Express News:
2025-07-29@04:25:14 GMT

زباں فہمی257 ؛ دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ دُدُم)

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

ہوشؔ نعمانی رام پوری (شرافت یار خاں) کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

پیاس بُجھ جائے گی، پیار سے بولیے

مَے نہیں ہے تو ہونٹوں کا رَس گھولیے

کچھ غور فرمایا؟ کہنا سے کہیے اور بولنا سے بولیں یا بولیے ہوتا ہے، مگر ہم ہمیشہ یہی پڑھتے سُنتے اور پڑھاتے آئے کہ بات کہی جاتی ہے، کی جاتی ہے، لفظ بولے جاتے ہیں، جملہ بولا جاتا ہے یا اَدا کیا جاتا ہے ، البتہ ’’کہیے‘‘ ۔یا۔’’فرمائیے‘‘ کی جگہ ’بولیے‘ کہنا غلط ہے، مگر اِس نمونہ کلام سے معلوم ہوا کہ روہیل کھنڈی/رام پوری بولی میں یہ بھی صحیح ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ’چپڑقناتی‘ جیسی عجیب تراکیب صحیح ہیں۔

یہ مسئلہ اپنی جگہ طے ہے کہ بولی سے زبان اور معیاری زبان بننے کے عمل میں ترجیحات بدل جاتی ہیں۔کسی بھی خاص علاقے کے مخصوص لہجے یا بولی میں کوئی بھی لفظ، ترکیب، استعارہ یا محاورہ اُن کے اپنے محدود معاشرے کی حد تک بالکل صحیح مانا جاتا ہے، مگر اُس کا اطلاق عمومی نہیں ہوتا یعنی اُسے پوری زبان اور اُس کے تمام علاقوں کے مکینوں کے لیے لائق تقلید نہیں سمجھا جاتا۔ {پوربی ہو، حیدرآبادی، بِہاری یا روہیل کھنڈی، ان سب کے ساتھ ایسا ہی ہے۔

اسی لیے جب ان بولیوں سے متعلق کوئی معاملہ ہو تو اِن کے مخصوص فرہنگ اور ثقافتی پس منظر کو پڑھے سمجھے بغیر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ بھوپال کے متعلق گوپی چند نارنگ کا یہ قول خاکسار کے سلسلہ زباں فہمی میں بہت پہلے نقل ہوا تھا کہ ’’آپ کرلو‘‘ بجائے ’آپ کرلیں‘، درحقیقت بھوپال کی بولی ٹھولی کا نمونہ ہے، جس پر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے تو محسن ؔبھوپالی مرحوم سمیت کسی بھوپالی کو ایسے بولتے نہیں سُنا;بہرحال ہوسکتا ہے کہ یہ بھی بھوپال میں کہیں کہیں مخصوص برادری میں بولا جاتا ہو۔ اب تو کراچی کی عوامی بول چال عُرف Slang میں یہ غلط طرزِتخاطب بھی عام ہوچکا ہے;آپ کیا کرتے ہو؟ آپ یہ کرلو۔ آپ ایک کام کرو وغیرہ۔

پوُربی میں آج بھی قدیم ہندی/اردو کی ابتدائی شکل موجود ہے، اسی طرح اردو کی جڑوں میں شامل گوجری، ہندکو، پہاڑی، پوٹھوہاری، پنجابی، سرائیکی اور (کسی حد تک، دراوڑی زبانوں میں شامل) تَمِل نیز اُردو کی بڑی بہن گجراتی میں آج بھی ایسے نمونہ ہائے کلام نثر ونظم مل جاتے ہیں جن میں الفاظ کی ابتدائی یا قدیم اور متروک شکل موجود ہے۔ اردو کے بے شمار الفاظ کی تحقیق میں یہی نکتہ کام آتا ہے}۔ بولی ٹھولی کے شاعری میں برمحل استعمال کی سب سے اچھی مثال نظیرؔ اکبرآبادی کے کلام میں ملتی ہے جہاںکثیرلسانی الفاظ کا ذخیرہ بہت روانی سے استعمال ہوا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک ضمنی مگر اہم نکتہ رقم کرنا ضروری ہے: رام پور اور بُرہان پور کے علاوہ کسی زمانے میں بہاول پور کو بھی ’دارالّسرور‘ کا لقب دیا گیا تھا، مگر اَب یہ بات مقامی لوگوں میں بھی ہر کوئی نہیں جانتا۔

 روہیل کھنڈی/رام پوری بولی کی ایک ہی فرہنگ’روہیل کھنڈ اُردو لغت‘ از رئیس رام پوری میری دسترس میں ہے (جس کے بارے میں سلسلہ زباں فہمی میں ایک قسط وار مضمون لکھ چکا ہوں) اور شاید یہ اپنی نوعیت کی واحد کوشش ہے۔ تکنیکی لحاظ سے اسے باقاعدہ لغت کا درجہ بھی نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اس بحرِذخّار کو ایک مختصر، پتلی سی کتاب میں کیسے سمویا جاسکتا ہے؟ تلاش اور جستجو سے معلوم ہوا کہ 1845ء میں محبوب علی رام پوری نے ’منتخب النفائس‘ نامی ایک لغت ترتیب دی تھی جس میں اردو الفاظ کے عربی وفارسی مترادفات درج کیے گئے تھے۔ یہ کتاب ایک سو بہتّر (172) الفاظ پر مشتمل ہے;مگر اِس سرسری اطلاع سے یہ ہرگز پتا نہیں چلتا کہ آیا یہ مختصر اُردو لغت یا فرہنگ ہی تھی یا رام پور /روہیل کھنڈ کی مخصوص فرہنگ۔ رام پور کے متعلقین کو چاہیے کہ اس بابت بھی توجہ فرمائیں۔

رام پور ہی کے ایک فرزند، ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں صاحب نے ’’روہیل کھنڈ اُردو لغت: ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’روہیل کھنڈ اُردو لغت کی شکل میں رئیسؔ رام پوری کی اس اہم کوشش کے باوجود اس کام میں مزید اضافوں کی بہت گنجائش ہے کیونکہ اب بھی بے شمار ایسے الفاظ ہیں جن تک رئیس ؔرام پوری کی رسائی نہ ہوسکی۔ لہٰذا روہیل کھنڈ اُردو لغت کے پانچویں ایڈیشن میں رام پور میں مروجہ سیکڑوں ایسے باقی ماندہ الفاظ کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ عوامی بول چال کی وہ دولت محفوظ ہوجائے جسے بولنے اور سمجھنے والے بہ تدریج کم ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ خاکسار اِس تجویز کی تائید کرتا ہے۔

’رام پوریات‘ کے ضمن میں تحقیق کا سلسلہ (ماضی کی نسبت) سُست رَوِی سے جاری ہے اور ماضی قریب میں ہمیں ’’رامپور: منظر نامہ تاریخ و تہذیب و ادب‘‘ جیسی مفید کتاب کی اشاعت کی اطلاع ملی جس کی مصنفہ سعدیہ سلیم شمسی ہیں ۔

میرزا غالبؔ نے رام پور کا نمک کھایا تو ریاست اور نواب رام پوریوسف علی خان ناظمؔ (دورِ اقتدار: 1855ء تا 1865ء ) کا خوب خوب چرچا بھی کیا۔ رام پور کی شان میں کہی ہوئی اُن کی نظم ملاحظہ فرمائیں:

غالبؔ کی دعا۔ رام پور اور اہلِ رام پور کو

رام پور، اہل نظر کی ہے نظر میں وہ شہر

کہ جہاں ہشت بہشت آکے ہوئے ہیں باہم

رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے

مجمع ومرجع اشراف نژاد آدم

رام پور ایک بڑا باغ ہے ازرُوئے وشال

دل کش و سادہ وشاداب ووسیع و محرم

جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں

ہے اِسی طور سے یاں دِجلہ فشاں ابرِکرم

صبح دم باغ میں آجائے جسے ہونہ یقیں

سبزہ و برگِ گُل و لالہ پہ دیکھے شبنم

حبذا باغ ہمایون تقدس آثار

کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزالانِ حرم

مسلکِ شرع کے ہیں راہبر و راہ شناس

خضر بھی یاں اگر آجائے تو لے اُن کے قدم

یا خُدا! غالبِ عاصی کے خُداوند کو دے

دو وہ چیزیں کہ طلب گار ہے جن کا عالَم

اوّلاً عمرِ طبیعی بہ دوام اقبال

ثانیاً دولتِ دیدارِ شہنشاہِ اُمَم

٭اس سے قبل غالب ؔ نے ایک اور قدرداں ریاست حیدرآباد نہ جانے کی وجہ یوں بیان کی تھی:

حیدرآباد بہت دُور ہے، اس ملک کے لوگ

اس طرف کو نہیں جاتے ہیں، جو جاتے ہیں تو کم

غالباً بڑھاپے میں بڑھتے ہوئے عوارض کے پیش نظر، میرزا نے مناسب یہی سمجھا کہ وہاں نہ جایا جائے۔

٭٭ اردو ادب میں لفظ ’خداوَند‘ کے خُدا یعنی اللّہ کے سِواء استعمال کی یہ مثال اب معروف نہیں رہی۔ ماسوائے مسیحی مذہبی ادبیات کے، اب کہیں خدا اور خداوند، غیراُللّہ کے لیے مستعمل نہیں!

میرزا نوشہ نے ایک خط میں رام پور کا تعارف اس طرح بیان کیا ہے:

’’یہ رام پور ہے، دارالسرور ہے۔ جو لطف یہاں ہے، کہیں اور کہاں ہے۔ پانی؟ سبحان اللّہ! شہر سے 300 قدم پر دَریا ہے اور کوسی اُس کا نام ہے۔ بے شُبہ، چشمہ آب ِ حیات کی کوئی سوت اس میں ملی ہے۔ خیر! اگر یوں بھی ہے تو بھائی آبِ حیات، عمر بڑھاتا ہے، اتنا شیریں کہاں ہوگا؟ اتنا میٹھا کہ پِینے والا گُمان کرے کہ یہ میٹھا شربت ہے .

....................والی ٔ را م پور مِرے آشنائے قدیم ہیں، اس سال میرے شاگرد ہوئے، ناظمؔ اُن کا تخلص دیا گیا ۔ گاہ گاہ کچھ روپیہ اُدھر سے آتا رہتا ہے۔ زندگی کا دارومدار اُن کے عطیے پر ہے۔ اب قرار یہ ہے کہ رام پور رہوں تو 200 روپے ماہوار پاؤں اور دِلّی رہوں تو 100روپیہ..........اور اَب رام پور ہی میرا مسکن ومدفن ہوگا‘‘۔ ہائے افسوس! کسے خبر تھی کہ غالبؔ کی یہ آرزو، حسرت میں بدل جائے گی۔ غالبؔ27 دسمبر1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے، دِلّی میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ بسر کرکے دنیائے ادب میں سُرخ رُو ہوئے، رام پور نے اُن کی قدراَفزائی کی، مگر اُن کی وفات 15 فروری 1869ء کو دِلّی ہی میں ہوئی۔ میرزا نے نوابین رام پور کے نام تین سو ساٹھ سے زائد خطوط لکھے جن میں ایک بڑی تعداد، اب محفوظ نہیں!

علم وادب کے گہوارے رام پور کی بنیاد 1773ء میں ’افغانانِ را م پور ‘ نامی بستی کی آبادکاری سے پڑی جو دِلّی اور لکھنؤ کی شاہراہ پر، روہیلہ (افغان) برادری نے قائم کی تھی۔ پشتون قوم کے ان منفرد نمایندوں نے اُردو کوبطور سرکاری، علمی واَدبی زبان، اس محبت سے اپنایا کہ اپنی مادری وآبائی زبان پشتو، دینی زبان عربی اور علمی وادبی زبان فارسی کو پس ِ پُشت ڈال دیا۔ کسی دوسری زبان سے محبت اور اُس کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ بلاامتیازِرنگ، نسل، علاقہ و مذہب، رام پور نے ہر نووارد کی بھرپور پذیرائی کی اور ایک وقت آیا کہ اردو اور رام پور لاز م وملزوم ہوگئے۔

