Jasarat News:
2025-06-27@09:44:20 GMT

پیپلز پارٹی کی تضاد پر مبنی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہے اور حزب اختلاف کی سیاست بھی وہ خود سے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری بطور صدر اور بلاول زرداری پارٹی کی سربراہی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے کھیل کا بھی حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی ایک ہی ٹکٹ میں حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرکے اقتدار کی بندر بانٹ میں اپنے پتے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ حکومت کے بیش تر معاملات پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں مگر جب ان کی حمایت یا ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آکر ان کو مکمل سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ کھیل کا منصوبہ ہے جہاں پیپلز پارٹی کے ہر صورت میں حکومت کا ساتھ دینا ہے اور اسی شرط کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا سیاسی بندوبست کیا گیا تھا اور پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لاکھ شور کرے اسے کرنا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یا پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ کھیل کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پہلے بجٹ پر خوب تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اتحادی جماعت ہونے کے ناتے کہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا مگر بعد میں اپنی جماعت کے حق میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی بارگینگ کرکے بجٹ پر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پہلے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث اکڑ جاتی ہے اور بعد میں حکومت کے سامنے لیٹ کر وہی کچھ کرتی ہے جو ان کے حصہ کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی رومانس یا سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل 2008 کی سیاست سے ہی جاری ہے اور یہ دونوں جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک دوسرے کی اتحادی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم راہنمائوں کا گلہ ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست کو سیاسی طور پر دفن کردیا ہے اور خود مسلم لیگ ن سے سمجھوتا کرکے پارٹی کو پنجاب میں غیر اہم کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خود کو سندھ کی سیاست تک محدود کرلیا ہے اور آصف علی زرداری سمیت بلاول زرداری کی سیاسی تقریریں بھی سندھ کی سیاست تک محدود ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے مگر سب جانتے ہیں کہ وہاں کس کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ کس کی حمایت سے بنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حیثیت بلوچستان میں محض نمائشی ہے اور اصل اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور چاروں صوبوں کی پیپلز پارٹی آج صوبائی سیاست تک محدود نظر آتی ہے۔ اصل میں آصف علی زرداری نے ایک بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل محور اسٹیبلشمنٹ ہے اور عوامی سیاست کی کوئی حیثیت نہیں اور اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی اب ماضی کی پارٹی سے باہر نکل کر ایک نئی جماعت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر بلیک میل کرتی ہے اور حکومت کے مشکل وقت میں یا حکومت پر ہونے والی تنقید کا سیاسی بوجھ کسی بھی صورت میں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی سیاسی سطح کی بلیک میلنگ سے باہر نکلنا چاہیے۔ لیکن ان کی مجبوری بھی یہ ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان باہمی اتفاق رائے اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت بلاول زرداری خود کو ایک متبادل وزیراعظم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیش کررہا ہے اور اس کے بقول وہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمت شہباز شریف سے زیادہ بہتر کرسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی میں غیر ممالک کی سطح پر پارلیمانی گروپ کی قیادت بھی بلاول زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کی خاص ہدایت پر دی گئی تھی تاکہ ان کا سیاسی قدکاٹھ بڑھ سکے۔ بلاول زرداری کی کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے خود کو وزیراعظم کے طور پر اپنی قبولیت کو ممکن بناسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہے جو وہ ہر صورت میں پیش کرکے خود کو عملاً زیادہ وفادار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بھی سیاسی دشمن پی ٹی آئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کا جو جمہوری تشخص تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور اب پارٹی کے اہم راہنما رضا ربانی او ردیگر سرکردہ نظریاتی ساتھیوں کو بھی پارٹی قیادت نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دیوار سے لگادیا ہے۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کی سیاست کو محض طاقت اور اقتدار کی سیاست کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر بھی دیکھا جائے تو پارٹی کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔ آصف زرداری نے بھی بلاول زرداری کو سمجھادیا ہے کہ نظریاتی سیاست ختم اور اقتدار کی سیاست کا کھیل عروج پر ہے اور اسی کھیل میں ہم کو اپنے اقتدار کا حصہ طاقت ور طبقہ سے حاصل کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا اصل درس ہی اقتدار کا ہی حصول ہوتا ہے اور چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز۔ پیپلز پارٹی سندھ اس لحاظ سے خوش ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کے باعث ہم اب اقتدار کے لازمی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سندھ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ تو دوسری طرف چیرمین سینیٹ سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنر شپ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی حصوں میں پیپلز پارٹی اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بن کر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں بہتر کھیل کھیل رہی ہے اور یہ ہی اس کے مستقبل کی سیاست کی جھلک بھی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی یقینی طور پر اقتدار کے کھیل میں انجوائے کررہی ہے مگر اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ وہ ہار گئی ہے اور اگر سندھ میں شفاف انتخابات ہوں تو پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن یہ نہ ہوگی جو اس وقت پارٹی کو حاصل ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور کل یہ ضرورت اسے نہیں رہے گی کیونکہ اس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی کو احساس ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہوگئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ پارٹی سیاست کس طرف جا رہی ہے اور کیا پارٹی اپنا عوامی تشخص خراب کرنے کی سیاست کا تو حصہ نہیں بن گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی اور جمہوری تشخص بحال کرنا ہے تو انہیں موجودہ اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے باہر نکل کر کسی نئے کردار کو تلاش کرنا ہوگا وگرنہ پیپلز پارٹی بھی ایک گم نام سیاست کا شکار ہو سکتی ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن کے بلاول زرداری میں حکومت زرداری کی ہے اور اس کے طور پر پارٹی کو کی حمایت کی سیاسی کی سیاست حکومت کے کھیل کا کے ساتھ اور اسی کا حصہ خود کو

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مالیاتی بل 2025-26 کے حق میں ووٹ دیں،شازیہ مری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جون2025ء) پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مالیاتی بل 2025-26 کے حق میں ووٹ دیں۔ جمعرات کو پی پی پی میڈیا سیل سے جاری بیان کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مالیاتی بل 2025-26 کے حق میں ووٹ دیں،وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی ٹیم سے مشاورت کی اور بجٹ سے متعلق ہمارے تحفظات کو دور کیا،پیپلز پارٹی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا، جسے 20 فیصد بڑھا دیا گیا،انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو مسترد کیا تھا، جسے اب 50 فیصد کم کر دیا گیا ہے، پیپلز پارٹی نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا مطالبہ کیا، وفاقی بجٹ میں تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشنرز کے لیے 7 فیصد اضافہ کیا گیا، تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سلیب میں تبدیلی پیپلز پارٹی کی مشاورت سے کی گئی، ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، شازیہ مری نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کی جامعات کے لیے مختص بجٹ کو پیپلز پارٹی کے مطالبے پر بحال کیا، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) قانون میں ترامیم سے متعلق پیپلز پارٹی کے تحفظات بھی دور کیے گئے، جب حکومت نے ہمارے تحفظات دور کر دیے اور ضروری ترامیم کر دیں، تو ہم مالیاتی بل کی حمایت کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹیبلشمنٹ ہماری اپنی ہے، ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے میں کوئی شرم نہیں
  • بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر ملک گیر احتجاج کا اعلان کرنے والے پیپلز پارٹی کا بڑا یوٹرن
  • بانی پی ٹی آئی کو مائنس نہیں کیا جاسکتا، جاوید ہاشمی کی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل آمد
  • عمران خان کو کوئی مائنس کر ہی نہیں سکتا، جاوید ہاشمی کی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل آمد
  • پی پی کا پارلیمانی پارٹی اجلاس ختم، بجٹ پر ووٹ دینے کا فیصلہ
  • پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مالیاتی بل 2025-26 کے حق میں ووٹ دیں،شازیہ مری
  • ٹیکس فراڈ مقدمات، ایف بی آر کو گرفتاریوں کے اختیارات دینے پر پیپلز پارٹی اکڑ گئی، بجٹ منظوری مشکل
  • اسٹیبلشمنٹ
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں