پاکستان اور چین نے بھارتی بحریہ کو بحرانی کیفیت میں ڈبودیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارتی بحریہ ایک بار پھر شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ جدید ترین آبدوزیں خریدنے کا اُس کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کی منزل سے بہت دور ہے۔ بھارتی بحریہ کے لیے جدید ترین آبدوزیں خریدنے کے عمل میں بیورو کریسی کی پیدا کردہ رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔
پاکستان سے حالیہ معرکہ آرائی میں بھارتی فضائیہ کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں۔ ایسے میں بھارتی بحریہ پر شدید دباؤ مرتب ہوا ہے کیونکہ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ اُس کی بحریہ بلیو واٹر نیوی بنے یعنی وہ کُھلے اور گہرے سمندروں میں کُھل کر کارروائیاں کرنے کے قابل ہوجائے۔ پاکستان کو مجموعی طور پر گرے واٹر نیوی تصور کیا جاتا ہے یعنی ایسی بحریہ جو اپنے قریب ترین پانیوں تک محدود رہتی ہے اور مہم جُوئی کی سکت نہیں رکھتی۔ مہم جوئی کی سکت تو بھارتی بحریہ میں بھی نہیں ہے۔ بھارتی بحریہ کو ایک طرف تو آبدوز کے بیڑے میں کمی کا سامنا ہے اور دوسری طرف اُس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجیز بھی نہیں۔ چین اور پاکستان نے مل کر اُس کا ناک میں دم کردیا ہے۔
بھارتی بحریہ کے آبدوزوں کے بیڑے کو مضبوط بنانے کا تیس سالہ پروگرام مطلوب نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کئی بڑے سودے رُلے ہوئے ہیں۔ بھارتی قیادت لاگت یا قیمت کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی سکت سے محروم دکھائی دے رہی ہے۔ تاخیر کے باعث منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی بحریہ کے لیے جو جدید ترین آبدوزیں، تباہ کن جہاز، نگرانی کا سامان اور دیگر چیزیں حاصل کی جانی ہیں وہ اِس لیے حاصل نہیں ہو پارہیں کہ سُرخ فیتہ آڑے آگیا ہے۔
ملائیشیا کی معروف ویب سائٹ ڈیفینس سیکیورٹی ایشیا نے لکھا ہے کہ چین اور پاکستان مل کر اپنی بحری قوت میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنی بحریہ کی تجدید کا عمل تیز کرچکا ہے۔ اُس کی دفاعی اور جوابی کارروائی کی صلاحیت میں غیر معمولی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مگر دوسری طرف بھارتی بحریہ شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ حکومت فیصلے نہیں کر پارہی اور اِس کے نتیجے میں یہ تاثر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ پاکستان اور چین مل کر بھارت کو حصار میں لے رہے ہیں۔ یہ تاثر بھارت کی معاشی قوت اور کارکردگی پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ سیاسی قیادت پر تنقید کا گراف تیزی سے بلند ہو رہا ہے۔ اپوزیشن مودی سرکار کو نشانے پر لیے ہوئے ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ دفاعی صلاحیتوں کا گراف بلند کرنے کا معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ چین اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کے تناظر میں بھارت کو جو کچھ کرنا ہے وہ نہیں کیا جارہا اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس حوالے سے سیاسی عزم کی شدید کمی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارتی بحریہ ہو رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان سفارتی محاذ پر سرخرو، بھارت کو ہزیمت
چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون ( ایس سی او) کے دس رکنی وزرائے دفاع نے بلوچستان میں بھارت کی بالواسطہ دہشت گردی کی مذمت کردی جب کہ پہلگام واقعے پر بھارتی موقف کو مسترد کردیا۔ بھارتی وفد پہلگام واقعہ پر پاکستان کی مذمت کو اعلامیے میں شامل کرانے کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن رکن ممالک نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ اب عالمی برادری کی مکمل حمایت پاکستان کو حاصل ہورہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اب بھارت کے مکروہ چہرے کو پہچاننے لگے ہیں۔ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا ہے۔ بھارت کی یہ علت پرانی ہے کہ جب میدانِ جنگ میں شکست کھا جاتا ہے تو محاذ بدل دیتا ہے۔
کبھی میڈیا کا ہتھیار استعمال کرتا ہے،کبھی سفارت کاری کی آڑ میں زہر گھولتا ہے۔ پچھلے دنوں جب پاکستان نے عسکری سطح پر واضح برتری دکھائی اور بھارت کی بلند بانگ دھمکیاں زمین بوس ہوئیں، تو دہلی کے ایوانوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔ بھارتی حکمران شکست تسلیم کرنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے، دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ پھیلانے نکل پڑے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی، دہشت گردانہ ذہنیت، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات، شہری علاقوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرناک پیغام دے رہے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان نے عالمی سطح پر سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب ارکان سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں اس تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کی قیادت چیئرمین پیپلز پارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی، جنھوں نے اقوام متحدہ کے دفتر میں سلامتی کونسل کے منتخب غیر مستقل ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