ایسے میں کسی نے کیا خوب کہا کہ ’’اردو کا ایک نام رام پور بھی ہے‘‘۔ متقدمین سے متاخرین اور جدید مشاہیرِسخن کی بات کریں تو مِیرزا رفیع سوداؔ سے لے کر زبیر رضوی تک شاید ہی کوئی قابل ِ ذکر یا مشہور شاعر ہوگا جو رام پور سے کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی حد تک فیض یاب نہ ہوا ہو۔ نواب یوسف علی خان ناظمؔ سے قبل ایک اہم دور نواب سعید خان کا ملتا ہے جو 1840ء میں برسرِاقتدار آئے اور 1855ء میں اپنی وفات تک نوابی کے مزے لُوٹتے رہے۔ نواب سعید اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اِنگریز کی عمل داری والے علاقوں میں اہم مناصب پر فائز رہ چکے تھے۔

وہ اپنے ساتھ علامہ فضل حق خیرآبادی،آغا محمد علی شیداؔ شیرازی، مہدی علی ذکی ؔ مرادآبادی اور عبدالقادرغم گین (ناقدِ غالبؔ) جیسی قدآورعلمی واَدبی شخصیات کو رام پور لے آئے اور مابعد حکیم مومن خاں مومنؔ بھی کھنچے چلے آئے جو غالب ہی کی طرح نواب یوسف کے اُستاد رہے۔ مومنؔ کے تلامذہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ریاست میں موجود تھے۔ یہاں آنے سے قبل وہ نواب یوسف (ولی عہد) اور نواب سعید کی شان میں قصیدہ خوانی کرچکے تھے (حالانکہ یہ مشہور ہے کہ اُنھوں نے کبھی کسی شاہ، راجہ، نواب کی توصیف کی نہ دربار سے وابستہ رہے)، مگر یہاں کے حالات اُن کے مزاج کے موافق نہ تھے، چنانچہ ایک موقع پر ایک تلخ سی غزل کہہ بیٹھے:

دِلّی سے رام پور میں لایا جنوں کا جوش

ویرانہ چھوڑ آئے ہیں، ویرانہ تر میں ہم

وصلِ بُتاں کے دن تو نہیں یہ کہ ہو وبال

مومن ؔ نماز قصر کریں کیوں سفر میں ہم

آخری مصرع میں بہت ہی باریک نکتہ پوشیدہ ہے کہ جب دِلّی کی طرح رام پور بھی شورش زدہ یا اُجڑے دیار جیسا ہے یعنی گھر ہی جیسا ہے تو پھر ہم یہاں آتے جاتے نمازِقصر کیوں ادا کریں؟

رام پور میں نوادر کے جمع کرنے کا کام بہت ہوا اور اس ضمن میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ دیوانِ مومنؔ کا ایک قلمی نسخہ ایسا بھی محفوظ ہے جس پر مومنؔ نے اپنے ہاتھ سے اضافے کیے ہیں۔ اس غیرمطبوعہ کلام کا کچھ حصہ نیاز فتح پوری نے ’نگار‘ میں شایع کیا تھا۔

غالبؔ کے رام پور سے تعلق قائم ہونے میں ایک بہت بڑی سیاسی مصلحت کارفرما تھی۔ 1855ء میں نواب یوسف کے برسراقتدار آنے کے وقت، جنگ ِ آزادی ہند 1857ء کے آثار نظر آنے لگے تھے۔

ایسے میں نواب صاحب کو دربارِدہلی کے حالات سے آگہی کے لیے کسی خاص، معتبر آدمی کی ضرورت محسوس ہوئی تو علامہ فضل حق خیرآبادی نے اپنے دوست غالبؔ کا نام تجویز کردیا۔ نواب نے ایک خط بزبان فارسی اور مُبلغ ڈھائی سو روپے میرزا کی خدمت میں بھیج کر اُن سے ارادت مندی ظاہر کردی، یوں غالبؔ کا اُن سے تعلق قائم ہوا، ورنہ اس سے قبل نواب سعید کے دور میں میرزا اور نواب موصوف کے مابین کوئی اُنس نہ تھا۔ نواب یوسف کا خط پڑھ کر قدرے حیرت ہوئی کہ اُس دور میں شاعر کی اتنی عزت تھی کہ نواب خاکساری کا مظاہرہ نستعلیق انداز میں کرتا تھا۔ خط کا متن ملاحظہ فرمائیں:

’’مشفقا! ہرچند کہ کاتب را اِتفاقِ موزونیت ِ یک مصرع ہم نشدہ بود، لیکن محض بجہتِ سماعتِ کلامِ سامی زبانی مولوی فضل حق صاحب، دلم خواست کہ طریقہ رسل ورسائل جاری شَوَد۔ چوں سبیلی بہ اَزیں بہ نظرم نرسید....ومخلص را لیل ونہارمتمنی اخبار و اَخیار تصوّر فرمودہ‘‘۔

ترجمہ از سہیل احمدصدیقی: میرے مشفق! ہرچند کہ اس خط کے لکھنے والے کو ایک مصرع بھی موزوں کرنے کا اتفاق نہیں ہوا، مگر محض مولوی فضلِ حق خیرآبادی صاحب کی بات سن کر دل چاہا کہ خط کتابت /مُراسلت کا سلسلہ جاری ہو۔ چونکہ اس سے بہتر کوئی راہ نہیں سُوجھی۔ (اس لیے براہ کرم) اس مخلص کو حالات سے واقفیت کا متمنی سمجھیں۔

دربارِرام پور میں ادب کے علاوہ بھی تقریباً ہر شعبے کے علماء، فُضلاء اور ماہرین مدتوں جمع ہوتے رہے اور اُن کے علم وفضل اور دانش نے ایک دنیا سے خراج وصول کیا۔ بحرالعلوم مولانا عبدالعلی، سربراہ ِمدرسہ عالیہ، مُلا محمد حسن استادِ منطق، حضرت عبداللّہ شاہ بغدادی، حافظ شاہ جمال اللّہ، خلیفہ شاہ درگاہی مولانا جمال الدین، شاہ عبدالکریم ، مُلّا فقیر اَخوند، علامہ فضل حق خیرآبادی، علامہ عبدالحق (فرزند علامہ فضل حق)، محدث سید محمد شاہ (استادِ ابوالکلام آزاد)، مولوی حکیم عبدالغنی خاں نجمی رام پوری، مولانا عبدالوہاب خاں، مولانا عبدالسلام خاں (برادرِ خُرد)، مولانا وجیہ الدین احمد خاں قادری، قاری علی حسین خاں رام پوری تلمیذ ِ امام القراء عبدالرحمٰن پانی پتی، قاری محمد اسمٰعیل مجددی، قاری عبدالحق خاں، شیخ القرّاء عبدالواحد رام پوری، سیّد عبد الدائم جلالی، حکیم اعظم خاں رام پوری، علامہ شبلی نعمانی، علامہ عبدالعزیز میمن، قائم چاندپوری، میرزاغالبؔ، مومنؔ، نظام ؔ رام پوری، داغ ؔ دہلوی، امیر مینائی، اسیرؔ لکھنوی، منیرؔ شکوہ آبادی، سحرلکھنویؔ، قلقؔلکھنوی، تسلیم لکھنوی، شیخ علی بخش بیمارؔ رام پوری، ریاضؔ خیرآبادی اور امتیاز علی خاں عرشیؔ رام پوری جیسے متعدد مشاہیر کے محض نام ہی گنوانا اس امر کی دلیل ہے کہ ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘۔ (جاری)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علامہ فضل حق رام پور میں نواب یوسف نواب سعید رام پور ا جاتے ہیں رام پوری میں ایک م پور م یہ بھی نے ایک

پڑھیں:

سوال مت پوچھیے!

