Express News:
2025-09-18@01:44:06 GMT

کراچی میں عمارتیں کیوں گرتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

کراچی میں عمارتوں کا گرنا معمول بن چکا ہے، اگرکوئی پرانی عمارت اپنی خستہ حالی اور مدت کو پورا کرنے کے بعد گرے تو اس کا متعلقہ سرکاری اداروں پرکوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا مگر لیاری کے علاقے بغدادی میں زمین بوس ہونے والی عمارت کو محض تیس سال قبل ہی تعمیرکیا گیا تھا۔

تیس سال کے عرصے میں کوئی بھی عمارت پرانی نہیں کہلائی جا سکتی۔ اس عمارت کا گرنا یہ بتاتا ہے کہ اس کی تعمیر انتہائی ناقص میٹریل سے کی گئی تھی، تعمیرات سے متعلق صوبائی حکومتی ادارے نے بھی اس کی تعمیر کے وقت اس کا انسپکشن کرنے کی شاید زحمت ہی نہیں کی۔

 یہ بھی پتا چلا ہے کہ جب 2022میں اس عمارت کو خطرناک قرار دیا گیا تھا، اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے اس کی تین منزلوں کو گرا کر اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی تجویز دی گئی تھی مگر اس تجویز پر کیا عمل ہوتا، اس کی کمزوری کے باوجود اس پر مزید دو منزلیں تعمیر کر دی گئیں۔

ظاہر ہے یہ غیرقانونی کام متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہی انجام پایا ہوگا۔ 2023سے 2025 تک یہ عمارت سرکاری ریکارڈ میں تین منزلہ ہی دکھائی جاتی رہی۔ متعلقہ ادارے کی بدانتظامی، نااہلی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کراچی میں عمارتوں کے گرنے کا کبھی کوئی علاج نہیں ہو سکے گا، کیوں کہ بیوروکریسی کی نااہلی اور کرپشن نے بلڈرزکو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

یہ بے ہنگم سلسلہ صرف اس علاقے تک محدود نہیں ہے، پورے شہر کراچی میں ہی تقریباً ایسے ہی حالات ہیں۔ اسی لیے کراچی میں کئی برس پہلے بھی چھ سو کے قریب مخدوش عمارات تھیں اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ کراچی میں ایسی مخدوش عمارتوں میں 1940سے 1950میں بننے والی زیادہ عمارات شامل ہیں مگر ان میں تیس اور چالیس سال پرانی عمارتوں کا شامل ہونا خطرناک رجحان ہے جس کی ذمے داری سراسر متعلقہ سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین پر عائد ہوتی ہے۔ 

آزادی سے بہت پہلے تعمیر ہونے والی عمارات اگر مخدوش حالت میں ہیں تو ان کی تعمیر کو یقینا سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان کا مخدوش ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر وہ عمارتیں جو 30 سے 35 سال قبل تعمیر ہوئی ہیں، ان کی حالت کا خراب ہونا تشویش ناک ہے اور ان کی تعمیر پر سوالات کا اٹھنا بجا بھی ہے کہ ان کی عمریں اتنی کم کیسے ہو سکتی ہیں۔

اگر اچھا میٹریل استعمال کیا جاتا اور انجینئرنگ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا تو ان کے اتنی جلدی مخدوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے سرکاری تعمیر کا شعبہ بھی کرپشن کی بیماری میں مبتلا ہے جو دیمک کی طرح عمارتوں کو کھوکھلا کر کے انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے۔ 

سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی رؤف اختر فاروقی نے کراچی میں عمارتوں کے گرنے اور ان میں لوگوں کی ہلاکت پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی بے حسی پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات بہت کم ہوتے تھے کیونکہ مخدوش عمارتوں کے سروے کیے جاتے تھے اور ان میں رہائش پذیر افراد سے عمارات کو خالی کرایا جاتا تھا اگر وہ ٹال مٹول کرتے تھے تو سختی کی جاتی تھی اور عمارت کو تعمیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی، ایسی مخدوش عمارتوں کو گرا کر انھیں پھر سے تعمیر کرایا جاتا تھا اور ان میں رہائشیوں کو پھر سے آباد کرایا جاتا تھا۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے مذکورہ عمارت کے رہائشیوں کو عمارت خالی کرانے کے پہلے سے نوٹسز جاری کر دیے تھے مگر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی نوٹس نہیں ملا، اس سے بھی متعلقہ ادارے کے افسران کی نااہلی کا پتا چلتا ہے۔

