غزہ :اسرائیلی بمباری سے مزید 60 فلسطینی شہید،اسپتالوں میں ایندھن ختم
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ،واشنگٹن،دوحہ(مانیٹرنگ ڈیسک،خبر ایجنسیاں)غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مزید 60 فلسطینی شہید‘اسپتالوں میں ایندھن ختم۔تفصیلات کے مطابق غزہ میں اسرائیل کے تازہ حملوں میں مزید60 فلسطینی شہید ہوگئے، غزہ کے دو بڑے اسپتالوں نے ایندھن کی شدید قلت سے آگاہ کرتے ہوئے اسپتالوں کے ’خاموش قبرستانوں‘ میں بدلنے کا خدشہ ظاہر کردیا۔قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق الجزیرہ عربی سے وابستہ صحافیوں کواسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ صبح سے محصور فلسطینی علاقے پر اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 24 افراد میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔یہ شہادتیں زیادہ تر وسطی اور جنوبی غزہ کے علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ہیں، الاقصیٰ اسپتال کے طبی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 13 فلسطینی شہید ہو گئے۔ذرائع کے مطابق اس حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، اس سے قبل الجزیرہ نے اطلاع دی تھی کہ وسطی غزہ ہی میں واقع البریج پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 4 افراد شہید ہوئے۔دریں اثنا، غزہ کے دو بڑے اسپتالوں نے ایندھن کی شدید قلت کے باعث مدد کی اپیل کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے یہ طبی مراکز جلد ہی ’خاموش قبرستانوں‘ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 100 سے زائد نوزائیدہ بچے اور تقریباً 350 ڈائیلاسز کے مریض زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’آکسیجن اسٹیشنز بند ہو جائیں گے، آکسیجن کے بغیراسپتال، ہسپتال نہیں رہتا، لیبارٹری اور بلڈ بینک بند ہو جائیں گے اور فریج میں موجود خون کی یونٹس خراب ہو جائیں گی‘۔ابو سلمیہ نے خبردار کیا کہ ’یہ اسپتال شفا کی جگہ نہیں رہے گا بلکہ اندر موجود افراد کے لیے قبرستان بن جائے گا‘۔علاوہ ازیںغزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقے میں رات گئے کیے گئے 2 اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے، جن میں 6 بچے بھی شامل ہیں۔ایجنسی کے ترجمان محمود باصل نے فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ پہلا حملہ رات بارہ بجے کے فوراً بعد (پاکستانی وقت کے مطابق صبح 2 بجے) جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک خیمے پر کیا گیا جہاں بے گھر افراد مقیم تھے، جبکہ دوسرا حملہ کچھ ہی دیر بعد شمالی غزہ میں ایک اور کیمپ کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق الشاطی پناہ گزین کیمپ پر حملے میں شہید ہونے والے 8 افراد، دیر البلح میں ایک گھر پر بمباری سے شہید ہونے والے 2 افراد اور خان یونس میں خیموں پر کیے گئے ڈرون حملے میں شہید ہونے والے 2 افراد شامل ہیں۔ادھر برطانیہ کے سرکاری دورے پر موجود فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اپنے خطاب میں ایمانوئل میکرون نے برطانیہ پر زور دیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ مل کر کام کرے، انہوں نے کہا کہ یہی واحد راستہ ہے جو امن کی طرف لے جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ تباہ ہو چکا ہے اور مغربی کنارے کو روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان جتنا آج خطرے میں ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ دو ریاستی حل اور ریاستِ فلسطین کا اعتراف ہی پورے خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔علاوہ ازیں امریکا کی طاقتور ترین یونیورسٹی ہارورڈ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک عدالتی حکم کے ذریعے فلسطین کے حامی مظاہروں میں شریک طلبہ کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔اے ایف پی کے مطابق، یہ قدم اس وقت اٹھایا گیا جب ٹرمپ نے ہارورڈ پر یہود مخالف نظریات کو فروغ دینے اور غیر ملکی طلبہ کو شدت پسندی کی اجازت دینے کا الزام لگایا۔محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی (DHS) نے ایک باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ ہارورڈ کو یکم جنوری 2020 سے تمام امیگریشن سے متعلقہ ریکارڈ، مواصلات اور دستاویزات عدالت میں پیش کرنا ہوں گی۔ڈی ایچ ایس کی اسسٹنٹ سیکرٹری ٹریشیا میک لافلن کا کہنا ہے کہ ہارورڈ جیسے ادارے کیمپس میں تشدد اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو تحفظ دے رہے ہیں۔