مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ peshawar high court WhatsAppFacebookTwitter 0 8 July, 2025 سب نیوز
پشاور(آئی پی ایس) مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ ن کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں اسپیشل سیکرٹری لا الیکشن کمیشن محمد ارشد، وکیل الیکشن کمیشن محسن کامران، مسلم لیگ ن کے وکیل عامر جاوید، بیرسٹر ثاقب رضا، جے یو آئی کے وکیل نوید اختر، فاروق آفریدی عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے جب مخصوص نشستوں کی تقسیم کی تو اس وقت مسلم لیگ ن کے 6 ارکان کاؤنٹ کیے۔ مسلم لیگ ن نے 8 فروری الیکشن میں 5 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ امیدوار کی کامیابی نوٹیفکیشن کے بعد 3 دن میں آزاد امیدواروں کو کسی پارٹی کو جوائن کرنا ہوتا ہے اور آزاد امیدوار حسام انعام اللہ مقررہ وقت میں مسلم لیگ ن کو جوائن کیا۔
وکیل کے مطابق ابھی امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن باقی تھا، الیکشن کمیشن نے 22 فروری کو مخصوص نشستوں کی تقسیم کی۔
درخواست گزار کے وکیل کے مطابق خیبرپختونخوا میں 26 خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں اور 4 اقلیت کی نشستیں ہے۔ پی کے 82 سے ملک طارق اعوان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن 22 فروری کو جاری کیا جاتا ہے۔ 23 فروری کو ملک طارق اعوان نے مسلم لیگ کو جوائن کیا اور اسی دن الیکشن کمیشن کو لیٹر جاری کیا جاتا ہے۔
عدالت کو وکیل نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی اسمبلی میں 7 نشتیں ہوگئیں۔ 4مارچ کو اقلیت کی نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اقلیت کی نشست ایک جے یو آئی، ایک مسلم لیگ ن، ایک پی پی پی کو دی گئی جب کہ ایک سیٹ کو خالی رکھا کہ یہ ٹاس کے ذریعے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو دی جائے گی۔
وکیل کے مطابق اسی 4 مارچ کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ ن کی 6 نشستیں کاؤنٹ کی جاتی ہیں۔ طارق اعوان کو اقلیت کی نشست پر مسلم لیگ ن کا شمار کیا جاتا ہے اور خواتین کی سیٹوں پر آزاد قرار دیا جاتا ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ مسلم لیگ ن کی اب 8 مخصوص نشستیں ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ملک طارق اعوان نے 22 فروری کے بعد جوائن کیا جب کہ آئین میں لکھا ہے کہ آزاد امیدوار 3 دن میں کسی پارٹی کو جوائن کرے گا۔ 22 کو نوٹی فکیشن جاری کیا جاتا ہے اور ایک دن بعد وہ مسلم لیگ ن کو جوائن کرتے ہیں۔
وکیل کے مطابق مقررہ مدت میں جوائن کرنے کے باوجود ملک طارق اعوان کو آزاد ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو بھی درخواست دی کہ دو آزاد امیدوار مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے، نشستوں کی تعداد 7 ہے۔ مسلم لیگ ن کی مخصوص نشستوں کی تعداد 9 ہونی چاہیے اور اقلیت کی ایک نشست ٹاس پر کی جائے۔
نوید اختر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی کو فریق نہیں بنایا، ہم اقلیت کی نشست پر منتخب گجرال سنگھ کی طرف سے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ سینٹ الیکشن ملتوی ہوں۔ عدالت اس کو الیکشن کمیشن بھیجنا چاہتی ہے تو 3 دن میں الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ کرے۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں سمجھا دیں کہ جب پراسس مکمل نہیں ہوتا تو کیسے نشستوں کی تقسیم کرسکتے ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری لا نے بتایا کہ الیکشن کے 21 دن بعد اسمبلی کا اجلاس ہونا ہوتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ 22 فروری آخری تاریخ دیتے ہیں کہ اس وقت تک پارٹی جوائن کریں۔ آپ نے 5 سیٹیں 22 فروری کی پارٹی پوزیشن پر دی ہیں۔ 21 سیٹیں تو مارچ میں دی ہیں، اس کی کیا لاجک ہے؟۔
اسپیشل سیکرٹری لا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 22 فروری کی پارٹی پوزیشن پر نشستیں دی ہیں، جس پر جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ اگر آپ 22 کو ساری مخصوص نشستیں دیتے تو پھر اور بات تھی۔
جے یو آئی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جس پارٹی کی نشستوں کو چیلنج کیا ہے اس پارٹی کو فریق بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایک جولائی کو مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آگیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں سریش کمار نے درخواست دائر کی تھی، وہ یہاں پر درخواست گزار نہیں ہے۔ طارق اعوان بھی یہاں پر درخواست گزار ہے۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرراولپنڈی میں90 سے زائد بوسیدہ اور خستہ حالت عمارتیں خطرناک قرار راولپنڈی میں90 سے زائد بوسیدہ اور خستہ حالت عمارتیں خطرناک قرار محسن نقوی کا حوالہ ہنڈی مافیا اور نان کسٹم مصنوعات کیخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کا کاری وار، اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان، 5 فوجی ہلاک، 14 زخمی ایلون مسک کو نئی امریکی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان مہنگا پڑ گیا برطانیہ نے ایران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیمیں پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں: پاکستانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مخصوص نشستوں کی تقسیم کار کے خلاف مسلم لیگ ن کی فیصلہ محفوظ درخواست پر
پڑھیں:
ہری پور ضمنی انتخابات کے حوالے سے بے بنیاد الزامات غیر ضروری اور حقائق کے منافی ہیں، الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ بعض عناصر ہری پور این اے-18 ضمنی انتخابات کو متنازع بنانے کے لیے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں، جن میں ڈی آر او اور آر او کی تعیناتی کو سازش قرار دینا شامل ہے۔ کمیشن نے واضح کیا کہ یہ دعوے حقائق کے سراسر منافی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق، جنرل انتخابات میں آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی عملے کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی، مگر ضمنی انتخابات میں ضرورت کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: این اے-18 ہری پور کے ضمنی انتخاب میں شہرناز عمر ایوب کو شکست، پی ٹی آئی کا دھاندلی کا الزام
ہری پور این اے-18 میں بھی اسی ایریا کے افسروں کو ڈی آر او اور آر او مقرر کیا گیا، جو الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن کا قانونی اختیار ہے۔
#ECP pic.twitter.com/pdaYiLWRk3
— Election Commission of Pakistan (OFFICIAL)???????? (@ECP_Pakistan) November 30, 2025
آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی پول ڈے سے پہلے کر دی جاتی ہے اور کسی جانب سے اعتراض الیکشن کے دن تک نہیں اٹھایا گیا، بلکہ الزامات ہارنے کے بعد لگائے جا رہے ہیں۔
فارم 45 کے پہلے سے تیار ہونے کا الزام بھی غلط ہے کیونکہ تمام پریزائیڈنگ آفیسرز اور معاون عملہ صوبائی انتظامیہ سے فراہم کیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ انتخاب کے عمل میں سیکیورٹی اور عملہ بھی صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کیا گیا۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے رانا ثنااللہ، طلال چوہدری، سہیل آفریدی سمیت کس کس کو طلب کیا ہے؟
کمیشن کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب کے بعد ایک جیسے بے بنیاد الزامات کا مقصد صرف الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانا ہے، جبکہ نتائج پر اعتراض کی صورت میں قانونی فورم الیکشن ٹربیونل ہے، نہ کہ میڈیا پر الزامات لگانا۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہری پور ضمنی انتخابات میں تمام اقدامات آئین اور قانون کے مطابق کیے گئے اور آئندہ بھی کیے جائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن ہری پور این اے-18