’’تمبو…‘‘ دینا کس کا کام ہے
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سانحہ سوات اس وقت ملک میں زیر بحث ہے۔ پنجاب اور مرکز کی حکومتیں کے پی کی حکومت کی ناقص کارکردگی پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح ایک طرف انسانی جانوں کا نقصان ہے۔ دوسری طرف سیاسی تھیٹر ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے ساری تنقید اور سیاسی محاذ آرائی کے جواب میں کہا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہیں ان کا کام نہیں کہ وہ دریائے سوات کے کنارے تفریح کرنے آنے والوں کو تمبو فراہم کریں، قارئین کی آسانی کے لیے تمبو خیمے کو کہتے ہیں۔ اس طرح وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے صوبے میں جو لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں ان کو سہولیات فراہم کرنا ان کا کام نہیں ہے۔ یہ جواب سانحہ سے زیادہ پریشان کن ہے۔ اگر سیاحت کے لیے آنے والوں کا خیال رکھنا، ان کو سہولیات فراہم کرنا، ان کی جان کی حفاظت کرنا حکومت کا کام نہیں تو کس کا کام ہے۔
اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا وزیر اعلیٰ گنڈا پور اس سانحہ پر عوام سے معافی مانگتے۔ وہ کہتے کہ ایک ایک سیاح کی جان کی حفاظت کرنا، اس کو سہولیات فراہم کرنا ان کا اور ان کی حکومت کا فرض ہے، ہم سے کوتاہی ہوئی ہے، ہم شرمندہ ہیں، ہم اپنے اندر احتساب کا عمل شروع کر رہے ہیں۔ جو ذمے د ار ہیںان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرواؤں گا۔ اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ آیندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو۔ جو لوگ مر گئے ہیں ان کے گھروں میں جاتے، ان سے معافی مانگتے۔ لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ تمبو دینا ان کا کام نہیں۔ اگر تمبو دینا ان کا کام نہیں تو وہ گھر جائیں۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے تو ذاتی طور پر لواحقین سے تعزیت کرنے کی بھی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا تمسخر اڑایا۔انھوں نے تو ایسا تاثر دیا ہے جیسے ان کی کوئی ذمے داری ہی نہیں۔ اس لیے سب ان پر غیر ضروری تنقید کر رہے ہیں۔
اس سانحہ کے بعد دریائے سوات پر تجاوزات پر ایک آپریشن شروع کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تجاوزات موجود تھیں تو پہلے کیوں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس سے پہلے بھی دریائے سوات پر سانحات ہوئے ہیں۔ جب بھی سانحہ ہوتا ہے دریائے سوات پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کرکے لوگوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر اگلے سال کیا بلکہ چند دن بعد وہ تجاوزات واپس وہیں موجود ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے دریا کے کنارے ایک ہوٹل سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ تب بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ مقامی لوگ یہی بتاتے ہیں کہ آپریشن ہوتا ہے۔ پھر پیسے لے کر تجاوزات کروا دی جاتی ہیں۔ اس لیے نہ تو یہ آپریشن پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی مسائل حل ہونے ہیں۔
کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت اب بارہ سال سے ہے۔ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ تجاوزات ہم سے پہلی حکومت نے قائم کروائی ہیں، ہمیں ورثہ میں ملی ہیں۔ وہ بارہ سال سے حکمران ہیں۔ ان تجاوزات کے وہی ذمے د ار ہیں۔ اگر یہ تجاوزات سیاسی ہیں تب بھی وہی ذمے دار ہیں، اگر غیر سیاسی ہیں تب بھی وہی ذمے دار ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ دریائے سوات کے کنارے یہ تجاوزات کون کرواتا ہے۔ کون پیسے لیتا ہے، کون منتھلی لیتا ہے۔ لیکن ہمارے وزیر اعلیٰ تو اب یہی کہیں گے کہ یہ میری ذمے داری تو نہیں کہ میں ہر وقت دریائے سوات پر تجاوزات روکتا رہوں۔ مجھے اور بھی کام ہیں۔