یہی نہیں، ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ کی وفاقی فنڈنگ بند کرنے، غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے اور ان کے امریکا داخلے پر پابندی کی بھی کوشش کی جسے عدالت نے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی اس وقت 27 فیصد غیر ملکی طلبہ پر انحصار کرتی ہے، جو یونیورسٹی کے لیے مالی طور پر نہایت اہم ہیں۔جبکہ کولمبیا یونیورسٹی جیسے دیگر ادارے ٹرمپ کے مطالبات کے سامنے جھک چکے ہیں، ہارورڈ نے ابھی تک مزاحمت برقرار رکھی ہے۔یاد رہے کہ ہارورڈ کیمپس میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے خلاف فلسطین کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوئے تھے، جن میں غیر ملکی طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔دریں اثناء امریکا نے اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی نمائندہ فرانیسکا البانیز پر اسرائیل اور امریکی حکام کے خلاف تنقید پر پابندیاں لگا دی ہیں۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ فرانیسکا البانیز پر “امریکی و اسرائیلی حکام، کمپنیوں اور ایگزیکٹوز کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں کارروائی کی شرمناک کوشش” کرنے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔فرانیسکا البانیز، جو ایک اطالوی وکیل اور ماہر قانون ہیں، نے فلسطین میں اسرائیلی کارروائیوں کو ’نسل کشی‘ (genocide) قرار دیا تھا اور اقوام متحدہ میں اسلحہ کی پابندی اور اسرائیل سے تجارتی و مالی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔فرانسیکا البانیز نے ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر ردعمل دیتے ہوئے کہا “میں ہمیشہ کی طرح انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہوں۔” انہوں نے الجزیرہ کو دیے گئے پیغام میں امریکی اقدام کو ’مافیا طرز کی دھونس‘ قرار دیا۔قبل ازیںامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے امکان کے بارے میں پر امید ہیں۔خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات گزشتہ دنوں کے مقابلے میں اب زیادہ قریب ہیں۔مارکو روبیو نے ملائیشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اجلاس کے موقع پر کہا ہے کہ ہم جنگ بندی کے حوالے سے پْرامید ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عمومی طور پر فریقین کے درمیان شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے، لیکن اب بات چیت ان معاملات پر ہونی ہے کہ ان شرائط پر عملدرآمد کس طرح ممکن ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ شاید ہم پہلے کی نسبت اب زیادہ قریب ہیں اور ہم پر امید بھی ہیں لیکن ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے معاہدے میں اب بھی کچھ چیلنجز موجود ہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ اس سے قبل بھی اسی مرحلے پر مذاکرات کا دور ناکام ہو چکا ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایک بنیادی مسئلہ حماس کے غیر مسلح ہونے سے انکار کا ہے اگر وہ (حماس) یہ شرط مان لیں تو یہ تنازع فوراً ختم ہو سکتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا ہے کہ اسرائیلیوں نے اس معاملے میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے بدلے 10 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے، تاہم معاہدے کی راہ میں اب بھی کئی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔یہ پیشکش قطر کی ثالثی میں چار روزہ بالواسطہ مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ مثبت جذبے کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم اسرائیل کی ’ہٹ دھرمی‘ مذاکرات میں رکاوٹ بن رہی ہے۔حماس کا مؤقف ہے ’’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے لیکن ہم امن، عزت اور آزادی کے خواہش مند ہیں۔ اسرائیل امداد کو روک کر معاہدے کو سبوتاژ کر رہا ہے۔”اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح امید ظاہر کی کہ معاہدہ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا: “مجھے لگتا ہے کہ ہم معاہدے کے قریب ہیں، مثبت امکانات موجود ہیں۔” ادھرجنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں حماس کے ساتھ جھڑپ میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگیا۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق ترجمان اسرائیلی فوج نے بتایا کہ خان یونس میں حماس کے جنگجوئوں نے سرنگ سے باہر آ کر اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کردیا۔