اسلام آباد: رومانیہ سفارت خانہ اسلام آباد، پاکستان اور رومانیہ کے درمیان تعلیمی اور ثقافتی تعاون میں ایک تاریخی پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے: کہ پاکستان میں پہلی ’رومانیائی زبان ‘ کی کلاسز نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد میں متعارف کرائی جا رہی ہیں۔
یہ اقدام رومانیہ کی وزارت تعلیم و تحقیق کے ماتحت ایک عوامی ادارے ’’رومانیہ لینگویج انسٹیٹیوٹ‘‘(آر ایل آئی )اور پاکستان کی نمایاں اعلیٰ تعلیمی درسگاہ ’’نمل‘‘کے درمیان دستخط کیے گئے ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا ۔ نمل، عالمی زبانوں کی تدریس اور بین الثقافتی مکالمے کے فروغ کے لیے وقف ایک اہم ادارہ ہے۔ معاہدے پر دستخط داایانا تھیوڈورا کوئبوس، ڈائریکٹر جنرل(آئی آر ایل )، اور میجر جنرل (ریٹائرڈ) شاہد محمود کیانی، ہلالِ امتیاز (ملٹری)، ریکٹر’’نمل‘‘نے کیے۔
اس شراکت داری کے تحت رومانیہ لینگویج انسٹیٹیوٹ نمل کی فیکلٹی آف لینگویجز میں ’رومانیائی زبان ‘، ادب، ثقافت اور تمدن کی تدریس کے لیے ایک تربیت یافتہ رومانوی لیکچرر مقرر کرے گا۔ یہ کلاسز بطور اختیاری مضامین طلباء کے لیے دستیاب ہوں گی، جو یونیورسٹی کے لسانی و ثقافتی کورسز میں مزید وسعت پیدا کریں گی۔ رومانوی لیکچرر ثقافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں گے اور رومانیہ اور پاکستان کے درمیان تعلیمی روابط کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں گے۔
پاکستان میں رومانیہ کے سفیر ڈاکٹر ڈین اسٹوئینیسکو نے کہا کہ ہم اس اہم پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں جو ہماری تعلیمی سفارت کاری، عوامی روابط اور باہمی تفہیم کو فروغ دینے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ رومانیہ میں بھی “اردو کلاسز” متعارف کرائی جائیں گی۔ رومانیہ پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ زبان اور ثقافت اقوام کے درمیان پُل کا کام کرتی ہیں۔
’رومانیائی زبان ‘ لاطینی زبان سے ارتقا پذیر ایک رومانی زبان ہے، جو رومانیہ اور جمہوریہ مالدووا کی سرکاری زبان ہے۔ اس کے لسانی روابط فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ہسپانوی جیسی دیگر رومانوی زبانوں سے جُڑے ہوئے ہیں، تاہم اس پر رومانیہ کے جغرافیائی و تاریخی پس منظر کے باعث سلاوی، یونانی، ترکی اور ہنگرین زبانوں کا منفرد اثر بھی موجود ہے۔ اگرچہ، رومانی اور اردو زبانیں دو مختلف لسانی خاندانوں رومانی (یورپی) اور ہند آریائی سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم ان میں کچھ دلچسپ مماثلتیں موجود ہیں۔ دونوں زبانوں نے ترکی اور فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں، خاص طور پر روزمرہ کی بول چال اور ثقافتی اصطلاحات میں۔ مزید برآں، دونوں زبانیں اپنے ادبی رنگ، جذباتی اظہار اور گفتگو میں شائستگی و ادب کی اہمیت کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ اگرچہ ان کی ساخت مختلف ہے، لیکن اردو بولنے والوں کے لیے ’رومانیائی زبان ‘سیکھنا دلچسپ تجربہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں کئی ثقافتی اور لفظی پُل موجود ہیں۔
رومانیہ، یورپی یونین کا رکن ملک ہے اور تعلیم، کاروبار، اور تعلیمی تبادلوں کے شعبوں میں ایک باصلاحیت شراکت دار ہے۔ پاکستان میں ’رومانیائی زبان ‘کی تدریس اُن طلباء، محققین، اور پیشہ ور افراد کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی جو Erasmus+ اسکالرشپس، بین الجامعاتی تعاون یا یورپ میں کیریئر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ رومانیہ میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے طلباء اور ورکرز کی بڑھتی ہوئی کمیونٹی آباد ہے، اور رومانوی زبان کا علم ان کے کامیاب انضمام اور ترقی کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
میں ’رومانیائی زبان ‘کے کورسز کا آغاز دونوں ممالک، رومانیہ اور پاکستان، کی اس مشترکہ وابستگی کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ تعلیمی فضیلت، ثقافتی تنوع، اور بامعنی تعلیمی تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

