گلگت بلتستان میں ہنزہ کے گلمت گوجال نالے میں اچانک سیلابی ریلا آنے سے افراتفری پھیل گئی۔ واٹر چینل پر کام کرنے والے 50 سے زائد افراد نے سیلائی ریلے سے بمشکل جان بچائی۔

سیلابی ریے کے ساتھ پہاڑی پتھر آنے سے شاہراہ قراقرم بھی کئی مقامات پر بند ہوگئی، جس کے باعث مسافر پھنس گئے۔

ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللّٰہ فراق نے کہا ہے کہ دریائے ہنزہ پھر بپھر گیا ہے، سیلاب سے واٹر چینلز، تیار فصلوں اور مکانات کو نقصان ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلتستان کے علاقے شگر میں بھی سیلاب سے زرعی اراضی اور درخت بہہ گئے ہیں، سڑک کی بحالی کا کام جلد شروع کیا جائے گا۔

ترجمان جی بی حکومت نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان بدترین سیلابی تباہیوں کی زد میں ہے، پہاڑی پتھر شاہراہ ریشم پر تواتر سے گرتے رہے۔

فیض اللّٰہ فراق نے کہا کہ حکومت نے ہنزہ انتظامیہ کو امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کردی۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

شمشال ویلی کی پہلی طبیب لعل پری

ہنزہ ویلی کے دور دراز گاوں شمشال میں برسوں تک سینکڑوں خواتین کی جانیں بچانے والی لعل پری آج خود کینسر کے مرض سے لڑ رہی ہیں۔ لعل پری ایک وقت ہنزہ کے نواحی علاقے میں واحد  ڈاکٹر، نرس، دائی، ڈسپنسر اور ویکسینیٹر تھیں۔ مگر اب لعل پری خود 2002  سے برین ٹیومر کے مرض میں مبتلا ہے۔

ضلع ہنزہ کے گاؤں شمشال سے تعلق رکھنے والی لعل پری کی کہانی آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ایکس (ٹوئیٹر) صارف محمد عارف (@ArifRetd) نے اپنی پوسٹ میں اس حوالے سے لکھا،

’جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں۔ یہ محترمہ لعل پری ہے جو وادی ہنزہ کے دور دراز گاؤں شمشال کی واحد ڈاکٹر، نرس، دائی، ڈسپنسر، ویکسینیٹر اور مشیر صحت ہے۔ گاؤں میں کسی کو میڈیکل ایمرجنسی ہو تو لعل پری چوبیس گھنٹے حاضر ہوتی ہیں، پچھلے اٹھائیس سالوں میں ہر بچہ اسکے ہاتھوں پیدا ہوا، جب کسی کو گلگت کے زچہ بچہ ہسپتال لے جانا ہو تو محترمہ لعل پری ہمیشہ مریض کے ساتھ جاتی ہے اور یہ راستہ فور بائی فور جیپ پر 10 گھنٹے میں طے ہوتا ہے- اس گاؤں میں پچھلے 28 سالوں میں کوئی خاتون دوران زچگی فوت نہیں ہوئی۔ لعل کو صرف یہ خوف رہتا ہے کہ جب کسی مریض کے ساتھ شہر گئی ہوئی ہو تو پیچھے گاؤں میں کوئی ایمرجنسی نا ہو جائے، وہ کہتی ہے کہ الله نے اس گاؤں کی ساری ذمہ داری اس پر جو ڈالی ہوئی ہے‘-

ہم نے لعل پری کی اس کہانی کی تصدیق اور مزید معالومات کیلئے لعل پری کے شوہر قدرت علی سے رابطہ کیا۔

قدرت علی نے وی نیوز کو بتایا کہ میری زوجہ لعل پری نے 1988 میں ہنزی سے آغا خان ہیلتھ کیئر کے زیر اہتمام دائی کی ٹریننگ کی، پھر 1991 میں DHQ گلگت سے نرسنگ ایڈ کا کورس کیا، اور پھر  1992 میں ہی انہیں نے شمشال ڈسپینسری میں گورنمنٹ ملازمت شروع کی۔ لعل پری 1988 میں مڈوائفری کا کورس DHQ گلگت سے کیا، پھر 2000 میں پشاور ہیلتھ ٹریننگ سکول سے LHV کا کورس مکمل کیا۔

