پاکستان کی غربت کا تسلسل ایک اجتماعی المیہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
معرکہ حق کے بعد پاکستان کے سفارتی تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے ۔روزانہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کا وفد بین الاقوامی سطح پر وہاں کے صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کر کے تجارتی معاہدے کر رہے ہیں۔ بظاہر تو پاکستان کی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن پاکستان کے غریب عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔پاکستان میں غربت کا مسئلہ ایک قومی المیہ بن چکا ہے ۔
عالمی بینک کی تازہ رپورٹ نے اس بحران کی سنگینی کو مزید اجاگر کر دیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر 25۔3 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 6کروڑ افراد افلاس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض اقتصادی تجزیہ نہیں بلکہ ان کے پیچھے لاکھوں گھروں کی ٹوٹی ہوئی امیدیں، بھوک سے بلکتے بچے ، بے روزگار نوجوان اور وہ مائیں ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہی ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان جیسے زرعی اور انسانی وسائل سے مالامال ملک کے لیے نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے ۔ورلڈ بینک کی رپورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ ترقیاتی ماڈل 2018 سے 2024 کے دوران غربت کی سطح میں خاطر خواہ کمی لانے کے لیے ناکافی ثابت ہوا ہے ۔ زراعت مسلسل سکڑ رہی ہے ، تعمیرات میں اجرتیں گر چکی ہیں، قرضے اور خسارے بڑھ رہے ہیں، سرمایہ کاری کمزور ہو گئی ہے اور طاقتور اشرافیہ پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے موڑ رہی ہے ۔ اس دوران لاکھوں نوجوان بہتر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہوئے جبکہ ٹرانسپورٹ، کمیونی کیشن اور مائننگ جیسے شعبے غریب عوام کے لیے روزگار پیدا کرنے میں ناکام رہے ۔ مقامی حکومتوں کی کارکردگی ناقص رہی اور ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر نچلے طبقے پر ڈالا گیا۔سیاسی عدم استحکام نے اس صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد تباہ ہوا اور کاروباری سرگرمیاں سکڑ گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ورلڈ بینک کے اعلیٰ عہدیداروں سے ناکام ترقیاتی ماڈل پر سوال کیا گیا تو ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ ”توبیاس حقے ”(Tobias Haque) جو ورلڈ بینک میں پاکستان کے لیے لیڈ کنٹری اکنامسٹ (Lead Country Economist) ہیں نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ غربت کا خاتمہ ایک کثیر جہتی عمل ہے جس میں میکرواکنامک استحکام، افراط زر میں کمی، آمدن میں اضافہ اور معیشت کو کھولنا شامل ہے ۔ ورلڈ بینک نے یہ وضاحت بھی کی کہ بین الاقوامی خطِ افلاس اور پاکستان کے قومی خطِ افلاس کا موازنہ درست نہیں۔ بین الاقوامی پاورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 45 فیصد ہے ، جبکہ سرکاری پیمانے کے مطابق یہ 25۔3 فیصد بنتی ہے ۔ اس فرق سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی معیار پر پاکستان کی غربت کہیں زیادہ شدید ہے ۔پاکستان میں غربت کے اس عذاب کی کئی جہتیں ہیں۔ سب سے پہلی وجہ معیشت کی وہ ساخت ہے جو زیادہ تر کھپت پر انحصار کرتی ہے اور پیداواریت یا صنعتی تنوع کی بنیاد پر کھڑی نہیں۔ جیسے ہی کوئی بحران آتا ہے ، یہ ڈھانچہ ہل کر رہ جاتا ہے اور سب سے پہلے غریب عوام اس کی زد میں آتے ہیں۔ زرعی شعبہ جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے ، جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری سے محروم ہے ۔ کسان آج بھی پرانے طریقوں پر محنت کرتے ہیں مگر ان کی محنت کا صلہ نہ تو مناسب قیمت کی صورت میں ملتا ہے اور نہ ہی بہتر سہولتوں میں۔ یہی وجہ ہے کہ خوراک پیدا کرنے والا کسان خود غربت کی لپیٹ میں رہتا ہے ۔اسی طرح صنعت اور خدمات کے شعبے میں پالیسیوں کی غیر یقینی کیفیت، توانائی بحران اور سرمایہ کاری کی کمی نے مواقع کم کر دیے ہیں۔ نوجوان جو تعلیم اور ہنر حاصل کرتے ہیں، انہیں موزوں نوکریاں نہیں ملتیں اور وہ یا تو بے روزگار رہ جاتے ہیں یا بیرون ملک جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ ہجرت بظاہر انفرادی مسئلہ لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ قومی ترقی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے کیونکہ ہنر مند افرادی قوت ملک چھوڑ کر چلی جاتی ہے ۔تعلیم اور صحت جیسے شعبے بھی غربت کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بچہ جب معیاری تعلیم سے محروم رہتا ہے تو اس کا مستقبل محدود ہو جاتا ہے ۔ وہ نہ بہتر ملازمت حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی اپنی زندگی کا معیار بلند کر پاتا ہے ۔ یہی غربت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے ۔ صحت کے شعبے میں ناقص سہولیات بیماریوں کو بڑھاتی ہیں، خاندانوں کو مزید قرض میں دھکیل دیتی ہیں اور ان کی مالی حالت تباہ کر دیتی ہیں۔ صاف پانی، نکاسی، بجلی اور رہائش جیسی بنیادی سہولتوں کی کمی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں زندگی کو اور زیادہ مشکل بنا دیتی ہے ۔غربت کے سماجی اثرات بھی کم نہیں۔ بھوک اور مایوسی جرائم میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔ چوری، ڈکیتی اور منشیات کے پھیلاؤ کی جڑیں اسی غربت میں پیوست ہیں۔ نوجوان جب مواقع سے محروم رہتے ہیں تو یا تو وہ مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یوں غربت نہ صرف معیشت کو تباہ کرتی ہے بلکہ سماجی تانے بانے کو بھی بکھیر دیتی ہے ۔علاقائی سطح پر بھی غربت کی تقسیم غیر مساوی ہے ۔
بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے دیہی علاقے شدید غربت کا شکار ہیں جہاں تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں انتہائی محدود ہیں۔ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ اس کے برعکس بڑے شہروں میں حالات نسبتاً بہتر ہیں لیکن مہنگائی نے وہاں بھی متوسط طبقے کو متاثر کیا ہے ۔ آج کا مڈل کلاس خاندان بھی غربت کے قریب پہنچ رہا ہے کیونکہ آمدن اور اخراجات میں فرق بڑھتا جا رہا ہے ۔عالمی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی صورتحال بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہے ۔ بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ، خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت اور سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے غربت میں نمایاں کمی کی۔ بھارت نے بھی آئی ٹی اور سروس سیکٹر میں سرمایہ کاری کر کے روزگار کے مواقع پیدا کیے ۔ اس کے برعکس پاکستان اب بھی معاشی بدانتظامی، سیاسی عدم استحکام اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ۔پاکستان اگر اس بحران سے نکلنا چاہتا ہے تو فوری اور سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلا قدم انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری ہے ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو مضبوط بنائے بغیر غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہر بچے کو معیاری تعلیم اور ہر خاندان کو صحت کی بنیادی سہولت میسر ہونی چاہیے ۔ اسی طرح سماجی تحفظ کے نظام کو مؤثر اور وسیع کرنا ہوگا تاکہ بحران کے وقت کمزور طبقے کو سہارا مل سکے ۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے اقدامات کو مزید شفاف اور مضبوط بنایا جائے ۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی لازمی ہے ۔ صنعت اور خدمات کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائی جائے ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو سہولت دی جائے اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے پروگرام شروع کیے جائیں۔ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی، بہتر بیج، کھاد اور آبپاشی کے نظام سے مستحکم کیا جائے تاکہ کسان زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں اور ان کی آمدن بڑھے ۔مالیاتی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ ٹیکس نظام کو منصفانہ بنایا جائے تاکہ بوجھ صرف نچلے طبقے پر نہ پڑے ۔ غیر ضروری سبسڈیز ختم کر کے بچت غربت کے خاتمے کے منصوبوں پر لگائی جائے ۔ اشرافیہ کی مراعات کم کر کے وسائل کو عام عوام تک پہنچایا جائے ۔پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہونا ہوگا۔ 2022کا سیلاب اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی آفات لاکھوں افراد کو چند دنوں میں غربت میں دھکیل سکتی ہیں۔ مضبوط انفراسٹرکچر، بہتر حکمت عملی اور کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے اقدامات کو قومی ترجیح دی جائے ۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی انصاف کا سوال ہے ۔ جب کروڑوں عوام غربت میں جکڑے ہوں تو یہ ریاست کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ پاکستان کو اب ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو عوامی مرکزیت پر مبنی ہوں، جن میں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کو اولین حیثیت دی جائے ۔ اگر آج ہم نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو غربت مزید بڑھتی جائے گی اور آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہمت اور نیت کے ساتھ یہ اقدامات کیے گئے تو غربت کے شکنجے کو توڑ کر ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان میں غربت سرمایہ کاری پاکستان کی پاکستان کے ورلڈ بینک تعلیم اور جاتے ہیں کو مزید غربت کی غربت کے غربت کا اور ان ہے اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان خطے کا سب سے غریب ملک قرار
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 ستمبر2025ء) پاکستان خطے کا سب سے غریب ملک قرار، 3 سالوں میں غربت میں تشویش ناک اضافہ، 45 فیصد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان خطے میں غربت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا جہاں 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غربت کی اوسط شرح 27.7 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 23.9 فیصد اور بنگلا دیش میں 24.4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں غربت کی بلند سطح کے ساتھ ساتھ 16.5 فیصد آبادی یعنی تقریباً 4 کروڑ 12 لاکھ افراد روزانہ کی بنیاد پر 900 روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کیے بغیر غربت پر قابو پانا مشکل ہو گا، پاکستان میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 2.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ ایک عورت اوسطاً 4 بچے پیدا کر رہی ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2019 تک 42 فیصد تک پہنچ گئی تھی، خیبرپختونخوا میں یہ شرح 30 فیصد، سندھ میں 25 فیصد سے کم اور پنجاب میں 15 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی بینک نے موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی تشویشناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 8 فیصد حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2024 کے دوران 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے حصول کے لیے ملک چھوڑ گئے جبکہ تعلیم کی کمی کے باعث پاکستان کے بچے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بنیادی مہارتوں میں بھی پیچھے ہیں اور سادہ ٹیکسٹ پیغامات تک پڑھنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی جیسے مسائل اگر فوری طور پر حل نہ کیے گئے تو پاکستان کو مستقبل میں مزید معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