فارمی جانوروں کے حقوق پر پہلی قومی کانفرنس: نرمی، رحم اور قانون سازی پر زور

لاہور:

پاکستان میں فارمی جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق سے متعلق پہلی فارم اینیمل ویلفیئر کانفرنس کے اعلامیہ میں جانوروں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ مذہبی، اخلاقی، قانونی اور ماحولیاتی ذمے داری قرار دیا گیا۔

لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی ایک روزہ فارم اینیمل کانفرنس کا انعقاد پاکستان اینیمل رائٹس ایڈووکیسی گروپ نے کیا۔ اعلامیہ میں زور دیا گیا کہ قومی پالیسیاں اور قانون سازی ایسے نظام کے تحت کی جائیں جو اسلامی تعلیمات، سادہ سائنسی تحقیق اور بین الاقوامی اداروں کی سفارشات کے مطابق ہو۔

کانفرنس سے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان اور ڈاکٹر محمد ارشد نے خصوصی خطاب کیا جبکہ ممتاز اسلامی اسکالر مفتی سید عدیل، ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر ماہ نور فاطمہ، معروف ویٹرنری ماہر ڈاکٹر زاہد محمود، جانوروں کے حقوق کی وکیل عظمیٰ قریشی اور کسان اتحاد کے نمائندے چوہدری نعیم بھی اظہار خیال کیا۔ مقررین نے جانوروں کی فلاح کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس کے اعلامیے میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ ملک میں جانوروں سے متعلق قوانین پرانے ہو چکے ہیں۔ جانوروں کو رکھنے، پالنے اور ذبح کرنے کے طریقوں میں بہتری کی ضرورت ہے، اور کسانوں و ذبیحہ خانے کے عملے کو تربیت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

شرکاء نے مطالبہ کیا کہ جانوروں کے ساتھ نرم رویہ محض اخلاقی تقاضا نہیں بلکہ دینی حکم بھی سمجھا جائے، اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت ریاست اس کی پابند ہے۔

کانفرنس کے دوران ہونے والے مختلف مباحثوں میں موجودہ قوانین پر نظرثانی، جانوروں کے لیے بہتر خوراک و رہائش، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح کے طریقے، شہد کی مکھیوں اور مقامی پودوں کے تحفظ، اور کسانوں کی عملی تربیت جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔

ایڈووکیسی گروپ کی چیئرپرسن عائزہ حیدر نے کہا کہ یہ اجلاس جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک نئی سوچ کا آغاز ہے، اور یہ وقت ہے کہ جانوروں کو صرف فائدے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کو معاشرے کی عظمت کی علامت بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’رومانی زبان‘‘کی پاکستان میں پہلی بار’’نمل‘‘اسلام آباد میں تدریس
  • ’’رومانوی زبان‘‘کی پاکستان میں پہلی بار’’نمل‘‘اسلام آباد میں تدریس
  • بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کیلیے عالمی بینک نے قرض کی منظوری دیدی
  • پاکستان بھارت جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی پہلی بار ملاقات متوقع
  • فارمی جانوروں کے حقوق پر پہلی قومی کانفرنس: نرمی، رحم اور قانون سازی پر زور
  • پہلی ہی بارش میں اسلام آباد کا انڈرپاس بیٹھ گیا، ’کوئی تو محسن نقوی سے حساب مانگے‘
  • اسلام آباد میں حال ہی میں مکمل ہونے والا جناح سکوائر منصوبہ پہلی بارش میں ہی بیٹھ گیا
  • اسلام آباد میں پہلی بار رومانوی بلاؤز کے بین الاقوامی دن کی تقریب کا انعقاد
  • پہلی بار پاکستانی گندم کے بیج خلا میں تجربے کے لئے بھیجےجائیں گے