پسماندہ ممالک کیوں ترقی نہیں کر پاتے؟ سوال میں کسی قسم کا الجھاؤ باقی نہیں رہا ۔ جواب سادہ سا ہے۔ ان تمام ممالک کے حکمران‘ ایک جعلی نظام کے ذریعے عام لوگوں کی گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ جذباتیت‘ مذہب پرستی اور جنونیت کی وہ فضا قائم کر دیتے ہیں جس سے عوام کے سنجیدہ مسائل پس منظر میں چھپ جاتے ہیں۔ بلکہ ایسے مسائل بیان کیے جاتے ہیں جن سے عوام کی براہ راست بھلائی کا کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی فہرست ترتیب دیجیے ۔ ان کے معاملات مکمل طور پر یکساں بگاڑ کا شکار ہیں۔ یوں کہنا چاہیے۔ کہ یہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہیں۔

اگر آپ مسلمان ممالک کے الجھاؤ کو دیکھیے تو وہ جھوٹ‘ لوٹ مار اور جعلی تاویلوں کے اس گرداب میں ڈوب چکے ہیں۔ جس میں سے نکلنا قطعاً ممکن نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں یہ عذاب سر چڑھ کر رقصاں ہے۔ کیونکہ یہاں تقلید اور ہمہ وقت بزرگی کا وہ سرمہ بیچا گیا ہے۔ جس نے ہمیں نابینا کر ڈالا ہے۔ پاکستان‘ جن مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے ترتیب دیا تھا۔ انھیں اور ان کی سوچ کو‘ ملک بننے کے تھوڑے ہی عرصہ میں‘ غتر بود کر دیاگیا۔

منظم طریقہ سے ‘ ہماری جدوجہد آزادی ‘ کی اہم سیاسی شخصیات کو متنازعہ بنایا گیا ۔ چند اداروں نے مبالغہ آرائی کی ناؤ میں سوار ہو کر ملک کی دخانی کشتی کو ڈبو کر رکھ ڈالا ۔ یہ صورت حال آج بھی موجود ہے۔ مگر ایک معاملہ تمام ’’شاہسواروں‘‘ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ہے سوشل میڈیا کی دیو مالائی طاقت۔ اب حکومتوں کے لیے نازک معاملات پر کوئی قومی بیانیہ بنانا مشکل تر ہو چکا ہے۔

عام لوگوں کے سامنے ہر تصویر کے متعدد متضاد رخ ‘ پل بھر میں سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی کے ہاتھ میں چلتا پھرتا‘ ابلاغ کا طاقتور ذریعہ ‘ فون کی صورت میں موجود ہے۔ جس کے سامنے کوئی من گھڑت دلیل‘ قائم نہیں رہ سکتی۔ حکومتوں کے لیے یہ صورت حال ایک گھمبیر رخ اختیار کر چکی ہے۔

اس کشمکش میں کیا ملک میں ترقی کے امکانات ہیں۔ جواب آپ خود بخوبی جانتے ہیں۔ پہلے یہ بھی سمجھ لیجیے۔ کہ ترقی کے معنی کیا ہیں؟۔ مطلب کیا ہے؟ طالب علم کی نظر میں اگر عام لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے مہیا ہو رہی ہیں ۔ تو جان لیجیے کہ ملک اور قوم ترقی کے زینہ پر اوپر چڑھ رہی ہے۔

اس کے برعکس اگر عوام کی اولین ضروریات صرف خواہشات کی حد تک ہی رہ جائیں۔ تو پھر گھبرانے‘ سوچنے اور شرمسار ہونے کا مرحلہ ہے۔ سوال وہی ‘کہ کیا ہم ایک مہیب جھوٹ کا شکار تو نہیں ؟

یہی وہ گورکھ دھندہ ہے ۔ جسے ہر شہری کو سوچنا چاہیے۔ تعصب سے مبرا ہو کر سچ تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہم جس بگاڑ کا شکار ہیں۔ وہ 1947 سے شروع نہیں ہوا۔ بلکہ برصغیر میں مسلمانوںکی بظاہر طاقتور حکومتوں کے دوران میں شروع ہو چکا تھا۔ چار صدیاں پہلے کے مسلمان حکمران طبقات اپنی جہالت پر نازاں تھے۔

آج کے حد درجہ تخلیقی دور میں بھی ان کے رویہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ذرا سوچیے۔ سن 1096عیسوی میں ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی۔ بارہویں صدی میں پیرس میں بھی اعلیٰ یونیورسٹی بن چکی تھی۔ اس زمانہ میں ‘ برصغیر میں ‘ دہلی سلطنت کے سلاطین کی حکومت تھی۔ تین سو برس کی ان حکومتوں کے معاملات کو تفصیل سے پرکھیے۔

قتل و غارت‘ شاہی رقابتیںاور ان گنت خواتین پر مبنی حرم سرا کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حرام ہے کہ کسی ایک سلطان نے اپنے اس زمانے کے حساب سے کسی اعلیٰ تعلیم گاہ کے قیام پر توجہ دی ہو۔ہاں۔ اپنے قد کوبڑھانے کے لیے عمارتیں بہر حال تعمیر ضرور ہوئیں۔ جن کا عوامی بہبود سے کوئی جزوی تعلق بھی نہیں تھا۔

ذرا سوچیے۔ایسا کیوں تھا۔ وجہ صرف ایک معلوم پڑتی ہے ۔ کہ ہر بادشاہ کو صرف اپنے دور کو طویل کرنے کا خبط سوار تھا۔ کہنے کو تو وہ مسلمان ہی تھے۔ مگر ہمارے عظیم مذہب کی انقلابی روح سے ناشناس تھے۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورا برصغیر ‘ جدید علوم سے دور ہوتا چلا گیا۔ بعینہ یہی معاملہ مغلوں کے دور میں بھی روا رہا۔ مغل بادشاہ‘ ظل الٰہی کہلوانے میں مگن رہے۔

دنیا کے امیر ترین بادشاہ بن گئے۔ مگر انھوں نے جدت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی لہر برپا ہو چکی ہے۔ صنعتی انقلاب آ چکا ہے۔ تحقیق ‘ سائنس اور ایجادات زندگی کا چلن بن چکی ہیں۔ یورپ‘ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا خطہ بن گیا اور برصغیر ‘ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ‘ یعنی مسلمانوں کے جوہری حالات آج بھی یہی ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہوا کہ تقلید نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح قابو کر لیا کہ سوال پوچھنے کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔ مذہبی علم کو ‘ واحد علم قرار دے دیا گیا۔ غیر ملکی زبانیں ‘ جیسے ترکی‘ فارسی اور عربی پر عبور ‘ عالم کی پہچان بن گیا۔ دھڑا دھڑ شعراء اکرام‘ داستان گو اور قصیدہ گو اہمیت اختیار کر گئے۔ جدید علوم کی ہوا تک ہمارے خطے تک نہ پہنچ پائی۔ ذہن کی سرخیزی کو جرم قرار دے دیا گیا۔

لسانیات اور جمالیات کو زندگی کا محور قرار پایا گیا۔ جدید علوم کا حصول کفر تک پہنچانا ہماری فاش غلطی تھی۔ جب ہم اکبر اعظم ‘ شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کے دور کی ورق گردانی کرتے ہیں تو چند معاملات سامنے آتے ہیں۔محض اپنے دور کی تحقیقی تخلیق کاری سے نفرت‘ مبالغہ پر مبنی طرز زندگی اور جاہلیت کی ترویج سکہ رائج الوقت تھا۔

کبوتربازی ‘ بٹیروں کی جنگ اور حد درجہ احمقانہ طویل القابات پر مزین زندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ خطہ‘ جس میں ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ ‘ ہزاروں برس پہلے قائم کی گئی تھی۔ منافرت میں غوطہ زن اورتحقیق سے گھبراہٹ‘ جیسے رویے میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیا یہ نکتہ قیامت نہیں ڈھاتا۔ کہ برصغیر میں ہمارے حکمرانوں کے پاس محیر العقول دولت تھی۔ مگر وہ اتنے کند ذہن تھے کہ مغرب کے معاملات سے بھرپور بے خبر رہے۔ ماضی کا کیا ماتم کرنا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عمومی حالات اور پاکستان میں خصوصی حالات حد درجہ نازک اور قدامت پسند ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے ۔ یورپ چودھویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک‘ نشاۃ ثانیہ کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اس میں انسان کی برابری‘ روزگار کے عدم توازن اور انسانی حقوق کی مناسبت پر بات ہونی شروع ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ‘ محققین نے ‘ ریاستوں کے مذہبی جواز کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔پاپایت کے سفاکانہ دور پر‘ضرب کاری لگ چکی تھی۔ علمیت کی اس روش نے اس صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ جو 1760 سے پہلے دنیا نے قطعاً نہیں دیکھا تھا۔

1840 تک ‘ یورپ میں حقیقی انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ سائنس اور دلیل نے معاشروں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ یورپ وہ طاقت بن کر ابھرا تھا‘ جس کے سامنے تمام دنیا سرنگوں ہو گئی۔برصغیر میں‘ برطانوی ‘ پرتگالی اور فرانسیسی طاقتیں نئی جہتیں لے کر آئے۔ ہندوستان میں مسلمان اتنے تساہل پسند اور پسماندہ تھے کہ ایک تجارتی کمپنی کی عسکری طاقت کا مقابلہ نہ کر پائے۔ ہمارے ہیرو‘ خس و خاشاک کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی سے گھائل ہوتے گئے۔ مگر بحیثیت قوم‘ مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔

مغرب سے تعلیم یافتہ افراد‘ جب برصغیر میں واپس آئے۔ تو انھوںنے آزادی ‘ جدید علوم ‘ انسانی حقوق پر واشگاف بات کی۔ مگر انھیں‘ مسلمانوں کے مذہبی طبقہ نے دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیا۔ ان میں سرسید‘ علامہ اقبال اور محمد علی جناح ‘ سب شامل تھے۔ اگر یہ اکابرین ‘نہ ہوتے تو آج بھی ہم ‘ بادشاہوں کے درباروں میں کورنش بجا لانے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے ملک میں وہی قدیم رویہ برپا کر رکھا ہے۔ جو ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ طاقتور آزادی سے ‘ کمزور پر حکومت کر رہے ہیں۔ نظام انصاف میں کوئی توانائی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا چلن بالکل وہی ہے۔ جو دہلی سلاطین کے زمانہ میں روا تھا۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی‘ جذباتیت اور شدت پسندی کو ریاست بذات خود ‘ توانائی دے رہی ہے۔

چند مذہبی جماعتیں ‘ قبائلی عصیبت کو ہوا دے رہی ہیں۔ دہشت گرد‘ بھی مذہبی تاویلیں استعمال کر کے تسلی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ عوام اسی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو صدیوں پہلے تھا۔ سوال اٹھانے کی اجازت آج بھی نہیں ہے۔ کفر کے فتوے‘ توانائی سے جاری و ساری ہیں۔ لگتا ہے ہم مسلمانوں نے قسم کھا رکھی ہے۔

کہ ہم ہر طریقے سے ترقی سے دور رہیں گے۔ پست معیار تعلیم‘ جعلی ریاستی بیانیہ‘ ہر دم جنگ و جدل کی باتیں ‘ عدم تحفظ‘ ہمارا قومی شعار ہیں۔ تحقیق سے آج بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اگر میری باتوں پر یقین نہیں آتا ۔ تو ذرا ! کوئی بھی سنجیدہ سوال پوچھ کر دیکھیے ۔لوگ خوشی سے ‘آپ کی گردن زنی کر دیں گے۔ اور وہ ایک نیکی قرار ہو گی۔ دراصل ہم سوال پوچھنے کے عمل ہی سے خوف زدہ ہیں۔ تمام معاملات ‘ پسماندگی کی شاہراہ پر بھاگ رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے ضعف سے حد درجہ خوش ہیں!
 

متعلقہ مضامین

  • ’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
  • بہادر مگر تنہا!
  • پبلک ٹرانسپورٹ کیا سب کا حق نہیں؟
  • پاکستانی شناخت کا مقدمہ
  • سپریم کورٹ کے 2ایڈہاک ججز مدت پوری ہونے پرعہدے سے سبکدوش
  • سوال مت پوچھیے!
  • نام ماں کا بھی
  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا