Express News:
2025-11-03@11:08:39 GMT

کراچی میں عمارتیں کیوں گرتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

کراچی میں عمارتوں کا گرنا معمول بن چکا ہے، اگرکوئی پرانی عمارت اپنی خستہ حالی اور مدت کو پورا کرنے کے بعد گرے تو اس کا متعلقہ سرکاری اداروں پرکوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا مگر لیاری کے علاقے بغدادی میں زمین بوس ہونے والی عمارت کو محض تیس سال قبل ہی تعمیرکیا گیا تھا۔

تیس سال کے عرصے میں کوئی بھی عمارت پرانی نہیں کہلائی جا سکتی۔ اس عمارت کا گرنا یہ بتاتا ہے کہ اس کی تعمیر انتہائی ناقص میٹریل سے کی گئی تھی، تعمیرات سے متعلق صوبائی حکومتی ادارے نے بھی اس کی تعمیر کے وقت اس کا انسپکشن کرنے کی شاید زحمت ہی نہیں کی۔

 یہ بھی پتا چلا ہے کہ جب 2022میں اس عمارت کو خطرناک قرار دیا گیا تھا، اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے اس کی تین منزلوں کو گرا کر اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی تجویز دی گئی تھی مگر اس تجویز پر کیا عمل ہوتا، اس کی کمزوری کے باوجود اس پر مزید دو منزلیں تعمیر کر دی گئیں۔

ظاہر ہے یہ غیرقانونی کام متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہی انجام پایا ہوگا۔ 2023سے 2025 تک یہ عمارت سرکاری ریکارڈ میں تین منزلہ ہی دکھائی جاتی رہی۔ متعلقہ ادارے کی بدانتظامی، نااہلی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کراچی میں عمارتوں کے گرنے کا کبھی کوئی علاج نہیں ہو سکے گا، کیوں کہ بیوروکریسی کی نااہلی اور کرپشن نے بلڈرزکو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

یہ بے ہنگم سلسلہ صرف اس علاقے تک محدود نہیں ہے، پورے شہر کراچی میں ہی تقریباً ایسے ہی حالات ہیں۔ اسی لیے کراچی میں کئی برس پہلے بھی چھ سو کے قریب مخدوش عمارات تھیں اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ کراچی میں ایسی مخدوش عمارتوں میں 1940سے 1950میں بننے والی زیادہ عمارات شامل ہیں مگر ان میں تیس اور چالیس سال پرانی عمارتوں کا شامل ہونا خطرناک رجحان ہے جس کی ذمے داری سراسر متعلقہ سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین پر عائد ہوتی ہے۔ 

آزادی سے بہت پہلے تعمیر ہونے والی عمارات اگر مخدوش حالت میں ہیں تو ان کی تعمیر کو یقینا سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ان کا مخدوش ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر وہ عمارتیں جو 30 سے 35 سال قبل تعمیر ہوئی ہیں، ان کی حالت کا خراب ہونا تشویش ناک ہے اور ان کی تعمیر پر سوالات کا اٹھنا بجا بھی ہے کہ ان کی عمریں اتنی کم کیسے ہو سکتی ہیں۔

اگر اچھا میٹریل استعمال کیا جاتا اور انجینئرنگ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا تو ان کے اتنی جلدی مخدوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے سرکاری تعمیر کا شعبہ بھی کرپشن کی بیماری میں مبتلا ہے جو دیمک کی طرح عمارتوں کو کھوکھلا کر کے انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے۔ 

سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی رؤف اختر فاروقی نے کراچی میں عمارتوں کے گرنے اور ان میں لوگوں کی ہلاکت پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی بے حسی پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے واقعات بہت کم ہوتے تھے کیونکہ مخدوش عمارتوں کے سروے کیے جاتے تھے اور ان میں رہائش پذیر افراد سے عمارات کو خالی کرایا جاتا تھا اگر وہ ٹال مٹول کرتے تھے تو سختی کی جاتی تھی اور عمارت کو تعمیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی، ایسی مخدوش عمارتوں کو گرا کر انھیں پھر سے تعمیر کرایا جاتا تھا اور ان میں رہائشیوں کو پھر سے آباد کرایا جاتا تھا۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے مذکورہ عمارت کے رہائشیوں کو عمارت خالی کرانے کے پہلے سے نوٹسز جاری کر دیے تھے مگر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی نوٹس نہیں ملا، اس سے بھی متعلقہ ادارے کے افسران کی نااہلی کا پتا چلتا ہے۔