متعلقہ ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نوٹسز ملنے کے بعد بھی لوگ عمارتوں کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، اس کارروائی میں کافی وقت ضایع ہوجاتا ہے اور پھر تب تک حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی اس سانحے پر سخت صدمہ ظاہر کیا ہے اور متعلقہ ادارے پر تنقید کی ہے۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رہنما علی خورشیدی نے درست ہی کہا ہے کہ ’’ کہاں تک صبرکریں اور کہاں تک کرپشن کو برداشت کریں، اس وقت پورا شہر ہی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘ ایک اور سیاسی رہنما آفاق احمد نے بھی سندھ حکومت کی کراچی کے مسائل پر غفلت برتنے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ’’ جس طرح حکومت اپنی جان چھڑانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے میں تیزی دکھاتی ہے کاش! کہ مخدوش عمارتوں میں مقیم لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے میں بھی تیزی دکھائے تو کئی لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘‘

کراچی کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ وہ بد قسمت شہر ہے جس کے مسائل اور رونما ہونے والے حادثات پر سب ہی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں مگر جو لوگ صاحب اقتدار ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کراچی کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے چشم پوشی کرتے ہیں اور مختلف قسم کے مافیاز کے سہولت کار بن جاتے ہیں تو یہاں کے مسائل کیسے حل ہوں گے اور عمارتوں کا گرنا کیسے رُکے گا؟
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مخدوش عمارتوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں کی تعمیر اور ان ہے اور

پڑھیں:

دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی

ممبئی(شوبز ڈیسک) بھارتی ٹی وی کی مشہور اداکارہ دیشا وکانی نےمعروف ڈرامہ ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ میں دیا بین کا یادگار کردار نبھایا تھا لیکن وہ پچھلے سات سال سے شو سے غائب ہیں۔ان کے چہرے کے شرارتی تاثرات، منفرد لہجہ، دلچسپ گیربا ڈانس اور زبردست کامیڈی ٹائمنگ نے انہیں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں بسا دیا۔

مداح کئی سالوں سے دیا بین کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان کے بھائی اور شو میں بھی ان کے بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار مایور وکانی (سندر لال) نے خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا ہے کہ دیشا اب اس ڈرامے میں واپس نہیں آئیں گی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مایور وکانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،’میں دیشا سے دو سال بڑا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ اس نے کتنی محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ اسی لیے لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ اب وہ اپنی فیملی کو وقت دے رہی ہیں اور اسی کردار کو پوری لگن سے نبھا رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے والد ہمیشہ سکھاتے تھے کہ زندگی میں بھی ہم اداکار ہی ہیں اور جو بھی کردار ملے، اسے دیانتداری سے نبھانا چاہیے۔ دیشا اب حقیقی زندگی میں ماں کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اسے بھی اسی لگن اور محنت سے نبھا رہی ہیں جس طرح وہ اداکاری کرتی تھیں۔‘

مایور نے مزید بتایا کہ ان کے والد ہی نے دیشا کو بچپن سے اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ’میں نے دیشا کی پہلی اسٹیج پرفارمنس دیکھی تھی جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور بچوں کے شِبِر میں 90 سالہ خاتون کا کردار نبھا کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ تب ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے اندر کچھ خاص ہے۔‘

مایور کا کہنا تھا کہ دیشا نے دیا بین کا کردار ایسے نبھایا کہ وہ گھر گھر کی پہچان بن گئیں اور ان کے والد کے لیے یہ کسی خواب کی تکمیل جیسا لمحہ تھا۔ لیکن اب دیشا سمجھتی ہیں کہ ماں کا کردار ان کی زندگی کا سب سے قیمتی کردار ہے۔

دیشا وکانی 2018 میں زچگی کی چھٹی پر گئی تھیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ شو کے پروڈیوسر اسِت مودی نے بھی مان لیا ہے کہ اب ان کے لیے شو میں واپس آنا مشکل ہے کیونکہ شادی کے بعد خواتین کی زندگی بدل جاتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیشا واپس نہ آئیں تو انہیں کسی اور اداکارہ کو دیا بین کے کردار کے لیے لینا پڑے گا۔

اگرچہ دیشا وکانی کی غیر موجودگی مداحوں کو محسوس ہوتی ہے، لیکن تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ اب بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔

یہ شو 17 سال سے نشر ہو رہا ہے اور اب تک 4500 سے زائد اقساط مکمل کر چکا ہے۔

اب کہانی صرف ایک کردار پر نہیں بلکہ گوکلدھم سوسائٹی کے تمام رہائشیوں کی زندگیوں اور مسائل کے گرد بھی گھومتی ہے جو ڈرامہ کو نیا رنگ اور تازگی بخش رہا ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • سندھ بلڈنگ، صدر ٹاؤن میں تعمیراتی مافیا سرگرم، رہائشی پلاٹوں پر قبضہ
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • کراچی کا سرکاری اسکول ریسٹورنٹ مالک کو دینے کی تیاری
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • اسکیم33 میں تعمیراتی مافیا کا راج قائم
  • کراچی، گلشن اقبال میں رہائشی عمارت کی چوتھی منزل کے فلیٹ میں آگ بھڑک اٹھی
  • کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی
  • غزہ میں ایک دن میں 53 فلسطینی شہید، 16 بلند عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں