Express News:
2025-10-04@14:03:47 GMT

اجتماعی سوچ!

اشاعت کی تاریخ: 18th, August 2025 GMT

ملکوں اور قوموں کی زندگی میں بعض ایسے واقعات اور معجزات رونما ہوتے ہیں جو ان کی تاریخ کے انمٹ نقوش بن کر ہمیشہ کے لیے یادگار قرار پاتے ہیں۔

غلامی سے آزادی کی نعمت حاصل کرنا ہر قوم کے لیے وہ ثمر ہوتا ہے جس کے تصور اور احساس سے دل و دماغ پر ایسے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جو روح کی گہرائی تک اتر جاتے ہیں۔ آزادی کی قدر و قیمت وہی لوگ جانتے ہیں جنھوں نے غلامی کی زنجیروں میں زندگی کے روز و شب گزارے ہوں اور پھر کسی مرد حریت کی قیادت میں انھوں نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کو قربان کرکے قید غلامی سے آزادی کے حصول تک کا جاں گسل سفر طے کیا ہو اور اپنے بچوں کے روشن و تابناک مستقبل کے خواب دیکھے ہوں۔

برصغیر کی تاریخ میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کی غلامی کا جو آغاز ہوا اور مسلمانان ہند کے ہندوؤں اور انگریزوں کے جبر و ستم کو قریباً سو برس تک برداشت کرنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی کے سفر کی تاریخ ساز جدوجہد کی اور بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان حاصل کر لیا۔ قوم ہر سال 14 اگست کو جشن آزادی کو بڑی دھوم دھام سے مناتی ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔

ہمارے آج کے رہنما و قائدین آزادی کی جدوجہد اور اکابرین کی قربانیوں کی یاد تازہ کرکے نئی نسل کو نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ تجدید عہد کرتے ہوئے پاکستان کو قائد اعظم اور مصور پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ گزشتہ 78 سالوں سے ہم آزادی کا جشن منا رہے ہیں اور ہر سال یہ سوال موضوع بحث بن جاتا ہے کہ کیا ہم نے آزادی کے حقیقی ثمرات اور مقاصد کو حاصل کر لیا ہے؟ کیا قائد اعظم نے جس نظریے، فلسفے اور سیاسی اصولوں کے تحت جدوجہد کرکے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کے معجزاتی قیام کو یقینی بنایا تھا آج کے پاکستان میں قائد کے بنائے ہوئے رہنما اصولوں کے مطابق نظام حکومت چل رہا ہے؟ کیا عوام مطمئن ہیں، انھیں ان کے آئینی حقوق کا تحفظ حاصل ہے۔

 کیا ہمارے ریاستی ادارے آئین کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں؟ کیا ملک میں ایک عادلانہ جمہوری معاشرہ قائم ہے؟ کیا ہماری عدالتیں لوگوں کو واقعی حقیقی انصاف فراہم کر رہی ہیں، کیا پاکستان نے 78 سالوں میں سیاسی، جمہوری اور معاشی استحکام کی منزل حاصل کر لی ہے؟ کیا آج کا پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا جاسکتا ہے؟اگر عوامی سطح پر ایماندارانہ سروے کیا جائے تو ایسے بہت سے سنجیدہ سوالوں کا جواب ہاں میں نہیں بلکہ نفی میں ملے گا جس میں غصہ، مایوسی اور مستقبل سے ناامیدی کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ جن کے آباؤ اجداد نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو لٹا کر قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آزادی کے سفر کو کامیابی کی منزل پاکستان سے ہم کنار کیا تھا، آج آزادی کے حقیقی ثمرات اور مقاصد سے محرومی پر شکوہ طراز ہے۔

حالات کے جبر سے مایوس، بددل اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے عوام حکمرانوں سے سوال کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں کہ قائد اعظم کے پاکستان میں ان کے رہنما اصولوں کو مسمار کرکے اپنے مفادات کے تاج محل تعمیر کرنے والوں نے عوام کو کیا دیا؟وزیر اعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ مئی 25 کی جنگ میں بھارت کو شکست دینے کے بعد ایک نئے پاکستان نے جنم لیا ہے، بے شک! بجا فرمایا! ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پرجوش قیادت میں اپنے سے دس گنا بڑے دشمن بھارت کو چاروں خانے چت کرکے ایسی شان دار، بے مثال اور یادگار فتح حاصل کی کہ جس کا نہ صرف دشمن بھی معترف ہے بلکہ پوری دنیا میں اس لازوال کامیابی کا ڈنکا بج رہا ہے۔

بلاشبہ حربی میدان میں پاک فوج کی ناقابل شکست کارکردگی سے جنگی حوالے سے ایک نئے پاکستان نے جنم لیا ہے۔ دشمن اب ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ کیوں کہ دشمن پر پاک فوج نے جو کاری ضرب لگائی ہے اور جس طرح اس کا غرور خاک میں ملایا ہے وہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔ لیکن دوسری طرف قائد کے پرانے پاکستان میں آئین، قانون، جمہوریت، ریاست، عدل و انصاف، معیشت، تعلیم، روزگار، غربت، مہنگائی، بدحالی، پسماندگی اور عوامی سطح پر پھیلتی مایوسی سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں ان کا تدارک کیسے اور کیوں کر ممکن ہے۔

ان پیچیدہ گمبھیر مسائل کو شکست دے کر نیا پاکستان کب جنم لے گا، آزادی کے ثمرات اور حقیقی مقاصد کب حاصل ہوں گے؟ وزیر اعظم نے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں آرمی راکٹ فورس کی تشکیل کا اعلان کیا کہ جس سے پاک فوج کی جنگی صلاحیتوں میں بجا طور پر اضافہ ہوگا وہیں انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کو بھی ’’میثاق استحکام پاکستان‘‘ کا حصہ بننے کی دعوت دی کہ وقت آ چکا ہے کہ ہم سیاسی تقسیم، ذاتی مفادات اور کھوکھلے نعروں سے آگے بڑھ کر پاکستان کے لیے اجتماعی سوچ اپنائیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے درست بات کی ہے کہ ہم سب کو ملک و قوم کی خاطر اجتماعی سوچ کر پروان چڑھانا چاہیے۔ انفرادی اور ذاتی مفادات کے حصول کی منفی سوچ نے ہمیں من حیث القوم آزادی کے ثمرات سے محروم اور مقاصد سے بہت دور کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آزادی کی آزادی کے کے لیے

پڑھیں:

رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار

پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے، حالاں کہ کچھ معاملات میں معمولی کوتاہیاں ہوئی ہیں، حکام پیر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورہ کرنے والے جائزہ مشن کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کو پالیسی سطح کی بات چیت کے دوران چند نرمیوں پر اتفاق کرنا ہوگا، تاکہ رواں ہفتے کے آخر (9 یا 10 اکتوبر) تک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ساتھ جائزہ مکمل کیا جا سکے۔

اگرچہ پاور سیکٹر نے وصولیوں میں بہتری اور گردشی قرضے میں کمی کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، جو کہ سبسڈی کے لیے مختص مالی گنجائش کی منتقلی اور نئے قرضوں کے ذریعے ممکن ہوئی، لیکن وفاقی محصولات اور صوبائی کارکردگی، خصوصاً بجٹ سرپلس اور زرعی ٹیکس وصولی کے وعدوں میں کمزوری دیکھی گئی ہے۔

آئندہ 4 روز میں اضافی اقدامات کے ساتھ، سیلاب سے متعلق چیلنجوں کے پیش نظر ممکنہ رعایتوں کے ذریعے دوسرے جائزے کے اختتام کی راہ ہموار ہونے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ ماہ کے آغاز تک ایک ارب ڈالر سے زائد کی اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے، تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری درکار ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی ماحول بھی پاکستان کے حق میں سازگار بتایا جا رہا ہے، کیوں کہ بڑے ووٹنگ اراکین ملک کی حمایت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں آئی ایم ایف کے سخت جائزے کے تحت ہیں۔

ایف بی آر نہ صرف جون 2025 کے اختتام تک آمدنی کے ہدف سے کافی پیچھے رہا بلکہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً 200 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھا گیا ہے، جو ماہانہ اوسطاً 65 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، حالاں کہ ادارے نے اصلاحاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں درجنوں نئی گاڑیاں خریدنے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات سے متوقع ریکوریاں اس خسارے کو پورا کر سکیں گی یا نومبر کے آغاز میں مزید اقدامات کی ضرورت پیش آئے گی؟۔

کیش سرپلس کے وعدے
دوسری طرف وفاق میں اتحادی ہونے کے باوجود سندھ اور پنجاب کی حکومتیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اپنے کیش سرپلس وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں، بلکہ سندھ نے تو نئے مالی سال 26 کے آغاز پر خسارے کا بجٹ پیش کیا۔

آئی ایم ایف نے ان سستیوں کے باعث اصلاحی اقدامات پر زور دیا ہے، جس سے اپوزیشن کی زیرِ قیادت خیبرپختونخوا حکومت پر بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر اخراجات بڑھانے کا دباؤ پڑا، حالاN کہ وہ اب تک مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔

سیلابی حالات کے باعث صوبوں کی موجودہ سال میں بہتر کارکردگی متوقع نہیں، لیکن آئی ایم ایف ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے مالی نظم کو درست کریں، اسی دباؤ کا اظہار پنجاب کے وزیراعلیٰ کے اس بیان میں ہوا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ آئی ایم ایف صوبے کے تمام مالی معاملات پر ان سے حساب مانگ رہا ہے۔

پنجاب کو مرکز کو 740 ارب روپے کا سرپلس فراہم کرنا ہے، سندھ کو 370 ارب، کے پی کو 220 ارب، اور بلوچستان کو 155 ارب روپے دینے ہیں۔

مزید برآں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں زرعی ٹیکس کے مؤثر نظام کے قیام میں مشکلات کا شکار ہیں، حالیہ سیلابی تباہی کے باعث وہ قوانین پر مکمل عملدرآمد کے بجائے نرمیوں اور رعایتوں کی متلاشی ہیں۔

صوبے اپنی بجٹ سرپلس کارکردگی کو وفاقی ریونیو کی کارکردگی سے مشروط کر رہے ہیں، تاہم، کے پی اور پنجاب نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سیلاب سے متعلق اخراجات اپنی ہی وسائل سے پورے کریں گے۔

اگرچہ تمام صوبوں نے زرعی آمدنی ٹیکس کے قوانین وقت پر منظور کر لیے تھے، لیکن ان پر عملدرآمد جو ستمبر یا اکتوبر سے شروع ہونا تھا، خصوصاً پنجاب اور سندھ میں جاری سیلابی حالات کے باعث اب بھی غیر یقینی ہے، حکام کو ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ متاثرہ لوگوں، شعبوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے کتنی مالی مدد درکار ہوگی۔

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کی گفتگو میں گیس سیکٹر کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جو کسی حد تک بجلی کے شعبے سے واجبات کی منتقلی کا نتیجہ ہے، دونوں فریقین مستقبل میں گیس سیکٹر کے لیے نئے بینچ مارک طے کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں، جس میں تعریفات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

ابھی تک دونوں فریقین ریاستی ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) سے متعلق قوانین کی تعمیل کے معاملات حل نہیں کر سکے، جن میں پاکستان ویلتھ فنڈ کے تحت بڑی کمپنیوں کے انتظامی امور اور تمام سطحوں پر سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں و منافعوں کے عوامی انکشاف کے مسائل شامل ہیں۔
مجموعی طور پر جون 2025 کے آخر تک حکام کی پروگرام کارکردگی ملی جلی رہی ہے، اور مستقبل کا منظرنامہ مزید کوششوں کا متقاضی ہے۔

آئی ایم ایف نے تیل صاف کرنے والی پرانی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹیکس میں رعایت دینے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے، جس سے تقریباً 6 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔

آئی ایم ایف فنڈ کا کہنا ہے کہ ایسی رعایتیں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ریسائلنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف)کے مقاصد کے خلاف ہوں گی۔

ریفائنری اپ گریڈیشن کی پالیسی دو سال قبل صنعت سے مشاورت کے بعد متعارف کروائی گئی تھی، اور کمپنیاں معاہدوں پر دستخط کے قریب تھیں، جب حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کسی بھی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہ دینے کا وعدہ کر لیا۔

پیٹرولیم ڈویژن کا مؤقف ہے کہ موجودہ ریفائنریاں پیداوار اور کھپت دونوں سطحوں پر ماحولیاتی خطرات کا باعث بن رہی ہیں، جو انسانی صحت اور آب و ہوا دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اگرچہ حکومت موسمیاتی منصوبوں کے لیے آر ایس ایف کے تحت فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن اندرونِ ملک پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث اسے تنقید کا سامنا ہے، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف مذاکرات کاروں کی تکنیکی غلط فہمی اور وزارتِ خزانہ و ایف بی آر کے سخت مؤقف کا نتیجہ ہے۔

پاکستان نے جون 2025 کے آخر تک زیادہ تر مقداری اہداف (کوانٹیٹیو پرفارمنس انیشیٹیو) حاصل کر لیے ہیں، لیکن اشاریاتی اہداف (انڈیکیٹو ٹارگٹس) اور ساختی شرائط (اسٹرکچرل بینچ مارکس) میں پیچھے ہے، جو مستقبل کے پروگرام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

چوں کہ 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے اار ایس ایف کے 6 ماہ بعد جائزے ہوتے ہیں، اس لیے دونوں فریقین کو ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • امریکی معاہدے کو بے نقاب نہ کرنا اسلام کی توہین ہے، علامہ ریاض نجفی
  • قائد اعظم کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ، امن منصوبے پر پاکستان کے بھی تحفظات، ایکسپریس فورم
  • ٹرمپ کا نہیں قائد اعظم ؒ کا پاکستا ن چاہیے، علامہ صادق جعفری
  • آزاد کشمیر میں مہنگائی و لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج، وزیر دفاع کی عوام سے پرامن رہنے کی اپیل
  • آزاد کشمیرمیں احتجاج کرنے والے مقبوضہ کشمیرکی 3 نسلوں کی جدوجہد پرغورکریں، وزیردفاع
  • ’پاکستان نے آزادی کشمیرکےلیےاپناوجود داؤ پرلگایا‘،خواجہ آصف کی آزادکشمیرکےعوام سےپرامن رہنےکی اپیل
  • ہم نے ٹرمپ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ اجتماعی سوچ اور اتفاقِ رائے سے کیا، یوسف رضا گیلانی
  • پاکستانی دواسازی صنعت کی شاندار پیش رفت، عالمی سطح پر نئی کامیابی حاصل
  • فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت آئینِ اور قائدِاعظم کے ویژن کی خلاف ورزی ہے، ظہور خٹک