائے تلے عزاداری و ماتم داری ہرگز قابل قبول نہیں، کیونکہ محرم الحرام کسی جنگ، خوف یا بدامنی کا پیغام بن کر نہیں آتا بلکہ ایام عزاء شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے کردار سے سبق حاصل کرنے کے ایک حسین موقع کے طور پر آتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے محرم الحرام 1447ھ بمطابق 2025ء کے آغاز پر پیغام میں کہا کہ ماہ محرم ہمیں سیدالشہدا حضرت امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی شہادت کے ساتھ ساتھ ان کے مشن اور جدوجہد کی طرف متوجہ کرتا ہے، واقعات کربلا کا ذکر شہدائے کربلا کے مشن اور جدو جہد کو تازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے، محافل عزاداری اور مجالس عزاء کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ حسینیت کے پاکیزہ مقاصد اور یزیدیت کے ناپاک عزائم کو دنیا کے سامنے واضح کیا جا سکے اور سیرت حسینؑ کی روشنی اور رہنمائی میں دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے، امام حسینؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کی یاد منانے کے لئے صدیوں سے پوری دنیا میں عزاداری سید الشہداء کا سلسلہ جاری ہے، دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان بلکہ تمام انسان اپنے اپنے انداز اور طریقے سے عزاداری مناتے ہیں اور امام حسینؑ کی لافانی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، عزاداری سید الشہداؑ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا جذبہ عطا کرتی ہے اور اس سے انسان کے ذاتی رویے سے لے کر اجتماعی معاملات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق عزاداری منانا ہر شہری کا آئینی، قانونی، مذہبی حق ہے جسے کوئی طاقت نہیں چھین سکتی، لہٰذا ایام عزا کی آمد سے قبل ملک میں سنسنی، خوف، بدامنی یا جنگ کا سماں پیدا کرنا یا کرفیو اور سنگینوں کے سائے تلے عزاداری و ماتم داری ہرگز قابل قبول نہیں، کیونکہ محرم الحرام کسی جنگ، خوف یا بدامنی کا پیغام بن کر نہیں آتا بلکہ ایام عزاء شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے کردار سے سبق حاصل کرنے کے ایک حسین موقع کے طور پر آتا ہے، لہٰذا سرکاری سطح پر محرم الحرام کو خوف کی علامت اور انتشار کا باعث قرار دینا محرم کے تقدس کی نفی کرتا ہے، اس صورت حال کا خاتمہ کرنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے، تمام مسالک کے علماء، ذاکرین اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں، اتحاد و وحدت کی فضاء کو مزید مضبوط کریں اور برداشت کا ماحول پیدا کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شہدائے کربلا محرم الحرام

پڑھیں:

عزاداری میں نیت کی اہمیت 

اسلام ٹائمز: عزاداری میں ریاکاری (یعنی دوسروں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا) ایک سنگین گناہ ہے جو اعمال کو ضائع کر دیتا ہے، عزادار کو ہمیشہ اپنی نیت کو خالص رکھنا چاہیئے اور کسی بھی عمل میں شہرت، تعریف یا دنیاوی منفعت کی خواہش سے بچنا چاہیئے، امام حسینؑ کی عزاداری وہی ہے جس کا ہدف کربلا والوں جیسا ہو اور مجلس وہی ہے جو اسلام کی عظمتوں کے دفاع کیلئے ہو۔ تحریر: علامہ حسن رضا باقر 

اسلام میں کسی بھی عمل کی قبولیت کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔ یہ اصول عزاداری پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ عزاداری صرف رسومات کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ ایک با مقصد اور قلبی عبادت ہے۔ ایک عزادار کی نیت ہی اس کے عمل کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابل قبول بناتی ہے۔
 نیت کا مفہوم 
نیت دل کے اس ارادے کو کہا جاتا ہے جس کے تحت انسان کوئی عمل انجام دیتا ہے۔ عزاداری کے تناظر میں، نیت سے مراد وہ باطنی مقصد ہے جس کیلئے ایک شخص عزاداری میں شامل ہوتا ہے۔ یہ نیت خالص اللہ کی رضا، امام حسینؑ سے محبت، اور ان کے پیغام کو سمجھنے اور پھیلانے کی ہونی چاہیے۔
 عزاداری کی نیت کے اہم پہلو 
عزادار کی نیت میں درج ذیل پہلوؤں کا شامل ہونا ضروری ہے:
* خلوص نیت (قربتہ الی اللہ):
عزاداری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو، نہ کہ ریاکاری، ناموری، یا دنیاوی فوائد کے لیے۔ اگر نیت میں اخلاص نہ ہو تو عمل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔
* امام حسینؑ سے محبت و عقیدت:
 عزاداری کا بنیادی مقصد امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی قربانی کو یاد کرنا اور ان سے گہری محبت کا اظہار کرنا ہے۔ یہ محبت صرف زبانی دعوے تک محدود نہ ہو، بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہو۔
* پیغام کربلا کو سمجھنا اور پھیلانا: 
عزادار کی نیت میں یہ بھی شامل ہونا چاہیئے کہ وہ امام حسینؑ کے قیام کے حقیقی مقصد کو سمجھے۔ امام حسینؑ کا مقصد دین اسلام کی بقا، عدل و انصاف کا قیام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا. عزادار کی نیت یہ ہو کہ وہ بھی ان مقاصد کو اپنی زندگی میں اپنائے اور ان کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔
* گریہ و زاری کا مقصد:
آنسو بہانا صرف رنج و غم کا اظہار ہی نہیں، بلکہ یہ گناہوں سے توبہ اور اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کا ذریعہ بھی ہے۔ عزادار کی نیت یہ ہو کہ اس کے آنسو اس کے دل کی صفائی کا باعث بنیں اور اسے امام حسینؑ کی شفاعت کا اہل بنائیں۔
* ظالم کے خلاف کھڑا ہونا:
عزاداری کا ایک اہم مقصد مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کا درس دینا ہے۔ عزادار کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنی زندگی میں ظلم کے خلاف کھڑا ہو اور حق کا ساتھ دے۔
* امام زمانہ (عج) سے وابستگی:
عزاداری ہمیں وقت کے امام (امام زمانہ عج) کی یاد دلاتی ہے اور ان کے ظہور کے لیے تیاری کا ذریعہ بنتی ہے۔ ایک عزادار کی نیت میں امام زمانہ (عج) کے ظہور کی دعا اور ان کے نصرت کے لیے آمادگی بھی شامل ہونی چاہیے۔
 ریاکاری سے پرہیز 
عزاداری میں ریاکاری (یعنی دوسروں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا) ایک سنگین گناہ ہے جو اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔ عزادار کو ہمیشہ اپنی نیت کو خالص رکھنا چاہیئے اور کسی بھی عمل میں شہرت، تعریف یا دنیاوی منفعت کی خواہش سے بچنا چاہیئے۔ امام حسینؑ کی عزاداری وہی ہے جس کا ہدف کربلا والوں جیسا ہو اور مجلس وہی ہے جو اسلام کی عظمتوں کے دفاع کیلئے ہو۔ عزاداری کے ہر رکن اور ہر عمل سے معرفتِ پروردگار حاصل ہونی چاہیئے اور عزادار کا ہر عمل خدا کی رضا کے لیے ہونا چاہیئے۔ اگر ہماری عزاداری میں یہ نیتیں شامل ہوں گی تو نہ صرف ہمارے اعمال قبول ہوں گے بلکہ ہم حقیقی معنوں میں امام حسینؑ کے پیروکار بن سکیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • محرم الحرام میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہوگی یا نہیں ؟ بڑی خبر آگئی
  • حکومت سندھ نے محرم الحرام سے پہلے اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، علامہ صادق جعفری
  • محرم الحرام میں اشتعال انگیز مواد کیخلاف زیرو ٹالرنس، سوشل میڈیا کی کڑی مانیٹرنگ ہوگی، محسن نقوی
  • کربلا کا پیغام ہے کہ ہمیشہ حق کیلئے اٹھو، مفتی غلام اصغر صدیقی
  • تفرقہ پھیلانے والے خطبا و ذاکرین، عالمی ایجنسیوں کے آلۂ کار ہیں، علامہ جواد نقوی
  • محرم الحرام: پشاور، ڈی آئی خان، ٹانک، کوہاٹ اور ہنگو حساس ترین قرار
  • جعفریہ الائنس کی جانب سے کراچی میں اہتمام عزاداری کانفرنس، علماء و ذاکرین کی بڑی تعداد شریک
  • عزاداری میں نیت کی اہمیت 
  • ایران کو شکست دینا ممکن نہیں، علامہ جواد نقوی