ان میں ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر،گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون، اور سلووینیا شامل تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور بلا ثبوت ہیں، جنھیں دلائل و شواہد کے ساتھ اقوام متحدہ کے نمایندوں کے سامنے رد کیا گیا۔
پاکستان کا ردعمل ان تمام بھارتی اشتعال انگیزیوں کے خلاف نہایت نپا تلا، ذمے دارانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ محض تنازعہ کے بعد ’’کرائسس مینجمنٹ‘‘ کے بجائے، پیشگی حل پر توجہ دے اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی بنیاد رکھے۔
حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے، جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ موجودہ عالمی توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ بھارت نے ہمیشہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے پوری تیاری، ثبوتوں اور اعتماد کے ساتھ عالمی فورمز پر، بھارت کی ایک ایک سازش کو بے نقاب کیا ہے۔
دنیا کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سہولت کار بھارت ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ مالدیپ تک میں مداخلت کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان دنیا کے سامنے موجود ہے، جس میں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایما پر بلوچستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پرکمزورکرنا ہے۔
پنجاب، جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے، اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھی بھارت مختلف طریقوں سے مداخلت کرتا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ، اسلحہ، تربیت اور میڈیا پر پراپیگنڈا کے ذریعے عوام کو ریاست سے بدظن کرنے کی منظم کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پسِ پردہ بھی بھارت کا کردار بہت واضح تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود ایک عوامی جلسے میں اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بھارتی فوج نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بلکہ مکتی باہنی جیسے علیحدگی پسند گروہوں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی تھی، مگر بھارت اسے اپنی ’’ فتح‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ سفارتی طور پر وہ باقی دنیا سے کٹ جائے۔ بھارتی ریاست اپنے ملک میں خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروا کے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی۔ دوسری طرف شدت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت پھیلانے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آئے ہیں، جنھوں نے ملک کو گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
ان کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا، ریاستی اداروں کو کمزور کرنا اور مخصوص نظریات کو مسلط کرنا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کرچکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا اور کہا ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے، ان کی نگرانی کرنے اور بعض اوقات انھیں قتل کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔
ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، اگرکوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔
پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔ مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر رکھا ہے۔ نریندر مودی عوامی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پانی روک دے گا۔ پاکستان نے پانی کے مسئلے کو ریڈ لائن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روکا تو اسے اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔
بھارت کی خفیہ ایجنسیاں میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے پاکستان میں نوجوانوں کو ریاست مخالف بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ انھیں ایسے بیانیے دیے جاتے ہیں جن سے ملک میں انتشار پھیلے۔ یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کا حصہ ہے، جس میں دشمن ہتھیار کے بجائے نظریاتی زہر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، جعلی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بھارت کی ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا ہدف ہماری نوجوان نسل ہے۔
بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو کم کرکے قومی اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ریاستی ادارے، عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک بیانیے پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ صرف حکومتی نمایندے ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں، خاص طور پر امریکا،کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں میں آباد پاکستانی تارکین وطن، دانشور، طلبہ اورکاروباری شخصیات کو بھی اپنی اپنی سطح پر بھارت کی انتہا پسندی،کشمیر میں ظلم اور پاکستان مخالف مداخلت پر آواز بلند کرنی ہوگی۔بھارت کے خلاف ہمیں مقامی، عالمی اور سفارتی سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا کشمیر اور بلوچستان پر ٹھوس بیانیہ سامنے آیا، سفارت کاری کامیابی سے ہم کنار ہو رہی ہے۔ ان دونوں مسائل کے حل کے لیے ہمیں مضبوط بنیادوں پر استوار اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہیے۔