قدرت علی نے بتیا کہ لعل پری کے ساتھ اُن کی شادی 1987 میں ہوئی، شادی کے وقت لال پری کی عمر 15 سال، جبکہ قدرت علی کی عمر 18 سال تھی۔

قدرت علی نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں شروع میں فرسٹ ایڈ پوسٹ تھی، پھر ایک ڈسپینسری بنی، لال پری اسی ڈسپینسری میں ہی علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے 5 پانچ بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے۔ جن میں 3 شادی شدہ جبکہ 3 غیر شادی شدہ ہیں۔

قدرت علی نے بتایا شمشال ویلی کی سڑک 2003 بنی، یہ دنیا کی خطرناک ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے جو قراقرم ہائی وے پر پاسو گاؤں کے قریب سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑک بننے سے پہلے ہمیں اپنے گاؤں سے پاسو جانے کیلئے تقریباً 55 کلومیٹر کا راستہ 2 دنوں میں پیدل سفر کر کے طے کرنا پڑتا تھا، جبکہ واپسی میں یہی سفر چڑھائی اور مشکل رستوں کی وجہ سے 3 دنوں میں طے ہوتا تھا۔

قدرت علی نے کہا کہ لعل پری گاؤں میں زچہ و بچہ کیسز میں اپنی خدمات سر انجام دیتی تھیں۔اُس وقت ہمارے گاوں میں صحت کے سہولیات اور ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی کمزور اور محدود تھا، لعل پری ون مین آرمی کی طرح علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتی تھیں۔

قدرت علی نے اپنی زوجہ کے حوالے بتایا کہ لال پری کو 2002 میں برین ٹیومر ہوا ، جس کی وجہ سے انہوں نے گورنمنٹ جاب سے ریٹائرمنٹ لے لی، تب سے لیکر آج تک لال پری کا علاج جاری ہے۔ ابھی لال پری کی عمر 54 سال ہے، عمر اور بیماری کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی حالت قدرے کمزور ہے۔

56 سالہ قدرت علی نے بتایا کہ وہ خود ٹوورازم کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ وہ 1991 سے لیکر 2000 تک کلائمبر رہے، انہوں نے نانگا پربت، بروڈ پیک، جی ون اور جی ٹو کی چوٹیاں سَر کیے ہیں۔

وادی شمشال پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان  ڈسٹرکٹ ہنزہ میں واقع ایک دُور افتادہ اور وسیع و عریض علاقہ ہے، جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔

شمال ویلی سطح سمندر سے تقریباً 3,100 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور یہ ضلع ہنزہ کی بلند ترین انسانی آبادی ہے۔ یہاں کے باشندے زیادہ تر وخی زبان بولتے ہیں، ضلع ہنزہ میں شرح خواندگی 95 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے۔

شمشال کو خصوصاً کوہ پیماؤں کی سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے، کیونکہ یہاں سے بہت سے نامور اور تجربہ کار کوہ پیماؤں کا تعلق ہے، ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ، اور K2 کو 2 بار سر کرنے والے افضل علی کا تعلق بھی شمشال ویلی سے ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمیر خان آباد

ثمینہ بیگ، شمشال ویلی لعل پری ہنزہ ویلی

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد، سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کی وفاقی وزیر شزا فاطمہ سے ملاقات
  • گلگت بلتستان کے اسکیئر محمد کریم نے چوتھی بار سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرلیا
  • کنگ سلمان ریلیف سینٹر کی جانب سے پنجاب کے حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں 180 ٹن کھجوروں کی تقسیم
  • شمشال ویلی کی پہلی طبیب لعل پری
  • خطے کے وسائل اور اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے نہیں دینگے، سائرہ ابراہیم
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کا معاملہ، متحدہ اپوزیشن کا اہم اجلاس کل طلب
  • حکومت کی بدترین نااہلی کی وجہ سے عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں، حفیظ الرحمن
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کا معاملہ، متحدہ اپوزیشن کا اہم اجلاس کل طلب
  • گلگت بلتستان میں انتخابی اتحاد کیلئے تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، علامہ شبیر میثمی
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کیلئے 11 نومبر کو اسلام آباد میں اہم اجلاس طلب