متعلقہ ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نوٹسز ملنے کے بعد بھی لوگ عمارتوں کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، اس کارروائی میں کافی وقت ضایع ہوجاتا ہے اور پھر تب تک حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی اس سانحے پر سخت صدمہ ظاہر کیا ہے اور متعلقہ ادارے پر تنقید کی ہے۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رہنما علی خورشیدی نے درست ہی کہا ہے کہ ’’ کہاں تک صبرکریں اور کہاں تک کرپشن کو برداشت کریں، اس وقت پورا شہر ہی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔‘‘ ایک اور سیاسی رہنما آفاق احمد نے بھی سندھ حکومت کی کراچی کے مسائل پر غفلت برتنے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ’’ جس طرح حکومت اپنی جان چھڑانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے میں تیزی دکھاتی ہے کاش! کہ مخدوش عمارتوں میں مقیم لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے میں بھی تیزی دکھائے تو کئی لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘‘

کراچی کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ وہ بد قسمت شہر ہے جس کے مسائل اور رونما ہونے والے حادثات پر سب ہی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں مگر جو لوگ صاحب اقتدار ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کراچی کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے چشم پوشی کرتے ہیں اور مختلف قسم کے مافیاز کے سہولت کار بن جاتے ہیں تو یہاں کے مسائل کیسے حل ہوں گے اور عمارتوں کا گرنا کیسے رُکے گا؟
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مخدوش عمارتوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں کی تعمیر اور ان ہے اور

پڑھیں:

نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میںنئی گاج ڈیم کی تعمیر کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ 2011سے کام شروع ہے کیوں مکمل نہیں ہوپارہا۔ کنٹریکٹر ڈیفالٹ کرتا جارہاہے اور رقم بڑھاتے جارہے ہیں، تین سال پورے ہونے پر نوٹس دیتے، بلیک لسٹ قراردیتے اورکنٹریکٹ کالعدم قرار
دیتے۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 22نومبر2024کی سند ھ حکومت کی رپورٹ ہے اس سے لگتا ہے کہ ڈیم کبھی بھی نہیں بن سکے گا، لوگ وہاں رہ رہے ہیں، ڈیم بنانے کی نیت نہیں، پیسہ ضائع ہوگیا ہوگا۔ جو مسائل ہیں وہ 50سال میں بھی حل نہیں ہوسکیں گے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ پیسہ کھاگئے ہوں گے۔ اگر کنٹریکٹر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا توواپڈا نے کیا اقدام کرناتھا۔ کام کیوں نہیں کرواتے کیوں تاخیر کررہے ہیں۔ جبکہ بینچ نے ڈیم تعمیر کرنے والی کمپنی کے نمائندے کوآئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے سندھ کے ضلع دادو میں نئی گاج ڈیم کی تعمیر کے معاملے پرلیے گئے ازخودنوٹس اور متفرق درخواستوں پرسماعت کی۔ واپڈاکی جانب سے سلمان منصور بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ ڈیم تعمیر کرنے والی کمپنی کے وکیل بینچ کے سامنے پیش نہ ہوئے۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں، متعلقہ اداروں کا اظہارِ لاعلمی
  • کراچی کے منصوبے شروع ہو جاتے‘ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتے: حافظ نعیم
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • سندھ بلڈنگ، صدر ٹاؤن میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیرات، حکام بے پروا
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
  • نیو ماڈل سڑک شاعر اعجاز رحمانی سے منسوب کی جارہی ہے‘ محمد یوسف
  • اسلام آباد ،جماعت اسلامی کا ترامڑی چوک پر اسپتال کی عدم تعمیر پر احتجاج
  • امانت و دیانت، عوامی خدمت اور شہر کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کا وژن ہے، منعم ظفر