اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 اگست ۔2025 )سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں ہیں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے جو 12 اگست کو اپیلوں پر سماعت کرے گا.

نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس گل حسن اورنگزیب تین رکنی بینچ کا حصہ ہیں رجسٹرار آفس نے 8 اپیلوں پر سماعت کی کاز لسٹ جاری کر تے ہوئے عمران خان کی لیگل ٹیم کو نوٹس کر دیا ہے. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیے جانے کے بعد یہ ہفتہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت  سپریم کورٹ  کو ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس مجوزہ تبدیلی کے تحت اس نئی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری براہِ راست انتظامیہ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ کو اس کے دائرۂ اختیار کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس بل کو رواں ہفتے کے دوران ہر صورت منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لفظ پاکستان  بھی حذف کر دیا جائے گا، جب کہ چیف جسٹس کا عہدہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں تبدیل ہو جائے گا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 12 نومبر کو ترکی کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔

ماہرینِ قانون کے مطابق اگر اس دوران پارلیمان نے 27ویں ترمیم منظور کر لی، تو حکومت کسی بھی جج کو نیا چیف جسٹس نامزد کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس ترمیم پر کس نوعیت کا ردعمل دیتی ہے۔

قانونی ماہرین اور وکلا برادری میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی روح ہے، جسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس آفریدی کو فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز کا متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہیے تاکہ ادارے کی ساکھ محفوظ رہ سکے۔

دوسری جانب حکومتی اتحاد کے قانونی ماہرین اپنی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی وفاقی آئینی عدالت کی ساکھ پر عوامی اعتماد کیسے قائم رہے گا، جس کے سربراہ کا تقرر خود حکومت کرے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ عدلیہ کی غیر جانب داری اور وقار برقرار رہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے نام منظرِ عام پر آگئے
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • آئندہ ہفتے کیسز کی سماعت کیلیے کوئی آئینی بینچ تشکیل نہیں
  • سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ میں صحت سہولیات کی کمی پر سماعت
  • چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز منظور کر لیں
  • سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات
  • مسرت اور جمشید چیمہ کی عبوری ضمانت میں توسیع
  • سپریم کورٹ: 27ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ ریمارکس، کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی