مسئلہ گروک، سیاسی شعور یا تجزیے کے لیے کیا اے آئی کا استعمال ٹھیک ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
سوشل میڈیا پر گروک جیسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس چیٹ بوٹس کی سیاسی رائے زنی پر ایک سنجیدہ بحث چھڑ چکی ہے، بہت سے صارفین ان ماڈلز کی جانب سے دی گئی معلومات یا جوابات کو حتمی اور مستند تصور کرنے لگے ہیں۔
مثال کے طور پر، جب گروک سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا ’صادق اور امین‘ لیڈر کون ہے؟ تو وہ بعض اوقات عمران خان اور بعض مواقع پر نواز شریف کا نام لیتا ہے، ایسے میں سیاسی جماعت کے حامی اپنے حق میں آئے جواب کو سچائی کی سند سمجھ کر پیش کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس وائرل ہو رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ بات تو اب گروک نے بھی کہہ دی ہے، تو یہی درست ہے، اس صورتحال نے ماہرین اور ڈیجیٹل رائٹس کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے آئی چیٹ بوٹس نعمت کے ساتھ زحمت بھی، جانیے نقصانات و احتیاطی تدابیر
ان ماہرین کے مطابق اے آئی ماڈلز، چاہے وہ کتنے ہی جدید کیوں نہ ہوں، مکمل طور پر غیر جانبدار یا حقائق پر مبنی نہیں ہوتے، ان کا علم انٹرنیٹ پر موجود مواد، تربیتی ڈیٹا اور مخصوص الگورتھمز پر مبنی ہوتا ہے، جس میں تعصب یا کمی بیشی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
جب بات سیاست کی ہو، جہاں بیانیے، مفادات اور عوامی رائے مسلسل تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، تو وہاں ایک اے آئی ماڈل کی رائے کو ’فیصلہ کن سچ‘ مان لینا خطرناک بھی ہو سکتا ہے، یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا گروک جیسے اے آئی ٹولز کو سیاسی شعور یا تجزیے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ فریحہ عزیز سمجھتی ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈلز کا استعمال خبر اکھٹا کرنے والے ایک ٹول کی طرح تو ٹھیک ہے، لیکن سیاسی رائے، حتیٰ کہ فیکٹ چیکنگ کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔
مزید پڑھیں: ایلون مسک کی کمپنی ایکس اے آئی نے نیا چیٹ بوٹ گروک3 لانچ کردیا
وی نیوز سے گفتگو میں فریحہ عزیز نے بتایا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈلز فیڈ کیا جا رہے ہوتے ہیں اور گروک یا کوئی بھی اے آئی ٹول اسی کے مطابق آؤٹ پٹ دیتے ہیں جو کچھ ان کو فیڈ کیا جا رہا ہوتا ہے، انہوں نے پاک بھارت جنگ کے دوران راولپنڈی اسٹیڈیم میں بھارتی ڈرون گرنے کی مثال پیش کی، جس کی لوگوں نے تصدیق کی تھی۔
’۔۔۔اس کے بعد جب تصاویر گروک پر ڈال کر فیکٹ چیک کیا گیا تو اس نے بھی اس کی تصدیق کرنا شروع کر دی، اب وہ تصدیق گروک نے خود سے نہیں بلکہ اس وقت جتنے زیادہ لوگوں نے اس کی تصدیق کی ان نمبرز کی بنیاد پر گروک نے اس کی تصدیق کر دی۔‘
فریحہ عزیز نے مزید بتایا کہ گروک یا گروک کی طرح کے جو بھی اے آئی ٹولز ہیں، ان کی رائے ڈیٹا سیٹ، یعنی جتنے زیادہ لوگ کسی خاص موضوع پر بات کریں گے، گروک کا جھکاؤ اس طرف زیادہ ہوگا، پر منحصر ہے۔
مزید پڑھیں:
’ان اے آئی ماڈلز کی کوئی رائے نہیں ہے، یہ وہی بتاتا ہے، جو انہیں فیڈ کیا گیا ہے، اس لیے گروک کسی بھی سیاسی، قانونی، یا کسی بھی قسم کی رائے یا فیکٹ چیکنگ کے لیے مستند ٹول نہیں ہے۔ ان اے آئی ٹولز کو مختلف صورتحال میں مختلف مقاصد کے لیے ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ انسانی رائے اور ذرائع پر انحصار کرنا چاہیے۔
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ ڈاکٹر ہارون بلوچ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ گروک ایک ایسا ہی اے آئی بوٹ ہے جیسے چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک، جیمنئی وغیرہ۔ یہ ایکس پر ٹویٹ کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات سوال کرنے والی پروفائل کی سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات پر رائے کو مدنظر رکھتا ہے اور اس رائے سے مطابقت رکھتے ہوئے جوابات بنا کر دیتا ہے جوکہ اے آئی کی ٹیکنالوجی کے متعصب ہونے کی واضح مثال ہے۔
’اگر ٹوئیٹ کی بجائے گروک کے جنرل چیٹ بوٹ پر جاکر وہی سوال پوچھیں گے تو اسکا جواب یکسر تبدیل اور تفصیل سے ہوگا اور اس میں بجائے اپنی حتمی رائے دینے کے وہ مختلف سیاق و سباق کے ساتھ فیکٹ سامنے رکھ دیتا ہے۔‘
مزید پڑھیں:
ڈاکٹر ہارون بلوچ کے مطابق اے آئی کی رائے کبھی بھی جانبدار نہیں ہوتی کیونکہ یہ ٹیکنالوجی نئی ہے اور پہلے سے موجود انفارمیشن کو پراسس کرکے اسکرپٹ بناتا ہے۔ انسانی عمل دخل کے بغیر اے آئی کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے جب تک ایڈیٹوریل چیک یا کراس چیک انفارمیشن نہ ہو تو فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے پھیلنے کا سبب بن سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایڈیٹوریل چیک اے آئی ڈاکٹر ہارون بلوچ ڈس انفارمیشن ڈیجیٹل رائٹس سوشل میڈیا فریحہ عزیز فیک نیوز کراس چیک انفارمیشن گروک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رٹیفیشل انٹیلیجنس اے ا ئی ڈاکٹر ہارون بلوچ ڈس انفارمیشن ڈیجیٹل رائٹس سوشل میڈیا فیک نیوز کراس چیک انفارمیشن گروک ڈیجیٹل رائٹس کی رائے اے ا ئی اے آئی کیا جا کے لیے
پڑھیں:
ایلون مسک نے نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کر دیا
واشنگٹن:دنیا کے معروف بزنس ٹائیکون اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے ایک نیا سیاسی جماعت ’امریکا پارٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو امریکی سیاسی منظرنامے میں ایک نیا انقلاب لانے کا عہد کرتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مسک نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا، جس میں انہوں نے اس جماعت کو ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے دو پارٹی سسٹم کا متبادل قرار دیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایلون مسک نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہمارے ملک کو ضیاع اور کرپشن کے ذریعے دیوالیہ کرنے والے نظام کے خلاف ہم سب ایک نیا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ہم ایک ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جو عوام کے لیے کام کرے، نہ کہ طاقتور طبقات کے مفادات کے لیے.
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا پارٹی عوام کو آزادی دینے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
تاہم ابھی تک امریکہ پارٹی کی باقاعدہ رجسٹریشن کے حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں آئی ہیں، اور یہ واضح نہیں کہ آیا پارٹی نے امریکا کے انتخابی حکام کے ساتھ رجسٹریشن کرائی ہے یا نہیں۔ مسک نے پارٹی کی قیادت اور اس کے عملی ڈھانچے کے بارے میں بھی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ایلون مسک کا یہ اعلان ایک طویل عوامی تنازعے کے بعد آیا ہے، جس میں وہ اور امریکا کے صدر ٹرمپ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ مسک نے اپنے رول سے استعفیٰ دینے کے بعد ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں اور ٹیکس منصوبوں پر کھل کر تنقید کی تھی، جس سے دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
مسک کے اس اعلان کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا امریکا پارٹی حقیقی طور پر امریکی سیاسی منظر پر ایک نیا دور لانے میں کامیاب ہو پائے گی؟ اس وقت تک امریکا کے انتخابی حکام کی جانب سے کوئی دستاویزات نہیں دیکھی گئی ہیں جو اس پارٹی کی رجسٹریشن کی تصدیق کریں۔