ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ریموٹ سے چلنے والے ’سائبورگ بِیٹلز‘ کو استعمال کرتے ہوئے منہدم عمارتوں میں پھنسے لوگوں یا بارودی سرنگوں کی تلاش کی جا سکتی ہے۔

آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے اس کیڑے پر ایک بیک پیک نصب کیا ہے (جو ہٹایا جا سکتا ہے) جس کو ویڈیو گیم کے ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے محقق ڈاکٹر تھینگ وو-ڈوان (جن کی رہنمائی میں تحقیق کی گئی) نے بتایا کہ کیڑے پر لدا بیگ پیک الیکٹروڈز کے ذریعے ان کے اینٹینا اور فور ونگز (Forewings) کو کنٹرول کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیٹلز میں متعدد قدرتی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو ان کو چڑھنے اور ملبے جیسی چھوٹی اور پیچیدہ جگہوں میں حرکت کرنے کا ماہر بناتی ہیں، جو کسی روبوٹ کے لیے کرنا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی تحقیق میں اس کیڑے کی صلاحیتوں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور پروگرام ایبل کنٹرولز جوڑا گیا ہے جو ان کی زندگی کو نقصان پہنچائے بغیر درست سمت میں رہنمائی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

یو ایس ایڈ فنڈنگ میں کٹوتی کے باعث ڈیڑھ کروڑ اموات کا خدشہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">واشنگٹں: معروف طبی جریدے ’’دی لانیسٹ‘‘ کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی امداد ’’USAID‘‘ میں کٹوتیوں سے عالمی سطح پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ اموات ہوسکتی ہیں۔ اس رپورٹ سے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بوسٹن یونیورسٹی کے بیماریوں کے ماہر بروک نکولس کی حال ہی میں اپ ڈیٹ کی گئی ایک ٹریکر رپورٹ کے مطابق امریکی امداد میں کٹوتیوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً ایک لاکھ 8 ہزار افراد اور 2 لاکھ 24 ہزار سے زاید بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ٹریکر کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ہر گھنٹے میں اوسطاً 88 افراد اس کٹوتی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

غیر ملکی جریدی میں شائع رپورٹ میں ایک نئی تحقیق کے مطابق اگر امریکا کی بین الاقوامی امدادی ایجنسی (USAID) کی فنڈنگ میں حالیہ کٹوتیاں جاری رہیں تو 2025 سے 2030 کے درمیان دنیا بھر میں تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ سے زاید اضافی اموات ہوسکتی ہیں۔ معروف طبی جریدے’’دی لاسنسیٹ‘‘میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ کٹوتیاں خاص طور پر افریقا اور دیگر ترقی پذیر خطوں میں HIV، ملیریا، بچوں کی ویکسینیشن اور ماں و بچے کی صحت سے متعلق پروگراموں کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر وہ ممالک ہوں گے جہاں USAID پہلے ہی بڑے پیمانے پر طبی سہولیات فراہم کر رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اموات کی سب سے بڑی تعداد بچوں اور کمزور طبقات میں ہوسکتی ہے
اگر یہ رجحان برقرار رہا تو گزشتہ کئی دہائیوں کی ترقی ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔

سابق امریکی صدور جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما نے ان کٹوتیوں پر شدید ردعمل دیا ہے اور انہیں ایک “انسانی المیہ” قرار دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر امدادی فنڈنگ کی بحالی اور عالمی صحت پروگراموں کے تحفظ کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں۔

یہ تحقیق ایسے وقت میں شائع ہوئی ہے جب اس ہفتے اسپین میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس ہو رہی ہے جس میں عالمی اور کاروباری رہنما امدادی شعبے کو سہارا دینے کی کوششیں کریں گے۔

واضح رہے کہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اب تک عالمی انسانی امداد کا 40 فیصد سے زاید حصہ فراہم کرتا رہا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں سال جنوری میں دوبارہ وائٹ ہاؤس آنے کے بعد یہ سلسلہ متاثر ہوا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے 2 ہفتے بعد ان کے قریبی مشیر اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس ادارے کو ’بالکل ختم‘ کردیا ہے۔

اس تحقیق کے شریک مصنف اور بارسلونا انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ (آئی ایس گلوبل) کے محقق ڈاوِڈے راسیلا نے خبردار کیا کہ فنڈنگ میں یہ کٹوتیاں ’کمزور آبادیوں میں صحت کے شعبے میں پچھلے 20 سال کی ترقی کو روکنے‘ کا خطرہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے یہ جھٹکا عالمی وبا یا کسی بڑے مسلح تنازع جتنا شدید ہو سکتا ہے۔

133 ممالک کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد بین الاقوامی محققین کی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ 2001 سے 2021 تک یو ایس ایڈ کی امداد نے ترقی پذیر ممالک میں 9 کروڑ 18 لاکھ لوگوں کی جان بچائی۔ یہ تعداد تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز جنگ یعنی دوسری عالمی جنگ میں اندازاً ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

محققین نے یہ اندازہ لگانے کی بھی کوشش کی کہ اگر امریکی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 83 فیصد فنڈنگ میں کمی عمل میں آتی ہے تو اس سے اموات کی شرح پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

تخمینوں کے مطابق اس کٹوتی کے نتیجے میں 2030 تک ایک کروڑ 40 لاکھ سے زاید اموات روکی جاسکتی تھیں جو شاید اب ممکن نہیں ہوگی۔

ان اموات میں 5 سال سے کم عمر کے 45 لاکھ سے زاید بچے شامل ہوں گے، یعنی سالانہ تقریباً 7 لاکھ بچوں کی اموات ہوسکتی ہے۔

موازنہ کے طور پر دیکھا جائے تو پہلی عالمی جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

محققین کے مطابق یو ایس ایڈ کی معاونت سے چلنے والے پروگراموں کی وجہ سے تمام وجوہات سے ہونے والی اموات میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ 5 سال سے کم عمر بچوں کے لیے یہ کمی دوگنی یعنی 32 فیصد رہی۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یو ایس ایڈ کی فنڈنگ بیماریوں سے بچاؤ کے قابل اموات کو روکنے میں خاص طور پر مؤثر رہی ہے۔تحقیق کے مطابق جن ممالک کو یو ایس ایڈ کی بھرپور معاونت حاصل رہی، وہاں ایچ آئی وی/ایڈز سے ہونے والی اموات کی شرح ان ممالک کے مقابلے میں 65 فیصد کم رہی جہاں یو ایس ایڈ کی فنڈنگ بہت کم یا بالکل نہیں تھی۔ اسی طرح ملیریا اور نظرانداز کی گئی ٹراپیکل بیماریوں سے ہونے والی اموات بھی نصف رہ گئیں۔

تحقیق کے شریک مصنف نے کہا کہ انہوں نے زمینی سطح پر دیکھا ہے کہ کس طرح یو ایس ایڈ نے ایچ آئی وی، ملیریا اور تپ دق جیسی بیماریوں سے لڑنے میں مدد کی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ’اب اس فنڈنگ میں کمی کرنا نہ صرف زندگیاں خطرے میں ڈالے گا بلکہ اُس اہم ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچائے گا جسے بنانے میں دہائیاں لگی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عام ٹیسٹ دل کی خطرناک بیماری کی تشخیص میں ناکام
  • فضائی آلودگی دل کے لیے بھی خطرناک، نئی تحقیق میں تشویشناک انکشافات
  • یو ایس ایڈ فنڈنگ میں کٹوتی کے باعث ڈیڑھ کروڑ اموات کا خدشہ
  • روزانہ 100 منٹ پیدل چلنے سے کمر درد میں 23 فیصد کمی، نئی تحقیق
  • لاہور: خستہ حال مکان کی چھت گر گئی، 5 افراد زخمی
  • ’’بھارت کا حکمران طبقہ کشمیریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے‘‘
  • سیلاب میں پھنسے نوجوان کو 1 منٹ میں ریسکیو کرلیاگیا
  • بھارت میں دہلی یونیورسٹی کی انتظامیہ کا تعلیمی نصاب سے پاکستان، اسلام اور چین جیسے مضامین کو نکالنے کا فیصلہ
  • بھارت میں تعلیمی نصاب سے پاکستان، اسلام اور چین جیسے مضامین کو نکالنے کا فیصلہ