ایک لاکھ 31 ہزار ملازمتیں، پاکستانی نوجوانوں کے لیے بڑی خوشخبری آگئی
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے پاس بیرون ملک ایک لاکھ 38 ہزار 817 غیر ملکی ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہیں۔ مجموعی طورپر 2 لاکھ 75 ہزار 669 ملازمتوں میں سے ایک لاکھ 43 ہزار 854 ملازمتوں کو پر کرلیا گیاہے۔
سرکاری خبر رسان ایجنسی کے مطابق ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ ملک کی پیداواری پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی ملازمت کے متلاشیوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہنر مند اور غیر ہنر مند پاکستانی کارکنوں کے لیے ملازمتوں کے نئے راستے کھل رہے ہیں، رواں سال یکم جنوری سے 30 جون تک تقریبا 3 لاکھ 37 ہزار پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گئے۔
1971 میں بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے قیام کے بعد سے اب تک ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن کو بیرون ملک روزگار فراہم کیا گیا ہے جو کہ بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ میں رجسٹرڈ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سرکاری ذریعے نے کہا کہ 2015 کے دوران سب سے زیادہ تعداد 9 لاکھ 46 ہزار 571 پاکستانی روزگار کی غرض سے بیرون ملک گئے، اس طرح بیرون ملک ملازمت کرنے والے کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیج کر ملکی ترقی میں اہم کردارادا کررہے ہیں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے پاس اب بھی بیرون ملک ایک لاکھ 38 ہزار 817 غیر ملکی ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بیرون ملک بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ پاکستان ملازمتیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرون ملک پاکستان ملازمتیں امیگریشن اینڈ بیرون ملک بیورو آف ایک لاکھ کے لیے
پڑھیں:
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز
تحریر ذوالقرنین حیدر
ان دنوں ملک میں 27ویں آئینی ترامیم کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ کہیں آرٹیکل 243تھی زیر بحث ہے تو کہیں صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات جارہی ہے۔ مگر جو سسٹم سے جڑی بات ہے وہ دراصل مجسٹریٹی نظام کی واپسی کی بات ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم نے1860میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی تسلط میں یہ قانون بنایا گیا جس میں ملکی اداروں کا نظام ایگزیکٹو مجسٹریٹی کے سپرد کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھی ایک طرح کا وائسرے تھا۔ پولیس سے لیکر تمام ادارے انہی کی مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ مگر وقت بدلہ حالات بدلے اور بالآخر مشرف دور میں اس قانون سے جان چھڑا لی گئی اور پولیس آرڈر 2002 لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پولیس اپنے فیصلوں میں کسی حد تک آزاد ہوئی اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی پولیس آرڈر 2002اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پولیس نے گزشتہ بیس سالوں سے امن اوامان کی صورتحال کو سنبھالا ہوا ہے۔ نئے ادارے بنا دئے گئے۔
اختیارات تقسیم ہوئے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع ملے تو دوسری طرف کئی معاملات میں عوام کو بھی سہولت میسر آئی۔ اب اگر بات کی جائے کہ مجسٹریٹی نظام واپس لایا جائیگا تو ہوگا کیا۔ دراصل اب تک تین مرتبہ یہ کوشش کی جا چکی ہے پولیس آرڈر واپس ہو مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار پھر سے ایک کوشش کی گئی ہے۔ نظام واپس آنے سے پولیس آرڈر ختم ہو جائیگا۔ نئے بنائے جانے اداروں کو بھی ختم کرنا پڑ جائیگا۔
یہاں تک کہ عدلیہ کی طاقت بھی کم ہو جائیگی کیونکہ عدلیہ کے اختیارات بھی ایگزیکٹو کے پاس آجائیں گے۔ پھر ہوگا بادشاہی نظام بادشاہ کو کیا پسند ہے اسی کے مطابق آپ کو بھی چلنا ہوگا۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی ہو یا امن وامان کا معاملہ پولیس اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دھرنے ہوں یا احتجاج نمٹا جارہا ہے۔ مگر اس کے بعد صاحب کا ایک حکم ہوگا اور پورا شہر اسی پر چلے گا۔ آج اگر پولیس اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو آپ کے پاس کئی فورم ہے آپ عدلیہ سے بھی ریلیف لے سکتے ہیں مگر یہ اختیارات بھی کم ہو گئے تو جو ریلیف مل رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔
پنجاب میں لوکل گورنمنٹ آرڈنینس میں بھی تمام اختیارات سیکرٹری کو دئیے گئے اس سے تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا راگ جو الاپا جاتا ہے وہ بھی ختم ہو گیا۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ایسے قوانین ختم ہو چکے ہیں یہاں تک کے برطانیہ بھی اس نظام سے باہر آچکا ہے۔ مگر ہم نے ایک بار پھر فرسودہ نظام کو اپنانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ سپشلائیزیشن کا دور ہے نا کہ جنرلائزیشن کا دور
مجوزہ لائے جانے والے نظام سے عدلیہ اور پولیس کو جہاں دھچکا لگے گا وہاں عوام بھی شدید متاثر ہوگی۔ جس کی واضح مثال تھری ایم پی او کے آرڈر ہیں کہ صاحب کو پسند نہیں کہ آپ ان کے سامنے آئیں اور پھر آپ ان کے اگلے حکم تک ااندر ہی رہیں گے۔ یہی کچھ برطانوی راج میں بھی ہوتا تھا۔
جس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ اس نظام سے جان چھٹرائی جائے۔ نظام سے جان تو چھڑا لی گئی مگر اس نظام کا مائنڈ سیٹ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے ایک بار پھر کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ کے اختیارات کم ہوں جو واپس ایگزیکٹو کو دئیے جا سکیں۔ پولیس پھر سے مجسٹریٹ کے تابع ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکی صدر نے پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم