Jasarat News:
2025-09-26@09:04:00 GMT

پیپلز پارٹی کی تضاد پر مبنی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہے اور حزب اختلاف کی سیاست بھی وہ خود سے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری بطور صدر اور بلاول زرداری پارٹی کی سربراہی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے کھیل کا بھی حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی ایک ہی ٹکٹ میں حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرکے اقتدار کی بندر بانٹ میں اپنے پتے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ حکومت کے بیش تر معاملات پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں مگر جب ان کی حمایت یا ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آکر ان کو مکمل سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ کھیل کا منصوبہ ہے جہاں پیپلز پارٹی کے ہر صورت میں حکومت کا ساتھ دینا ہے اور اسی شرط کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا سیاسی بندوبست کیا گیا تھا اور پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لاکھ شور کرے اسے کرنا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یا پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ کھیل کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پہلے بجٹ پر خوب تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اتحادی جماعت ہونے کے ناتے کہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا مگر بعد میں اپنی جماعت کے حق میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی بارگینگ کرکے بجٹ پر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پہلے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث اکڑ جاتی ہے اور بعد میں حکومت کے سامنے لیٹ کر وہی کچھ کرتی ہے جو ان کے حصہ کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی رومانس یا سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل 2008 کی سیاست سے ہی جاری ہے اور یہ دونوں جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک دوسرے کی اتحادی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم راہنمائوں کا گلہ ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست کو سیاسی طور پر دفن کردیا ہے اور خود مسلم لیگ ن سے سمجھوتا کرکے پارٹی کو پنجاب میں غیر اہم کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خود کو سندھ کی سیاست تک محدود کرلیا ہے اور آصف علی زرداری سمیت بلاول زرداری کی سیاسی تقریریں بھی سندھ کی سیاست تک محدود ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے مگر سب جانتے ہیں کہ وہاں کس کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ کس کی حمایت سے بنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حیثیت بلوچستان میں محض نمائشی ہے اور اصل اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور چاروں صوبوں کی پیپلز پارٹی آج صوبائی سیاست تک محدود نظر آتی ہے۔ اصل میں آصف علی زرداری نے ایک بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل محور اسٹیبلشمنٹ ہے اور عوامی سیاست کی کوئی حیثیت نہیں اور اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی اب ماضی کی پارٹی سے باہر نکل کر ایک نئی جماعت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر بلیک میل کرتی ہے اور حکومت کے مشکل وقت میں یا حکومت پر ہونے والی تنقید کا سیاسی بوجھ کسی بھی صورت میں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی سیاسی سطح کی بلیک میلنگ سے باہر نکلنا چاہیے۔ لیکن ان کی مجبوری بھی یہ ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان باہمی اتفاق رائے اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت بلاول زرداری خود کو ایک متبادل وزیراعظم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیش کررہا ہے اور اس کے بقول وہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمت شہباز شریف سے زیادہ بہتر کرسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی میں غیر ممالک کی سطح پر پارلیمانی گروپ کی قیادت بھی بلاول زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کی خاص ہدایت پر دی گئی تھی تاکہ ان کا سیاسی قدکاٹھ بڑھ سکے۔ بلاول زرداری کی کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے خود کو وزیراعظم کے طور پر اپنی قبولیت کو ممکن بناسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہے جو وہ ہر صورت میں پیش کرکے خود کو عملاً زیادہ وفادار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بھی سیاسی دشمن پی ٹی آئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کا جو جمہوری تشخص تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور اب پارٹی کے اہم راہنما رضا ربانی او ردیگر سرکردہ نظریاتی ساتھیوں کو بھی پارٹی قیادت نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دیوار سے لگادیا ہے۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کی سیاست کو محض طاقت اور اقتدار کی سیاست کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر بھی دیکھا جائے تو پارٹی کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔ آصف زرداری نے بھی بلاول زرداری کو سمجھادیا ہے کہ نظریاتی سیاست ختم اور اقتدار کی سیاست کا کھیل عروج پر ہے اور اسی کھیل میں ہم کو اپنے اقتدار کا حصہ طاقت ور طبقہ سے حاصل کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا اصل درس ہی اقتدار کا ہی حصول ہوتا ہے اور چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز۔ پیپلز پارٹی سندھ اس لحاظ سے خوش ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کے باعث ہم اب اقتدار کے لازمی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سندھ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ تو دوسری طرف چیرمین سینیٹ سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنر شپ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی حصوں میں پیپلز پارٹی اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بن کر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں بہتر کھیل کھیل رہی ہے اور یہ ہی اس کے مستقبل کی سیاست کی جھلک بھی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی یقینی طور پر اقتدار کے کھیل میں انجوائے کررہی ہے مگر اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ وہ ہار گئی ہے اور اگر سندھ میں شفاف انتخابات ہوں تو پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن یہ نہ ہوگی جو اس وقت پارٹی کو حاصل ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور کل یہ ضرورت اسے نہیں رہے گی کیونکہ اس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی کو احساس ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہوگئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ پارٹی سیاست کس طرف جا رہی ہے اور کیا پارٹی اپنا عوامی تشخص خراب کرنے کی سیاست کا تو حصہ نہیں بن گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی اور جمہوری تشخص بحال کرنا ہے تو انہیں موجودہ اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے باہر نکل کر کسی نئے کردار کو تلاش کرنا ہوگا وگرنہ پیپلز پارٹی بھی ایک گم نام سیاست کا شکار ہو سکتی ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن کے بلاول زرداری میں حکومت زرداری کی ہے اور اس کے طور پر پارٹی کو کی حمایت کی سیاسی کی سیاست حکومت کے کھیل کا کے ساتھ اور اسی کا حصہ خود کو

پڑھیں:

عظمیٰ بخاری کا پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردِ عمل آگیا

وزیر اطلاعات پنجاب کا پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردعمل میں کہنا تھا کہ آپ اتنے سیانے ہوتے تو آج پنجاب میں آپ کی یہ حالت نہ ہوتی، آپ کچھ کرنے لائق ہوتے تو گھروں میں بیٹھ کر ہمیں نہ بتارہے ہوتے سیلاب کہاں آنا تھا کہاں بند ٹوٹنا تھا، ایسے فیصلے حکومتیں حالات اور واقعات کے مطابق کرتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردعمل سامنے آگیا۔ اپنے ردِ عمل میں صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ آپ پنجاب میں رہ کر پنجاب کا مقدمہ کب لڑیں گے۔؟ آپ چاہتے پنجاب میں لوگوں کو گندم، آٹا اور روٹی نہ ملے۔؟ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ گندم کا نقصان ہوا دوسری طرف کہہ رہے جو گندم ہے وہ بھی باہر بھیج دیں، ڈبویا ہے یا ڈوبا ہے اس کو سیلابی سیاست ہی کہتے ہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ بار بار سندھ میں سیلاب آتا ہے تو آپ بار بار سندھ کو ڈبوتے ہیں۔؟ آپ سیاست کرنا نہیں چاہتے لیکن پوری پریس کانفرنس صرف اور صرف سیاست تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آپ نے آج تک سیلاب کے متاثرین کے لیے کیا کیا ہے۔؟ سوائے بیٹھ کر سیلابی سیاست کرنے کے اور نمبر ٹانگنے کے۔ انہوں نے کہا کہ آپ آئی ایم ایف کا بہانہ پنجاب پر لگا رہے ہیں، سندھ میں گندم خریدی۔؟ سندھ میں گندم نہ خریدنے پر کونسے رولز اپلائی ہونگے۔؟ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی کارکردگی کی تعریف بلاول بھٹو نے بھی کی، اسی لیے سندھ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ کاش ان کے پاس بھی مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ ہوتی۔

صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ کوئی بی آئی ایس پی ختم نہیں کرنا چاہتا، سوال یہ ہے اس کو سیلاب میں استعمال کیوں کرنا چاہتے ہیں۔؟ بی آئی ایس پی کا اپنا قانون اور طریقہ کار ہے، اس کو بار بار سیلاب میں کیوں لا رہے ہیں۔؟ اس کو سیاست ہی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اتنے سیانے ہوتے تو آج پنجاب میں آپ کی یہ حالت نہ ہوتی، آپ کچھ کرنے لائق ہوتے تو گھروں میں بیٹھ کر ہمیں نہ بتارہے ہوتے سیلاب کہاں آنا تھا کہاں بند ٹوٹنا تھا، ایسے فیصلے حکومتیں حالات اور واقعات کے مطابق کرتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی ”ڈاکوؤں کی انجمن“ بن چکی، دھاندلی میں  الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سہولت کار ہیں، منعم ظفر
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں، مریم نواز
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مریم نواز
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں:مریم نواز
  • پاکستان کو دنیا بھر میں جو عزت مقام مل رہا ہے اسکی وجہ صدر آصف علی زرداری ہیں؛ گورنر پنجاب
  • عظمیٰ بخاری کا پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردِ عمل آگیا
  • عمران خان کب جیل سے باہر آئیں گے، کیا اسٹیبلشمنٹ ان سے رابطہ کرے گی؟ رانا ثنااللہ نے بتا دیا
  • پیپلز پارٹی نے گندم کی امدادی قیمت 4500 روپے فی من مقرر کرنے کی تجویز دے دی
  • مودی حکومت کی تصویری سفارتکاری پر مبنی خارجہ پالیسی تنقید کی زد میں
  • لیاری کو بچایا جائے