غزہ بھوک اور موت کا قبرستان، ہر تیسرے فرد کو کھانے کو کچھ نہیں: انروا چیف
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے غزہ میں بڑھتے ہوئے غذائی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں بھوک کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اور ہر گزرتا دن حالات کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ غزہ کی ہر تین میں سے ایک فرد اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کیے بغیر دن گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ خوراک کا بحران انسانی تاریخ کے بدترین مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی ’اونروا‘ کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ اب بچوں اور بھوک سے بلکتے انسانوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
اونروا کے سربراہ نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے پاس زندگی بچانے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا، ایک جانب موت ہے تو دوسری طرف بھوک کا عذاب۔ ’’غزہ میں ہمارے اخلاقی اصول اور انسانیت کی اقدار دفن کی جا رہی ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی بے حسی مزید تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے، مئی سے اب تک تقریباً 800 فلسطینی اس وقت اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنے جب وہ امداد کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ حالیہ اسرائیلی بمباری میں مزید 45 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں امداد کے منتظر 11 افراد بھی شامل ہیں، جس سے غزہ کے بحران نے ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز، بے ہنگم اضافہ شہر کو بحران کی دہلیز پر لے آیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کا سب سے بڑا اور معاشی طور پر اہم شہر کراچی تیزی سے آبادی کے دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شہر کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور ہر سال اس میں 5 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہورہا ہے، یہ اضافہ صرف شرحِ پیدائش کا نتیجہ نہیں بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر ہجرت بھی اس کی اہم وجہ ہے۔
روزگار، تعلیم اور علاج کی سہولیات کی تلاش میں سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہزاروں افراد کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد تقریباً 50 ہزار متاثرین نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2050 تک مزید 23 لاکھ افراد کراچی کی طرف ہجرت پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
آبادی کے اس بے قابو اضافے نے صحت، تعلیم، پانی، صفائی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی شعبوں پر ناقابلِ برداشت دباؤ ڈال دیا ہے۔ شہر میں پانی کی قلت، بجلی چوری، کچرے کے ڈھیر اور بدترین ٹریفک جام روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔
کراچی کا رقبہ مشرق میں سپر ہائی وے سے لے کر مغرب میں حب تک پھیل چکا ہے لیکن یہ پھیلاؤ مکمل طور پر غیر منصوبہ بند اور سہولیات سے محروم ہے۔ نہ سڑکوں کا جال، نہ نکاسی آب کا نظام اور نہ ہی صحت و تعلیم کے مراکز اس پھیلاؤ کا ساتھ دے سکے ہیں۔
شہر کو دوبارہ قابلِ رہائش بنانے کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا اور بنیادی قدم ایک مؤثر، ڈیجیٹل اور ڈیٹا بیسڈ ماسٹر پلان کی تیاری اور اس پر عملدرآمد ہے۔ نئی رہائشی بستیوں، کمرشل اور انڈسٹریل زونز کی منظوری صرف اسی صورت میں دی جانی چاہیے جب شہری انفراسٹرکچر ان کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
“کراچی ماسٹر پلان 2047” کو فائلوں سے نکال کر عملی شکل دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس پر ہر آنے والی حکومت کو بلا تعطل عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، ورنہ کراچی کا بحران مستقبل میں مزید سنگین ہوتا جائے گا۔