سوال ریسکیو کے ادارے پر بھی ہو رہا ہے۔ لوگ کافی دیر دریا میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ ریسکیو کے اہلکار مدد کے لیے نہیں آئے، جب پہنچے تو ان کے پاس مدد کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ ان کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ ان کے پاس لوگوں کو ریسکیو کرنے کا سامان نہیں تھا۔ وہ بھی لوگوں کے مرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ اب یہ کس کی ذمے داری ہے۔ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ ریسکیو میں ساری بھرتیاں سفارشی ہیں۔ سیاسی سفارشی ہیں۔ یہ لوگ تحریک انصاف کے کارکنا ن ہیں۔ ان کو ریسکیو کا کام ہی نہیں آتا، یہ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں اور سیاسی کام کرتے ہیں۔
کے پی کے وزیر اعلیٰ جب بھی اسلام آباد چڑھائی کے لیے آئے ہیں۔ ریسکیو کا عملہ ان کے ساتھ نظر آیا ہے۔ ریسکیو کی گاڑیاں ان کے ساتھ نظر آئی ہیں۔ حالانکہ تب بھی یہ سوال سامنے آیا تھا کہ سیاسی چڑھائی میں ریسکیو کا کیا کام۔ لیکن وہ ساتھ ساتھ تھے۔ اب سمجھ آیا کہ کے پی کا ریسکیو کا محکمہ اب تحریک انصاف کا سیاسی ونگ بن چکا ہے۔ وہ سیاسی جلسوں میں تو نظر آتا ہے۔ لیکن لوگوں کی جان بچانے کا کام اس کو نہیں آتا ہے۔ وہ اب سیاسی کاموں کے لیے ہی مختص ہے۔ جہاں کوئی سیاسی سرگرمی ہوگی وہ موجودہونگے۔ اگر سوات میں سیاسی جلسہ ہوگا تو وہ ہوں گے۔ لیکن اگر لوگ مر رہے ہوں گے تو وہ نہیں ہوں گے۔
پہلی بات تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی وزیر اعلیٰ گنڈٖاپور کو سمجھائے کہ سیاحوں کو کیا کے پی کے عام شہری کو بھی مشکل میں تمبو دینا آپکا کام ہے۔ یہی آپ کا کام ہے۔ آپ ہی ذمے دار ہیں۔ افسر آپ نے لگائے ہیں۔ آ پ ان کے ذمے دار ہیں۔ لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں کے پی کی معیشت چلتی ہے۔ لوگ ٹیکس دیتے ہیں، آپ کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے ذمے داری بھی آپ کی ہے۔ آپ نہ موقع پر گئے اور نہ ہی آپ نے لواحقین سے تعزیت کی۔ یہ کس قسم کا طرز حکمرانی ہے۔ معذرت کے بجائے ڈھٹائی کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ لوگوں کی جانوں کا معاملہ ہے۔
تحریک انصاف کا تو ویسے بھی یہ نعرہ رہا ہے کہ سیاحت ان کی پہلی ترجیح ہے۔ ان کے منشور میں سیاحت پر بہت زور ہے۔ اب جہاں سیاحت ترجیح ہے۔ وہاں سیاحوں کی حفاظت بھی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاحت تو ترجیح ہے لیکن سیاحوں کی حفاظت ترجیح نہیں ہے۔ ٹیکس لیں گے تمبو نہیں دیں گے۔ ٹیکس لیں گے تو تمبو دینا ہوگا۔ ریسکیو کی سہولت دینی ہوگی۔ اگر لوگوں میں یہ سوچ آجائے کہ ہم وہاں جا کر محفوظ نہیں تو کون جائے گا۔ یہ سیاحتی مقام ویران ہوجائیں گے۔ کے پی کے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ تو کس کا نقصان ہے۔ اس لیے تمبو کی اہمیت کو سمجھیں۔ تمبو دیں گے تو روزگار ہوگا۔
سیاسی معاملات میں جواب الجواب اچھا لگتا ہے لیکن انسانی سانحہ پراچھی بات نہیں۔ لوگ جان سے گئے ہیں آپ تمسخر اڑا رہے ہیں۔ چیف سیکریٹری کے پی وہاں گئے ہیں۔ افسران کو معطل بھی کیا گیا ہے، ایکشن لیا جا رہا ہے۔ جب افسر معطل کیے گئے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت ذمے دار ہے۔ افسر لگائے بھی حکومت نے تھے تو پھر ذمے داری قبول کریں۔ افسران کی معطلی سے کام نہیں چلے گا، ذمے داری بھی قبول کرنا ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دریائے سوات پر ان کا کام نہیں تحریک انصاف ذمے دار ہیں وزیر اعلی ریسکیو کا کا کام ہے کی حفاظت کی حکومت کے لیے ا گئے ہیں رہے ہیں ہی ذمے ہیں کہ تب بھی کی جان رہا ہے اس لیے نہیں ا ہیں تو
پڑھیں:
اربعین کا پیغام
اسلام ٹائمز: ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ برسوں میں اربعین حسینی نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بن گیا ہے بلکہ مغربی ایشیا میں سیاسی اور سلامتی کی پیش رفت کے تناظر میں مزاحمتی بلاک کی باہمی گفتگو اور ہم آہنگی کے لیے ایک اہم محور بن چکا ہے۔ یہ اجتماع جس کی جڑیں شہادت امام حسین علیہ السلام کے سوگ سے جڑی ہیں، آج سیاست اور نظریات کے میدان میں بیرونی طاقتوں کے تسلط اور دباؤ کے خلاف قوموں کی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔
اس سال کا اربعین جن حالات میں منعقد ہوا ہے اس پر علاقائی اور عالمی حالات کا اثر ہونا ایک ضروری امر تھا۔ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ، صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط قحط کے خلاف غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت اور عراق میں حشد الشعبی کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ کا دباؤ نیز لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل یہ سب اربعین کے نعروں، تقریروں اور علامتوں میں جھلک رہے تھے۔ اس ہم آہنگی نے اربعین کو مزاحمتی بلاک کی نرم اور سخت طاقت کی تیاری کے پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا۔
اربعین حسین: مذہبی رسوم سے لے کر مزاحمت کے اسٹریٹجک بیانیہ تک
اگرچہ اربعین فطری طور پر ایک مذہبی اور روحانی تقریب ہے لیکن موجودہ دور میں یہ رسم مزاحمتی محاذ کے مشترکہ تشخص کو تشکیل دینے کا مرکز بن گئی ہے۔ لاکھوں زائرین کا نجف سے کربلا تک مارچ، قوم سازی اور مختلف ملکوں کے جغرافیائی سیاسی اتحاد کا مظہر بن چکا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کی جغرافیائی سرحدیں ختم ہو جائیں اور انصاف، انسانی وقار کی عظمت اور جبر کو مسترد کرنے پر یقین رکھنے والی مختلف قوموں کے لاکھوں لوگوں کے درمیان ربط کا ذریعہ بن جائے۔
اس اجتماع میں کربلا کی یاد اب محض یزید کے ظلم و جبر اور حسین (ع) کی یاد تک محدود نہیں رہی بلکہ عصری دنیا میں استعمار، قبضے اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کا ایک زندہ نمونہ بن چکی ہے۔ اسی وجہ سے اربعین نہ صرف عبادت کی ایک رسم ہے بلکہ قوموں اور مزاحمتی قوتوں کے لیے سیاسی مزاحمت کا سبق سیکھنے کی ورکشاپ بن چکی ہے۔
اربعین محض ایک مذہبی اجتماع نہیں ہے بلکہ اسٹریٹجک سطح پر، مزاحمت کے بلاک کی نرم اور سخت طاقت کے آغاز و فروغ کا محرک بھی ہے۔ نرم طاقت کی جہت میں، اربعین ایک مشترکہ شناخت، قوموں کے درمیان رابطے کا ایک وسیع نیٹ ورک اور ایک بہت بڑا سماجی سرمایہ پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح بحران کے وقت اور مشکل جہت میں، یہ اجتماع جہاد کے جذبے کو تقویت دے کر عوامی قوتوں اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔
اس سال اربعین واک کے دوران سیاسی کارکنوں، مذہبی رہنماؤں، اور مزاحمتی بلاک کے فیلڈ کمانڈروں کے درمیان غیر رسمی ملاقاتیں دیکھنے میں آئیں۔ یہ ہم آہنگی، رسمی میکانزم کی ضرورت کے بغیر، پیغامات کے تبادلے اور سیاسی ہم آہنگی کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ عملی طور پر، اربعین ایک اسٹریٹجک مقبول مزاحمتی فورم بن گیا ہے جس نے مزاحمتی محور کے دشمنوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صیہونی حکومت اور امریکہ کے لیے اس سال کے اربعین کا پیغام
1۔ مزاحمت کا بلاک دباؤ اور جنگوں کے باوجود نظریاتی اور عوامی طور پر مضبوط ہو چکا ہے۔
2۔ عاشورہ کی ثقافت سے متاثر اس خطے کی قوموں کی قوت ارادی کو کمزور کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔
3۔ کربلا کے راستے پر یہ بین الاقوامی اتحاد، دشمن کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کا عملی جواب ہے۔
4۔ اربعین دشمنوں کو یاد دلاتا ہے کہ جنگیں وقتی طور پر ختم ہو سکتی ہیں، لیکن مزاحمت کا جذبہ ہر سال زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ تازہ کیا جاتا رہے گا۔
5۔ اگر صیہونی حکومت 12 روزہ جنگ میں ایرانی عوام کے عزم اور مرضی کو توڑنے میں ناکام رہی تو اس کی وجہ اس ثقافت میں تلاش کی جانی چاہیئے جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کو امام حسین (ع) کے روضہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
6۔ اربعین روحانیت اور سیاست کا سنگم ہے اور شہدائے کربلا اور غزہ، لبنان، عراق اور یمن کے شہداء کے درمیان خون کے رشتہ کی علامت ہے۔
7۔ اس سال کے اربعین نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مزاحمت کی بات صرف ہتھیاروں اور حکمت عملیوں پر مبنی نہیں ہے بلکہ عقیدے اور ایمان سے پیوستہ ہے جسکی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔
هَیْهاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