حماس نے جب حملہ کیا اْس وقت اسرائیلی فوجی ابراہم ایزولے ہیوی مشینری کی مدد سے زمین کی کھدائی کر رہے تھے۔فوجی ترجمان نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے ماسٹر سارجنٹ (ر) ابراہم ایزولے کی عمر 25 سال تھی اور وہ جنوبی کمانڈ کی انجینئرنگ یونٹ میں ہیوی انجینیئرنگ آپریٹر تھے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حماس نے ابراہم ایزولے کی لاش کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش بھی کی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر موجود دیگر اسرائیلی فوجیوں نے ابراہم ایزولے کی لاش کو حماس سے واپس چھینا۔یاد رہے کہ شمالی غزہ میں حماس کی جانب سے کی گئی ایک بمباری میں 5 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے تھے۔قبل ازیںمغربی کنارے کے ایک پْرہجوم شاپنگ سینٹر میں دو چاقو بردار شخص نے حملہ کرکے گارڈ کو مار دیا اور اس کا اسلحہ چھین کر فائرنگ کردی۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق حملے کی اطلاع ملتے ہی سیکورٹی فورسز نے شاپنگ سینٹر کو گھیرے میں لے لیا۔اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے دونوں حملہ آوروں کو قتل کردیا جن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔پولیس نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور حلیے اور شکل و صورت سے فلسطینی لگ رہے تھے جنھوں نے پہلے ایک گاڑی چھینی اور اس پر شاپنگ سینٹر پہنچے تھے۔دوسری جانب اسپین کی قومی عدالت نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو، وزیر خارجہ اور متعدد اعلیٰ افسران کے خلاف جنگی جرائم کے تحت تحقیقات کا باضابطہ آغاز کر دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین کی عدالت نے یہ تحقیقات میڈلین نامی کشتی پر ہونے والے حملے کے تناظر میں کی جا رہی ہیں۔یہ کشتی “فریڈم فلوٹیلا کولیشن” نامی انسانی حقوق کی تنظیم کی تھی جو جون میں اطالوی بندرگاہ سے امدادی سامان لیکر غزہ جا رہی تھی۔خیال رہے کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور امدادی سامان کو بھی محصور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔اسرائیلی فوج نے امدادی کشتی میڈلین کو غزہ آنے سے روکنے کے لیے دھمکی بھی دی لیکن انسانی حقوق کے کارکن اسے خاطر میں نہیں لائے جس پر اسرائیلی فورسز نے ڈرونز، آنسو گیس، اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ کشتی پر سوار انسانی حقوق کے 12 کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔جسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور وکیل جاؤمے آسنز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے یہ مقدمہ اسپین کی نیشنل کورٹ میں سرجیو توربیو نامی ہسپانوی کارکن اور “کمیٹی برائے عرب کاز کے ساتھ یکجہتی” کی جانب سے دائر کیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ امدادی کشتی پر حملہ ایک جرم ہے اور اس کی تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا حملے میں طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا، غیر قانونی حراست عمل میں لائی گئی اور اسرائیلی حکام کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔علاوہ ازیں اسرائیلی چیف آف سٹاف نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔دوسری طرف قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔ایال زامیر نے اسرائیلی ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ ہم نے کئی اہم نتائج حاصل کیے ہیں، ہم نے حماس کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے، ہم نے جس آپریشنل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بدولت یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات اب سازگار ہیں۔ادھر حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے دوحہ میں جاری مذاکرات میں بڑی لچک دکھا رہی ہے، حماس کے رہنما طاہر النونو نے ایک پریس بیان میں تصدیق کی کہ موجودہ مذاکرات کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے طے پانے والے کسی بھی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح بین الاقوامی ضمانتوں کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ امریکا کے پاس دباؤ کے حقیقی لیور موجود ہیں جو زمین پر فرق پیدا کر سکتے ہیں، حماس کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس میں مکمل انخلا اور دشمنی کا خاتمہ شامل ہے۔اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 60 دن کی جنگ بندی اور آدھے مغویوں کی واپسی کا اچھا موقع ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے کہا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی کے لیے سنجیدہ ہیں اور یہ قابل حصول ہے، انہوں نے سلوواکیہ کے دارالحکومت براٹیسلاوا کے اپنے دورے کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ہم غزہ میں مستقل جنگ بندی پر بات چیت کریں گے۔امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس دوحہ میں قریبی بات چیت کے دوران چار میں سے تین بقایا مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے، ہمیں امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔اہم باقی ماندہ اختلاف غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا سے متعلق ہے، حماس مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیلی فوج مارچ میں سابق جنگ بندی کے خاتمے سے قبل کی اپنی پوزیشنوں پر واپس چلی جائے تاہم اسرائیل اس سے انکار کر رہا ہے۔اس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اقوام متحدہ یا وہ بین الاقوامی تنظیمیں جو اسرائیل یا حماس سے وابستہ نہیں ہیں، ان علاقوں تک امداد پہنچائیں گی جہاں سے اسرائیلی فوج انخلا کرے گی، اس تجویز کی بنا پر اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے کام کرنے والی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن اپنے آپریشنز کو وسعت نہیں دے سکے گی اور اسے واپس جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔حماس اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل انخلا کرے گا اور مذاکرات کے دوران لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہوگی اور اقوام متحدہ پرانے نظام کے مطابق امداد تقسیم کرے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی وزیر خارجہ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ مارکو روبیو نے ہے کہ اسرائیلی شہید ہونے والے اسرائیلی وزیر اسرائیلی فوجی غیر ملکی طلبہ ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی اسرائیلی فوج فلسطینی شہید خان یونس میں اقوام متحدہ میں اسرائیل اسرائیل اور پر اسرائیلی جنگ بندی کے نے مزید کہا پر اسرائیل موجود ہیں معاہدے کے کہا ہے کہ کیا ہے کہ حملے میں بتایا کہ عدالت نے فورسز نے ہے کہ اس حماس کے شہید ہو کے خلاف کے ساتھ کیا گیا میں ایک کے لیے کیا کہ رہی ہے ہے اور ہو گئے رہا ہے اور اس غزہ کے
پڑھیں:
اسرائیلی جارحیت میں 57 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، الاکھ 36ہزار سے زائد زخمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کش جنگ میں فلسطینی شہدا کی تعداد57 ہزار 575 ہو گئی ہے جب کہ1 لاکھ 36 ہزار879 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 52 لاشیں اسپتالوں میں لائی گئیں جبکہ 262 افراد زخمی ہوئے،متعدد افراد اب بھی ملبے تلے اور سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں لیکن ریسکیو ٹیمیں ان تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔
وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے 8 فلسطینی شہید اور 74 سے زائد زخمی ہوئے۔
خیال رہےکہ 27 مئی کے بعد سے اب تک 766 فلسطینی شہید اور 5,044 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جنہیں صرف امداد حاصل کرنے کی کوشش میں نشانہ بنایا گیا، اسرائیلی فوج نے 18 مارچ کو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو توڑتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کیے، جس کے بعد سے 7,013 فلسطینی شہید اور 24,838 زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی حملے نہ صرف عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، اور امدادی قافلوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے، جس سے غزہ کی تباہی مکمل ہوتی جا رہی ہے، علاقے میں شدید خوراک، پانی، اور ادویات کی قلت نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
گزشتہ نومبر میں عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے تحت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اس کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ جاری ہے، جسے جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا اور متعدد ممالک نے اس کی حمایت کی ہے۔
عالمی برادری پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکے اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی، اور دیرپا امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