اسلام ٹائمز: ہمارے نزدیک حقیقتِ حال یہ ہے کہ فقہی اصولوں میں ہر مکتب اپنا ہی عکس دیکھتا ہے اور ہر مفسّر اپنی ہی تفسیر کو درست مانتا ہے۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلکی حدود سے ماورا ہوکر، دینِ اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیمات کو خالصتاً قرآنی اور نبویؐ تناظر میں سمجھنے کی سعی کرے۔ یہی روش ملک میں دینی شعور کے نمو کا سبب بنے گی اور کونسل کو اسکے اصل مقصد یعنی وحدتِ فکر اور حکمتِ شریعت سے ہمکنار کریگی۔ ہر مکتبِ فکر فقہ میں اپنا عکس دیکھتا ہے اور ہر مفسر تفسیر میں اپنا یقین مگر حقیقت وہی ہے، جو مسالک سے بلند ہو کر وحی کی اصل روح سے ہم آہنگ ہو اور یہی وہ بصیرت ہے، جو ایک منصف مزاج نظریاتی کونسل کی پہچان بن سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

آئینِ پاکستان کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرہ کار مشورے تک محدود ہے۔ البتہ مبصرین کے مطابق کونسل نے حالیہ اجلاس میں اپنے دائرہ کار سے صریحاً انحراف کیا ہے۔ گذشتہ روز پاکستانی میڈیا نے یہ سُرخی لگا کر سب کو چونکا دیا کہ "اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخ قرار دے دیا۔" یہ بات انجینئر محمد علی مرزا کی ذات سے ہٹ کر بھی قابلِ تشویش ہے کہ کونسل کسی کو گستاخ قرار دے۔ آئینی طور پر کونسل تو صرف مشورہ دینے تک محدود ہے، مگر مرزا کے معاملے میں کونسل کے بیان میں جو زبان اختیار کی گئی ہے، وہ انتہائی قابلِ اعتراض ہے۔ جیسے "یہ شخص سخت تعزیری سزا کا مستحق ہے" یا "توہینِ قرآن کی دفعات عائد کی جائیں۔" یہ زبان بتا رہی ہے کہ کونسل کے اندر مرزا کے مخالفین کا اثرونفوذ بہت زیادہ ہے، لہذا کونسل نے اس مسئلے میں اپنی غیر جانبداری کا خود ہی گلا گھونٹ دیا ہے۔

سونے پر سُہاگہ یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ مرزا نے نقلِ کفر کے فقہی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم کونسل کے پیشِ نظر کس فقہ کے فقہی اصول ہیں، اس کا نہیں بتایا گیا۔ یہ بتایا جانا ضروری ہے، چونکہ مفتی طارق مسعود صاحب اور مولانا حافظ سید محمد حیدر نقوی صاحب کے فقہی اصولوں کے مطابق تو مرزا نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ ایک طرف اسلامی نظریاتی کونسل نے معروف مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا کو گستاخی کا ملزم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرزا محمد علی کے بیانات کسی شرعی مقصد کے بغیر کہے گئے، نقلِ کفر پر مبنی بیانات کی بنا پر انجینئر مرزا سخت تعزیری سزا کے مستحق ہیں۔ دوسری طرف مفتی طارق مسعود صاحب اپنے فقہی اصولوں کی روشنی میں فرما رہے ہیں کہ جیسے مرزا صاحب نے بات نقل کی ہے، اس سے کوئی شخص سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔

ایک طرف کونسل نے فیصلے میں کہا کہ مرزا محمد علی انجینئر کے کئی بیانات میں ایسے جملے موجود ہیں، جو محض نقلِ کفر پر مشتمل ہیں، مگر کسی شرعی مقصد کے بغیر کہے گئے ہیں، اس بنا پر ان کا یہ طرزِ عمل سخت تعزیری سزا کا مستحق ہے اور چونکہ یہ عمل انہوں نے بارہا دہرایا ہے، اس لیے ان کا جرم مزید سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ دوسری طرف مولانا حافظ سید محمد حیدر نقوی صاحب نے اپنے فقہی اصولوں کی روشنی میں یہ بیان دیا ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا کی زیرِ بحث گفتگو کے بارے میں مجھ سے دریافت کیا گیا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں اُن کی گفتگو میں بالکل کسی طرح کی توہین کا پہلو موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی تحقیر و استخفاف کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہے، رسول اللہﷺ یا قرآن مجید کے حوالے سے اس گفتگو کو گستاخی قرار دینا بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔

یہ بیان کسی بھی پہلو سے اہانت یا بے ادبی کے دائرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اگر کوئی شخص انجینئر محمد علی مرزا سے کسی بات پر اختلاف یا ناراضگی کے سبب اس گفتگو کو بہانہ بنا کر مرزا صاحب پر توہینِ رسالت کا مقدمہ قائم کرنا چاہتا ہے اور انہیں اس جرم میں حراست میں رکھوانا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ کام بذاتِ خود قران کریم کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ" ﴿۸﴾ "اے ایمان والو! اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اور اللہ سے ڈرا کرو، بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔"

قارئینِ محترم کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ پاکستان میں قانونی طور پر فتویٰ دینے کا اختیار صرف دارالافتاء یا مستند مفتیانِ کرام کو حاصل ہے، لیکن اس اجلاس کے بعد لگتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنے اصل کام کو چھوڑ کر اب فتویٰ دینے اور فیصلہ سنانے یعنی عدالتی میدان میں اُتر آئی ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق "کسی فرد کو شرعی مجرم قرار دینا" یہ کسی بھی طور پر کونسل کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اگر مدعی اور مدعا علیہ، دونوں کی آراء و شواہد کو متوازن انداز میں نہ دیکھا جائے تو رائے دینا نہ صرف ناقص بلکہ متنازع ہو جاتا ہے۔ اس حساس دینی و قانونی مسئلے میں تحمل، تدبر اور انصاف کی زبان درکار تھی، نہ کہ ایسے الفاظ جو رائے کم اور فتویٰ زیادہ دکھائی دیں۔ مرزا کے کیس میں کونسل کا سخت لب و لہجہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاملہ صرف رائے کے اظہار کا نہیں بلکہ مشاورتی دائرہ کار سے تجاوز کرکے فتویٰ سنانے اور عدالتی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا بھی ہے۔ یہ واقعہ اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ مذہبی بیانیے کی تشکیل، مشاورت، قضاوت اور رہنمائی کا دائرہ کون لگائے اور علمی اختلاف و توہین کے درمیان لکیر کسے کھینچنی چاہیئے۔؟

میڈیا کے مطابق اسلامی کونسل نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سائبر کرائم ونگ کے مراسلہ بابت مرزا محمد علی انجینئر پر عائد ایف آئی آر توہین رسالت کا جائزہ لیا اور اس سے متعلق فیصلہ دیا۔ تاہم قانونی ماہرین اور اسلامی اسکالرز کے نزدیک اسلامی کونسل کسی قسم کا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں، یہ فقط ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ اس حوالے سے مجلس علمائے مکتب اہلبیت پاکستان کے صدر علامہ سید حسنین عباس گردیزی صاحب نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا تحقیقات یا فوجداری معاملات میں مداخلت کرنا یا کسی فردِ واحد کے خلاف شرعی یا فتویٰ نما رائے دینا، آئینی اختیارات سے تجاوز کے مترادف ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک معروف دینی اسکالر کے خلاف، جو اس وقت زیر تفتش ہے، ان کے خطابات اور تقاریر کو بنیاد بناتے ہوئے "گستاخی" کا فتویٰ نما اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس پیش رفت نے نہ صرف قانونی اور آئینی حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے، بلکہ دینی و فکری طبقات میں بھی شدید اضطراب نے جنم لیا ہے اور ایک زیر تفتش شہری کی زندگی بھی خطرے میں ڈال دی ہے۔

انہوں واضح کیا کہ آئینی دفعات کے مطابق کونسل کا بنیادی کام صرف یہ ہے کہ وہ موجودہ قوانین یا زیرِ غور مسوّدات کا قرآن و سنت کی روشنی میں تجزیہ کرے اور متعلقہ ریاستی اداروں کو رہنمائی فراہم کرے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ ایک ایسا ادارہ جس کا نصب العین امت کا اتحاد، شریعت کی روح کی حفاظت اور فہمِ دین کا فروغ ہونا چاہیئے، وہ اپنے نصب العین پر عمل درآمد کرتا نظر نہیں آرہا۔ یاد رہے کہ مجلس علمائے مکتب اہلبیت پاکستان "فقہ جعفری کے برجستہ علمائے کرام" پر مشتمل ایک نمایاں اور قومی سطح کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے صدر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی دباو میں یا تعصب میں یا کسی اور وجہ سے ادارے کے تشخص کو خراب نا کریں اور آئین کی دی گئی حدود کی پاسداری کریں، نیز شخصی فتوے جاری کرنے کی مثال قائم نہ کریں۔ انہوں نے صریحاً کہا ہے کہ کونسل کا کام مصالحت، اتحاد اور فکری رہنمائی ہے نہ کہ سیاسی یا ریاستی مقدمات میں فریق بننا۔ اگر یہی روش جاری رہی، تو کونسل اپنی آئینی و اخلاقی ساکھ کھو بیٹھے گی۔

مندرجہ بالا سطور اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل نہ ہی تو کسی کے خلاف فتویٰ سنانے کی مجاز ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف فیصلہ دینے کی۔ یعنی یہ ادارہ نہ ہی تو دارُالافتا ہے اور نہ ہی عدالت۔ کسی ایک یا دو مسالک کے فقہی قواعد اور مبانی کو بنیاد بنانا دراصل اس ادارے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔ ہماری دانست میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی صاحب ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں۔ انہیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ جب فکری اختلاف، انصاف کے دائرے سے نکل کر تعصّب، تکفیر اور تعزیر کے پیکر میں ڈھل جائے، تو علم کا وقار اور سماج کا توازن دونوں مجروح ہو جاتے ہیں۔ لہذا حکمت کا تقاضا ہے کہ ہم باہمی علمی اختلافات کو سمجھنے اور انہیں مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ علمائے کرام اور دانشمندوں کو  خاموش کرنے پر تُل جائیں۔

ہمارے نزدیک حقیقتِ حال یہ ہے کہ فقہی اصولوں میں ہر مکتب اپنا ہی عکس دیکھتا ہے اور ہر مفسّر اپنی ہی تفسیر کو درست مانتا ہے۔ ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلکی حدود سے ماورا ہو کر، دینِ اسلام کی روحانی و اخلاقی تعلیمات کو خالصتاً قرآنی اور نبویؐ تناظر میں سمجھنے کی سعی کرے۔ یہی روش ملک میں دینی شعور کے نمو کا سبب بنے گی اور کونسل کو اس کے اصل مقصد یعنی وحدتِ فکر اور حکمتِ شریعت سے ہمکنار کرے گی۔ ہر مکتبِ فکر فقہ میں اپنا عکس دیکھتا ہے اور ہر مفسر تفسیر میں اپنا یقین مگر حقیقت وہی ہے، جو مسالک سے بلند ہو کر وحی کی اصل روح سے ہم آہنگ ہو اور یہی وہ بصیرت ہے، جو ایک منصف مزاج نظریاتی کونسل کی پہچان بن سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینئر محمد علی مرزا فقہی اصولوں کہا ہے کہ کونسل کے میں اپنا کونسل کا کے مطابق انہوں نے ہے کہ وہ کے خلاف کے فقہی ہر مکتب

پڑھیں:

اسلامی نظریاتی کونسل نے رقم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار دے دیا

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 ستمبر2025ء ) اسلامی نظریاتی کونسل نے بینک سے رقم نکالنے یا منتقلی پر ود ہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار دے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 243ویں اجلاس کی صدارت چیئرمین علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے کی، جس میں کونسل کے معزز اراکین نے شرکت کرتے ہوئے کئی اہم فیصلوں کی منظوری دی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ود ہولڈنگ ٹیکس زیادتی کے مترادف ہے، انسانی دودھ کے حوالے سے قانون سازی میں کونسل کو شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

اسلامی نظریاتی کونسل نے دیت کے قانون میں ترمیم کی شقوں کی مخالفت کر دی، کونسل کے مطابق دیت کے قانون میں ترمیم کے لیے پیش کردہ بل سے اتفاق نہیں کرتے۔ کونسل کے مطابق دیت کی سونا چاندی اور اونٹ سے متعلق شرعی مقداریں قانون میں شامل رہنی چاہئے، بل میں چاندی کو حذف اور سونے کی غیر شرعی مقدار کو معیار بنایا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ شوگر کے مریضوں کے لیے حلال اجزا پر مشتمل انسولین دستیاب ہے، اس لیے خنزیر کے اجزا والی انسولین کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ کونسل نے مزید سفارش کی کہ عدالتوں میں شہادت کے لیے رکھے گئے قرآن پاک کے نسخے شہادت کے بعد پاک صاف کیے جائیں اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات
  • اسلامی نظریاتی کونسل نے انجنئیر محمد علی مرزا پر گستاخی کا الزام درست قرار دیدیا
  • اسلامی نظریاتی کونسل کا بڑا فیصلہ، انجینئر محمد علی مرزا گستاخی کے ملزم قرار
  •  اسلامی نظریاتی کونسل کا بڑا فیصلہ: ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار
  • اسلامی نظریاتی کونسل نے انجنیئر محمد علی مرزا کو گستاخ قرار دے دیا
  • اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینئرمحمد علی مرزا کو گستاخی کا ملزم قرار دے دیا
  • شوگر کے مریض خنزیر کے اجزا والی انسولین سے اجتناب کریں، اسلامی نظریاتی کونسل
  • اسلامی نظریاتی کونسل نے رقم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار دے دیا
  • اسلامی نظریاتی کونسل کا بڑا فیصلہ: دیت بل کی مخالفت، ودہولڈنگ ٹیکس غیر شرعی قرار