Express News:
2025-11-27@20:42:04 GMT

بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔

اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔

اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔

اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا،  اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔

بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔

امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔

پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔

بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے کے تناظر میں میں پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کی پاکستان کو سے پاکستان کہ پاکستان عالمی سطح بھارت کے کہ بھارت بھارت کی بھارت نے کے لیے جو بھی ہے اور کو بھی تھا کہ

پڑھیں:

پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251125-03-3
دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ماضی کے تجربات اور مستقبل کے تقاضے ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ انسان کو رہنمائی دیتی ہے، مگر صرف اْن اقوام کے لیے جو اس سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ناگزیر ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا؟ اور کیا ہم تاریخ کے عالمی اسباق کی روشنی میں اپنے مستقبل کی سمت درست کر سکتے ہیں؟ قیامِ پاکستان سے آج تک ہمارا قومی سفر نشیب و فراز، قربانیوں، اور داخلی و خارجی چیلنجز سے عبارت رہا ہے۔ ابتدا میں قیادت نے جغرافیائی پیچیدگیوں، وسائل کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود قوم کو متحد رکھنے کی کوشش کی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی مفادات نے قومی وحدت کو متاثر کیا۔

آج 2025ء میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی کمزوری اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ شرحِ نمو غیر یقینی، زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں، اور برآمدی استعداد کمزور ہو چکی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار نے ہماری خودمختاری کو محدود کر دیا ہے۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زوال اْس وقت آتا ہے جب قوم اپنی سمت کھو دیتی ہے، اور عروج اْس وقت جب وہ داخلی اصلاحات کے ذریعے اپنے نظام کو از سرِ نو تشکیل دیتی ہے۔ دنیا آج یک قطبی نہیں بلکہ کثیرالقطبی (Multipolar) ہو چکی ہے۔ امریکا، چین، روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے نئے اتحادوں نے طاقت کے محور بدل دیے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے لیے ’’غیر جانب داری‘‘ یا ’’توازن پر مبنی سفارت کاری‘‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چین ہمارا قریبی شراکت دار ہے، مگر اس کی سست ہوتی معیشت اور عالمی تجارتی دباؤ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکا اور بھارت کا بڑھتا اتحاد خطے میں اسٹرٹیجک توازن کو بدل رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو محض ردِعمل کے بجائے فعال اور متوازن حکمت ِ عملی اپنانا ہوگی جہاں قومی مفاد، اقتصادی خودمختاری اور علاقائی استحکام تینوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں اسی وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کریں۔ ہمیں قرض پر انحصار کے بجائے پیداواری معیشت، برآمدی توسیع، زرعی جدیدیت، اور ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو ترجیح دینا ہوگی۔

2025ء میں ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، اور گرین انرجی جیسے شعبے دنیا کی ترقی کا نیا محور ہیں۔ پاکستان اگر نوجوان افرادی قوت، فری لانسنگ، آئی ٹی ایکسپورٹ اور زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی منڈیوں میں داخل ہوتا ہے، تو نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ممکن ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی وسیع ہوں گے۔ تاریخ ہمیں جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور کی مثالیں دیتی ہے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود علم، نظم و ضبط اور قومی یکجہتی سے ترقی کے نئے باب رقم کیے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں کمی صرف وژن، شفافیت اور تسلسل کی ہے۔ کسی بھی ریاست کا پائیدار استحکام صرف خارجہ پالیسی سے ممکن نہیں۔ اندرونی یکجہتی، اداروں کے درمیان اعتماد، اور عوامی شرکت اْس کی بنیاد ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی، ادارہ جاتی کشمکش اور بداعتمادی نے فیصلہ سازی کو سست کر دیا ہے۔ تاریخ کے سبق کے مطابق، ریاستیں تب مضبوط ہوتی ہیں جب عوامی فلاح کو مرکزی حیثیت دی جائے، تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار کے مواقع مساوی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ قومی سلامتی صرف سرحدوں کے دفاع میں نہیں بلکہ معیشت کی مضبوطی، نوجوانوں کی تعلیم، اور شہری مساوات میں مضمر ہے۔

دنیا کے 60 فی صد سے زیادہ ممالک نے اپنی ترقی کی بنیاد ٹیکنالوجی اور تعلیم پر رکھی۔ پاکستان کے نوجوان آج سب سے بڑی قوت ہیں اگر اْنہیں ہنر، جدید تعلیم، تحقیق اور عالمی رسائی فراہم کی جائے تو یہی نسل ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے۔ تعلیم کا بجٹ بڑھانا، جامعات کو تحقیق سے جوڑنا، اور نجی و سرکاری سطح پر انوویشن کو فروغ دینا وہ قدم ہیں جو ہمیں مستقبل کی دوڑ میں شامل کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن، تجارت اور توانائی کے راستے کھولنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ افغانستان میں استحکام، ایران کے ساتھ تجارتی راہداری، اور وسطی ایشیا تک اقتصادی رابطہ ہمارے مستقبل کا کلیدی جزو ہو سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ علٰیحدگی اور مخاصمت سے کوئی ملک ترقی نہیں کرتا۔ برعکس، علاقائی شراکت داری، باہمی تجارت اور اعتماد کی فضا ہی حقیقی طاقت کی بنیاد ہے۔ پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں یہ پہلو نمایاں رکھنا ہوگا۔

پالیسی سفارشات و سمت ِ عمل: 1۔ معاشی اصلاحات: برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کی توسیع، اور سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنا۔ 2۔ تعلیم و ہنرمندی: جدید سائنسی و ٹیکنیکل تعلیم کو ترجیح دینا تاکہ نوجوان طبقہ عالمی مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ 3۔ توانائی و وسائل: قابل ِ تجدید توانائی (شمسی و ہوائی) کے منصوبوں پر سرمایہ کاری۔ 4۔ سفارتی توازن: چین، امریکا، خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنا۔ 5۔ شفاف طرزِ حکمرانی: بدعنوانی کے خاتمے اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے غیر سیاسی مگر مستحکم اقدامات۔ 6۔ میڈیا و فکری استحکام: قومی بیانیہ تحقیق، حقیقت اور مثبت سوچ پر مبنی ہونا چاہیے سنسنی پر نہیں۔

تاریخ نے ہمیں بارہا بتایا کہ زوال اْن قوموں کا مقدر بنتا ہے جو وقت کے اشارے کو نظرانداز کر دیں۔ پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اْن سے سیکھے، اپنی پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور عوامی اعتماد پیدا کرے۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم تاریخ کے تماشائی رہیں گے یا مستقبل کے معمار۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ایکس کے نئے ٹرانسپیرنسی فیچر نے پاکستان مخالف پروپیگنڈا نیٹ ورک بے نقاب کر دیا
  • بھارت مخالف مؤقف میں بڑا اعلان، سکھ فار جسٹس کی پاک فوج میں شمولیت کی پیشکش
  • مسلم و پاکستان مخالف درجنوں ایکس اکاؤنٹس بھارت سے فعال ہونے کا انکشاف
  • بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ
  • پاکستان اور اسلام مخالف پروپیگنڈہ کہاں سے ہو رہا ہے،؟ پتہ چل گیا
  • پی ٹی آئی کے بھگوڑے باہر بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں: خواجہ آصف
  • نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی
  • پاکستان مخالف پوسٹس میں بھارت، افغانستان، پی ٹی ایم ملوث
  • پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق
  • پاکستان مخالف پوسٹس: بھارت، افغانستان، پی ٹی ایم ملوث نکلے