جب زمبابوے کے دوسرے بڑے ٹیسٹ سینٹر بلاوایو کے کو ئین سپورٹس کلب پر جاری زمبابوے اور سائوتھ افریقہ کے در میان جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کھانے کے وقفے سے لمحہ قبل بیٹنگ اینڈ پر موجود 27 سالہ ویان مولڈر نے جنوبی افریقہ کی اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا، تو میدان میں موجود چند سو تماشائیوں، کمنٹیٹرز سمیت دنیا بھر میں موجود کرکٹ تماشائی حیران رہ گئے۔

کیوں کہ ویان مولڈر نے ایک ایسا موقع جان بوجھ کر گنوا دیا جو انہیں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں امر کر سکتا تھا۔ 367 رنز پر بیٹنگ کر رہے، ویان مولڈرز کے سامنے عظیم ویسٹ انڈین بلے باز سر برائن لارا کا 400 رنز کا تقریبا ناقابل ‘تسخیر ‘سمجھا جانے والا ریکارڈ صرف 32 رنز دوری پر تھا اور اس بات کے امکانات روشن تھے کہ کھانے کے وقفے کے بعد چند ہی اورز افریقی کپتان کو تاریخ کا نمایاں حصہ بنا دیں گے۔

مگر ویان نے اس کے بر عکس سوچا، انہوں نے 400 رنز کا ریکارڈ عبور کر کے تاریخ کا حصہ بننے کے بجائے برائن لارا کے احترام میں اننگز ڈکلیئر کر کے اپنے نام اور احترام میں اضافے کے آپشن کو قبول کیا۔

 16ویں صدی میں انگلینڈ کی کیچڑ آلود گلیوں سے مقامی کھیل کے طور پر سفر شروع کرنے سے لیکر 18ویں صدی تک مقبول کھیل اور پھر 20ویں صدی میں عالمی کھیل کا درجہ حاصل کرنے تک سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے واقعات کرکٹ سٹیج کا حصہ بنے جب ‘سپورٹس مین سپرٹ’نے کھلاڑی پر فارمنس نہیں بلکہ کردار کے بل بوتے پر تاریخ میں امر ہوئے۔

یہی مواقع تھے جنہوں نے کرکٹ کو جنٹل مین سپورٹس کا ٹائٹل بھی دلوایا۔کرکٹ کی طویل ترین تاریخ کو نظر انداز بھی کیا جائے تو ماضی قریب میں کرکٹ شائقین نے کئی ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جو کھیل کی روایتی ‘آن دی فیلڈ’ مقابلہ بازی سے بالاتر ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

 1987 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں کورٹنی والش نے ایسے ہی عمل کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے پاکستانی بلے باز سلمان جعفر کو رن آ ئو ٹ نہ کر کے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، جس نے ان کی ٹیم کو تو بہت نقصان پہنچایا کیوں کہ ویسٹ انڈیز یہ مقابلے ہار گئی مگر والش کے اس اقدام کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔

انگلینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلے گئے ایک ٹیسٹ میچ میں بلے باز ایان بیل کھیل کے وقفے کے دوران متنازعہ طور پر رن آوٹ ہو گئے۔ بھارتی کپتان ایم ایس دھونی نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظہرہ کرتے ہو ئے اپیل واپس لے لی اور بیل کو اپنی اننگز جاری رکھنے کی اجازت دی، دھونی اس عمل کی بنیاد پر اس سال آئی سی سی سپورٹس مین آف دی ایئر کے ایوارڈ کے بھی حقدار ٹھہرے تھے۔

کھیل کے میدان میں لائن لگا کر  ہاتھ ملانے ،بہتر کارکردگی پر مخالف کھلاڑی کی ستائش سے لیکر متعدد ایسے روایتی ایونٹس ہیں جو باقاعدہ ڈسپلن کا حصہ نہیں مگر دہائیوں بلکہ صدیوںسے کرکٹ سے جڑے ہیں۔

مگر بولووائیو کے میدان میں جس عمل اور رد عمل کا مظاہرہ  ویان مولڈر نے کیا وہ اس انجان کھلاڑی کو نئی پہنچان دے گیا۔ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے درمیان دوسرے ٹیسٹ میچ کا ٹاس اگر چہ زمبابوے نے جیتا مگر بیٹنگ کیلئے مہمان ٹیم کو اترنے کی دعوت دی۔

اوپنر لسیگی سینوکوان کے جلد ہی آوٹ ہونے کے بعد کپتان  ویان مولڈر نے ایک اینڈ سنبھالا اور اگلے 4 سیشن تک زمبابوے کے کمزور ترین بائولنگ لائن اپ پر مکمل راج کیا۔

مولڈرز نے جب پہلے دن کا اختتام کیا تو سکور بورڈ پر ان کے نام کے آگے 264 رنز درج تھے مطلب وہ ایک ہی دن کے 3 سیشنز میں ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب ٹھہرے۔

میچ کے اگلے روز پہلے سیشن میں مولڈرز نے کھیل وہیں سے شروع کیا جہاں گزشتہ شام چھوڑا تھا۔ پہلے سیشن کے اختتام پر وہ اپنے نام پر مزید 100 رن جوڑ چکے تھے اور جنوبی افریقہ سمیت دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو یقین ہو چلا تھا کہ برائن لارا کا وہ عظیم المرتبت ریکارڈ جلد ٹوٹنے والا ہے جو انہوں نے آج سے 21 سال قبل اپریل کی ایک گرم دوپہر سینٹ جونز کے میدان پر انگلینڈ کے پاور فل بائولنگ لائن اپ کے خلاف بنایا تھا۔

مگر ایسا نہیں ہوا کیوں کہ مولڈرز نے ایسا کیا ہی نہیں۔ شاید ویان مولڈرز  نے سوچا ہو گا کہ میں نے اگر یہ ریکارڈ توڑ بھی لیا تو لوگ ساری زندگی زمبابوے اور انگلینڈ کے بائولنگ اٹیک کا مقابلہ کریں گے اور ان کے ریکارڈ کی اہمیت کم ہی رہے گی، اگر وہ 400 کا پاور فل ہندسہ عبور نہ کریں اور برائن لارا کے ریکارڈ کا احترام کریں تو دنیا انہیں زیادہ اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی۔ ویان نے ایسا ہی کیا اور دنیا بھی ایسا ہی کرے گی۔

بقول ناصر بٹ کے ‘ہر کسی کے سوچنے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور وہی سوچ ہی کسی انسان کے بڑا یا چھوٹا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ برائن لارا بڑا کھلاڑی تھا عظیم بیٹر تھا اس نے ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی تھی اور اسکا 400 رنز کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔

مولڈر نے اننگز ڈیکلیئر کر دی اور برائن لارا کے احترام میں اس ریکارڈ کی طرف نہیں گیا جو اسے ٹیسٹ کرکٹ میں ہمیشہ یاد رکھا جانیوالا بیٹر بنا سکتی تھی۔ سب یہی کہیں گے کہ ایسی باتیں کون یاد رکھتا ہے یاد تو ریکارڈز ہی رہتے ہیں مگر یہ اپنے اپنے سوچنے کا انداز ہے کچھ چیزیں شاید ریکارڈز سے بھی بڑی ہوتی ہیں جن کی طرف ویان مولڈر گیا ہے اور وہ چیز ہے کسی کو اپنے سے بہتر تسلیم کرنا۔

برائن لارا نے اپنی اننگز انگلینڈ کے خلاف کھیلی تھی مولڈر زمبابوے جیسی تھکی ٹیم اور بالنگ کے خلاف کھیل رہا تھا شاید اسے یہ اچھا نہیں لگا کہ ایک عظیم اننگز کا ریکارڈ اس طرح سے ٹوٹے کہ لوگ ساری زندگی یہ کہتے رہیں کہ مولڈر نے کون سا کسی اچھی ٹیم کے خلاف ریکارڈ توڑا تھا حالانکہ ریکارڈ ریکارڈ ہی تھا زمبابوے کو بھی ٹیسٹ سٹیٹس حاصل ہے ریکارڈ اسکے خلاف بھی ہوتا تو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا تھا، ریکارڈ تو بہرحال بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں مگر ایسا دل جیتنے والا فیصلہ کرنا ہر کسی کے حوصلے کی بات نہیں’۔

یقینا ویان نے ریکارڈ نہیں توڑا مگر تاریخ انہیں ضرور یاد رکھے گی، سپورٹس مین سپرٹ کا عظیم مظاہرہ جو ایک اور عظیم کھلاڑی کے احترام میں سامنے آیا۔کرکٹ تاریخ کا شاندار سرنڈر ویان مولڈرز سے سرزد ہو گیا۔

اویس لطیف

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اویس لطیف

برائن لارا کرکٹ ویان مولڈر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: برائن لارا کرکٹ

پڑھیں:

مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی

مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز

بیجنگ :”نکی ایشیا” نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: “مسٹر جاپان نے ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے سے انکار کر دیا، اور یہ صحیح ہے”۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور جاپان تجارتی مذاکرات کر رہے ہیں، لیکن” ایشبا حکومت” کا رویہ توقعات سے زیادہ سخت ہے، اور یہ ایک صحیح اقدام ہے۔ یہ انہوں نے” ایبے حکومت” کے تجربے سے سیکھا ہے، جو ٹرمپ کے سامنے زیادہ جھک گئی تھی، لیکن انہیں کسی فائدے کے بدلے میں کچھ نہیں ملا۔ٹرمپ کو “ڈیڈی” کہنے کا مذاق اس وقت شروع ہوا جب پچھلے مہینے 25 تاریخ کو ہیگ میں نیٹو سمٹ کے دوران ایک صحافی نے ٹرمپ سے اسرائیل اور ایران کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ان کے سخت الفاظ کے بارے میں پوچھا۔ اس موقع پر موجود نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹ نے کہا: “دادا ابو کو کبھی کبھی سخت الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔” رات کو جب صحافیوں نے ٹرمپ سے روٹ کے “دادا” والے خطاب کے بارے میں پوچھا تو ٹرمپ نے کہا: “میرے خیال میں وہ مجھے پسند کرتے ہیں… ‘دادا، آپ میرے دادا ہیں—روٹ نے یہ الفاظ بہت پیار سے کہے۔” یہی اس مذاق کی اصل کہانی ہے۔

چینی کہاوت ہے کہ اگر کوئی حد سے زیادہ مذاق کرے تو کہا جاتا ہے: “تم کس قسم کا بین الاقوامی مذاق کر رہے ہو ؟” اگرچہ مذکورہ واقعے کے فریقین نے اسے صرف مذاق قرار دیا، لیکن غور کریں کہ امریکیوں نے کبھی یورپ کو “دادا” کہنے والا مذاق کیوں نہیں کیا؟ نیز، نیٹو سربراہی اجلاس جیسے بین الاقوامی فورم پر اگرچہ ماحول دوستانہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ کوئی بار یا گولف کلب نہیں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کی بات کرے۔ یہ “دادا والا مذاق” اس لیے سرخیوں میں آیا کیونکہ اس کے پیچھے چھپے مفاہیم اور بولنے والے کے ذہنی رویے پر غور کرنا لازمی ہے۔ میرے نزدیک، یہ مذاق محض یورپ کی جانب سے امریکہ کی خوشامد کے لیے “عزت کی قربانی” کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ یورپ کی سلامتی، معیشت اور دیگر شعبوں میں امریکہ پر انتہائی انحصار کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جس سے یورپ اور امریکہ کے درمیان طاقت کا عدم توازن عیاں ہوتا ہے۔ یہ منظر مجھے 10 ویں صدی عیسوی کے اوائل کی یاد دلائے بغیر نہیں رہ سکتا، جب چینی علیحدگی پسند جنگجو شی جنگ تھانگ نے بادشاہت کے خواب سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہو جن خاندان کی حکومت قائم کی، اس نے خود کو خانہ بدوش قوم چھیتان کے بادشاہ کا ” شاہی بیٹا ” کہا اور اپنی کچھ زمین چھیتان کے حوالے کر دی تاکہ چھیتان کی پناہ اور عارضی سلامتی حاصل کی جا سکے ۔ آج یورپی رہنما امریکہ کے سامنے اسی طرح عاجزی دکھا رہے ہیں، جو شی چنگ تھانگ کی طرح ذلت آمیز ہے۔ یہ رویہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یورپی تہذیب کے گہرے بحران کو بھی ظاہر کرتا ہے—یہ وہ براعظم جس نے روشن خیالی تحریک اور صنعتی انقلاب کو جنم دیا تھا، آج سلامتی اور دفاعی خودمختاری کے معاملے میں مکمل طور پر دوسروں کا محتاج بن چکا ہے، اور کافی، دھوپ اور چھٹیوں کے نرم و نازک دام میں اس طرح گرفتار ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی سیاسی اشرافیہ اس طرح کی رسوائی اور “امریکی پرست رویے” کو معمول سمجھتی ہے۔ یورپ کا امریکہ پر انحصار حد سے کہیں زیادہ ہے، اور یورپی باشندے “امن کے لیے امریکہ پر بھروسہ” کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

اس انحصار کی قیمت بہت بھاری ہے—یورپ کو سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف میدانوں میں امریکی حکمت عملی کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یورپی معاشرے کو اس ” ذلت” کی عادت ہو چکی ہے:ایسے میں جب ان کے رہنما بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سر جھکائے پھرتے ہیں، تو یورپی لوگ اس بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں کہ دھوپ سینکنے کے لئے چھٹیوں پر کہاں جانا ہے، اور کس برانڈ کا نیا ہینڈ بیگ فروخت ہو رہا ہے ، اور اس طرح کی قومی سیاسی بے حسی اور لذت پرستی یورپ کی تزویراتی خودمختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ کے پاس راستہ موجود ہے، لیکن اس کے لیے ہمت اور دوراندیشی درکار ہے۔ سب سے پہلے، یورپ کو امریکہ پر انحصار ختم کرنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یورپ کو ایک “ذہنی نشاۃ ثانیہ” کی ضرورت ہے—صرف عیش و آرام کی لت سے چھٹکارا پا کر ہی یورپ دوبارہ بین الاقوامی احترام حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی توہین کے بعد اگرچہ کچھ یورپی سیاست دانوں نے آنسو بہائے ہیں اور کچھ نے زیادہ خود مختار یورپ کی بات کی ہے، مگر جب اناپرست ٹرمپ خوش ہو کر کوئی اچھا رویہ دکھائے گا، یا امریکہ اگلے انتخابات میں کوئی نیا “ابو” منتخب کر کے یورپ کو کوئی چھوٹی سی مٹھائی پیش کرے گا، تو کیا یورپ پھر سے “ابو واپس آ گئے” کہہ کر خوشی سے نہال نہیں ہو جائے گا؟

اور سب سے آسان سوال – کیا امریکہ کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس واشنگٹن کو یورپ جیسی فربہ بھیڑ کو چھوڑنے دے گا؟ مشکل ہے! تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ عزت کی قربانی کی قیمت پر حاصل کردہ سلامتی کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔ آج یورپ ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: کیا وہ امریکہ کا “فرمانبردار بچہ” بن کر رہے گا یا ایک باوقار خودمختار طاقت بنے گا؟ پہلا راستہ دوسروں کے سائے میں زندگی گزارنے کے مترادف ہے، جبکہ دوسرا راستہ مشکل ضرور ہے، لیکن یورپ کی عظمت کو بحال کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یورپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی سیاست کے جنگل میں کوئی قوم کسی دوسرے پر انحصار کر کے حقیقی سلامتی اور عزت حاصل نہیں کر سکتی۔ صرف خود انحصاری ہی “شاہی بیٹا” جیسی تاریخ کو دہرانے سے بچا سکتی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ کا ایلون مسک کے تیسری سیاسی جماعت کے اعلان پر ردعمل سامنے آگیا دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان چین-وسطی ایشیا تعلقات کا نیا دور ایک فرمان بردار بیٹا ’’جیانگ سو سپر لیگ‘‘ ، کھیل اور معیشت کا بہترین امتزاج پاک فضائیہ نے بھارت کا کولڈ اسٹارٹ جنگی نظریہ ناکام بنا دیا، ایئر یونیورسٹی سابق وائس چانسلر فائز امیر سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • محمد یوسف نے ذاتی برانڈ “ایم وائے برکہ” متعارف کرادیا 
  • ویان ملڈر نے برائن لارا کا 400 رنز کا ریکارڈ نہ توڑنے کی وجہ بتادی
  • ویان ملڈر نے برائن لارا کا ایک اننگز میں 400 رنز کا ریکارڈ توڑنے کا موقع خود چھوڑ دیا، جانیں کیوں؟
  • ویان ملڈر نے برائن لارا کا تاریخی ریکارڈ توڑنے سے پہلے اننگز ڈکلیر کردی
  • برائن لارا کا ریکارڈ 21 سال بعد ٹوٹ سکتا تھا، مگر ’چوکرز‘کے غلط فیصلے نے موقع گنوا دیا؟
  • ویان ملڈر نے ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخ رقم کردی، حنیف محمد کا 66 سالہ ریکارڈ توڑ دیا
  • مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی
  • انڈر 18 ایشیاء کپ میں پاکستان نے سری لنکا کو 0-9 سے شکست دیدی
  • ایلون مسک نے اپنی نئی سیاسی جماعت “امریکا پارٹی” لانچ کر دی