صحرا کی ہوا سے پینے کا پانی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں 2 ارب سے زائد افراد کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں، ایسے میں یہ جرمنی کی اچھی ایجاد ہے جو ’’صحرا کی خشک ہوا سے پانی نکالتی ہے — بغیر کسی بجلی کے استعمال کے۔‘‘یہ نظام ایک خاص ’’ہائیگروسکوپک جیل‘‘پر مبنی ہے، جو رات کے وقت جب نمی زیادہ ہوتی ہے تو ہوا سےجذب کرتا ہے۔ دن کے وقت سورج کی روشنی اس جیل کو گرم کرتی ہے، اور وہ نمی صاف پینے کے پانی میں تبدیل ہو کر ایک کنٹینر میں جمع ہو جاتی ہے۔ اس سسٹم میں نہ کوئی موونگ پارٹس ہیں، نہ بیٹری، نہ ہی کوئی الیکٹرانکس — یہ مکمل طور پر ’’سورج کی روشنی سے کام کرتا ہے۔ صرف 1 مربع میٹر کا ایک پینل ‘‘روزانہ 3 لیٹر تک پانی’’ پیدا کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ان علاقوں میں بھی جہاں نمی صرف 10% ہو۔ یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر ‘‘دور دراز علاقوں، پناہ گزین کیمپوں، یا قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں’’کے لیے بہت مفید ہے، جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ یہ پورا سسٹم ’’کم قیمت، قابلِ ری سائیکل مواد‘‘سے بنایا گیا ہے — یعنی یہ ’’پائیدار، سادہ اور ہر جگہ قابلِ استعمال‘‘ ہے۔ جہاں عام واٹر جنریٹرز بجلی اور مشینوں پر انحصار کرتے ہیں، یہ جیل پر مبنی نظام کسی بھی ’’بجلی یا گرڈ‘‘ کے بغیر کام کرتا ہے — جیسے کہ صحرا، پہاڑی علاقے یا دور دراز جزیرے۔ فی الحال اس کا تجربہ ’’مراکش اور نمیبیا‘‘ میں ہو رہا ہے، اگر یہ منصوبہ کامیاب رہا، تو یہ دنیا کے ان حصوں میں ’’پانی کی قلت کا مستقل حل‘‘ بن سکتا ہے، جہاں آج بھی لوگ صرف ایک بالٹی پانی کے لیے میلوں کا سفر کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا کاشغر فری ٹریڈ زون کا دورہ
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ میں واقع کاشغر فری ٹریڈ زون کا دورہ کیا، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کاشغر کے کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری یاو نِنگ نے کیا۔
دورے کے دوران صدرِ مملکت کو فری ٹریڈ زون کے قیام (2015ء) سے لے کر اب تک ہونے والی ترقی، بنیادی ڈھانچے، تجارتی سرگرمیوں اور بین الاقوامی روابط کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
حکام نے آگاہ کیا کہ یہ زون جنوبی سنکیانگ کا واحد فری ٹریڈ زون ہے، جو علاقائی تجارت و ترسیل کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔ یہ سڑک، ریل اور فضائی راستوں کے ذریعے نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ سے بھی منسلک ہے، اور اپنا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی رکھتا ہے۔
کاشغر فری ٹریڈ زون کو گلگت بلتستان میں واقع سوست پورٹ (400 کلومیٹر دور) اور گوادر پورٹ (2000 کلومیٹر دور) سے بھی مربوط کیا گیا ہے، اور ان راستوں کے ذریعے درآمدات و برآمدات کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ زون 3.56 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جس میں بانڈڈ ویئر ہاؤسنگ، لاجسٹکس، پروسیسنگ، کسٹمز کلیئرنس اور فضائی ترسیل کی سہولیات دستیاب ہیں۔ صدر کو بتایا گیا کہ زون کا تجارتی نیٹ ورک 118 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، اور یہاں سے برآمد ہونے والی اشیاء میں الیکٹرک گاڑیاں، بیٹریاں، سولر سیلز، ہائی ٹیک مصنوعات اور آٹو پارٹس شامل ہیں۔
صدر زرداری کو 2024ء میں قائم ہونے والے ڈیجیٹل ٹریڈ سینٹر سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی، جہاں اس وقت 5,400 سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ بارڈر پار ای-کامرس ایگزیبیشن سینٹر بھی قائم ہے جہاں وسطی ایشیا، یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان سمیت کئی ممالک کی ڈیوٹی فری مصنوعات کی نمائش کی جاتی ہے۔
انہیں “دو ممالک، جڑواں صنعتی پارکس” کے منصوبے سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا، جس میں ازبکستان کا منظور شدہ صنعتی پارک شامل ہے، جہاں سے صرف 72 گھنٹوں میں گودام سے گودام تک سامان کی ترسیل ممکن ہے۔ اسی طرح کرغیزستان کے تعاون سے آٹوموٹیو اسمبلی اور ایل ای ڈی پروڈکشن کے لیے ایک اور پارک زیر تعمیر ہے۔
صدرِ مملکت نے فری ٹریڈ زون میں مختلف ممالک کے نمائندہ اسٹالز اور کیوسک بھی دیکھے، جن میں وسطی ایشیائی ریاستیں، یورپی ممالک، جنوبی کوریا اور جاپان شامل تھے۔
اس موقع پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا، صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ، پاکستان میں چین کے سفیر اور چین میں پاکستان کے سفیر بھی صدرِ مملکت کے ہمراہ تھے۔
اشتہار