لیاری میں عمارت گرنے کی تحقیقاتی حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں آباد
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)یسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی شہر کا ماسٹر پلان بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے،وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سندھ میں مریم نواز طرز کی ہاؤسنگ اسکیم کا اعلان کریں، سندھ حکومت کی جانب سے لیاری میں عمارت گرنے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کو مسترد اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس میں نجی شعبے کے لوگوں کو شامل کیا جائے۔ کراچی شہر میں 700 مخدوش اور لاکھوں غیرقانونی اور ناقص میٹریل سے تعمیر کی گئی عمارتیں شہریوں کی جان و مال کو مسلسل خطرے میں ڈال رہی ہیں،گزشتہ 5 سال میں غیرقانونی طور پر تیار عمارتیں گرنے سے 150 قیمتیں جانیں ضائع ہوچکی ہیں اس کی بنیادی وجہ کرپشن،لالچ اور حکومتی بے حسی ہے،آباد 700 مخدوش عمارتوں کودوبارہ تعمیر کرنے کے لیے تیار ہے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ لیاری سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو 25 لاکھ روپے اور بے گھر ہونے والوں کو 10 لاکھ روپے امداد دی جائے۔ وہ آباد ہاؤس میں سینئروائس چیئرمین سید افضل حمید، وائس چیئرمین طارق عزیز اورصفیاں آڈھیا کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہے تھے۔محمد حسن بخشی نے کہا کہ لیاری بغدادی سانحہ کی تحقیقات کے لیے حکومتی کمیٹی میں نجی شعبے کے لوگوں کوشامل کیا جائے تاکہ ذمے داران کی نشاندہی کی جاسکے۔غیر قانونی طور پر بنائی گئیں عمارتوں میں اضافی فلورز بغیر اجازت کے تعمیر کیے جا رہے ہیں جن کی بنیادیں اور چھتیں صرف 15 سے 20 سال کی مدت کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ ان غیرقانونی تعمیرات میں مقامی انتظامیہ، پولیس اور متعلقہ حکام ملوث ہوتے ہیں، جبکہ مجبوری کے تحت شہری ان خطرناک عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔انھوں نے کہا کہ خدا نخواستہ اگر کراچی میں زلزلہ آتا ہے تو ان میں سے ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہو سکتی ہیں، جس سے بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
کیا ٹی ایل پی کریک ڈاؤن حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اکتوبر 2025ء) تحریک لبیک پاکستان نے چند روز قبل بظاہر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انتہا پسند گروہوں سے متعلق ریاستی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے؟
تحریک لبیک پاکستان کا یہ مارچ دس اکتوبر کو لاہور سے شروع ہوا اور اس دوران ان کا اسلام آباد کے ریڈ زون میں امریکی سفارتخانے کے قریب پہنچنے کا منصوبہ تھا تاکہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف مظاہرہ کیا جا سکے۔
حکومت کا مؤقف تھا کہ ایسے احتجاج کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان پہلے ہی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کر چکا ہے۔تین دن بعد، جب مذہبی جماعت نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی جانب مارچ پر اصرار کیا، تو سیکیورٹی فورسز نے سخت کریک ڈاؤن شروع کیا۔
(جاری ہے)
سرکاری اطلاعات کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے دوران تصادم میں کم از کم چار افراد، جن میں ایک پولیس افسر اور تین عام شہری شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق مذہبی جماعت کے سربراہ سعد رضوی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔کیا حکومتی ایکشن درست فیصلہ ہے؟
مختلف سیکیورٹی تجزیہ کار اگرچہ اس بات سے متفق ہیں کہ انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے، تاہم وہ حکام کے طرزِ عمل پر اختلاف رکھتے ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ اس وقت کارروائی کی ضرورت نہیں تھی اور معاملہ کسی اور طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا، جبکہ دیگر کے مطابق یہ ایک نایاب موقع ہے جب ریاست نے مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے احتجاج کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
سیکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے سے یہ مخصوص مذہبی گروہ ریاست اور ملک میں موجود اقلیتوں کے خلاف سرگرم ہو چکا تھا۔ ان کے مطابق، ''ٹی ایل پی ایک انتہا پسند جماعت ہے اور اس سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ریاست نے واقعی فیصلہ کر لیا ہے کہ ایسے عناصر کی حمایت نہیں کرے گی، تو اسے اس مؤقف پر قائم رہنا چاہیے اور ماضی کی طرح انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خیال دوبارہ نہیں لانا چاہیے۔
کچھ ماہرین اگرچہ اس بات سے متفق ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان ایک انتہا پسند جماعت ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ واحد گروہ نہیں جو ایسے رجحانات رکھتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو خود کو دوسروں کے عقائد پر سوال اٹھانے کا مجاز سمجھتے ہیں اور خود کو بہتر مسلمان قرار دیتے ہیں یہی ذہنیت عدم برداشت کو بڑھاوا دیتی ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''کسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کے عقائد پر سوال اٹھائے یا خود کو یہ سمجھ لے کہ وہی یہ طے کرنے کا مجاز ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔
ملک میں یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے کہ انتہا پسند گروہ سب کی نیتوں پر شک کریں اور خود کو درست قرار دیں۔‘‘تاہم ان کا کہنا تھا، ''نظریاتی جنگ کو نظریاتی بنیادوں پر ہی لڑنا ہوگا، یہی اس مسئلے کا طویل المدتی حل ہے۔ حکام کو اب کھل کر یہ بحث کرنی چاہیے کہ آخر کس بنیاد پر کوئی خود کو بہتر مسلمان سمجھ کر دوسروں پر برتری جتاتا ہے، اس سوچ پر کھلے عام بات اور بحث ہونی چاہیے۔
‘‘کارروائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اسے ٹالا جا سکتا تھا کیونکہ پاکستان پہلے ہی کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت چاہتی تو چند لوگوں کو پُرامن احتجاج کی اجازت دے کر معاملہ سنبھال سکتی تھی۔
تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ کن کارروائی مذہبی گروہوں کے حوالے سے ریاستی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے، مگر اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آیا حکومت طویل المدت بنیادوں پر اپنے اس مؤقف پر قائم رہتی ہے یا نہیں۔
ٹی ایل پی کا دعوی
مذہبی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی میں ان کے درجنوں کارکن مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے، تاہم یہ معلومات آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ مریدکے کے مقامی رہائشیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پولیس کا کریک ڈاؤن انتہائی سخت تھا اور انہوں نے مختلف مقامات پر کئی زخمیوں کو زمین پر پڑا دیکھا، تاہم ہلاکتوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔
ایک مقامی شہری غیاث احمد نے بتایا، ''سکیورٹی فورسز نے ان لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا جو ویڈیوز یا تصاویر بنانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن جو مناظر ہم نے دیکھے وہ بہت ڈرانے والے تھے۔‘‘اس وقت لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ موٹرویز اور شاہراہیں کریک ڈاؤن کے بعد کھول دی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں مظاہرین منتشر ہو گئے، تاہم اسلام آباد میں سڑکیں جزوی طور پر کھلی ہیں اور مرکزی علاقوں میں اب بھی کنٹینرز لگے ہوئے ہیں۔