Jasarat News:
2025-10-04@17:02:04 GMT

برطانیہ:کئر اسٹارمر کی حکومت سیاسی بحران کا شکار

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250930-06-16
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) برطانیہ کے وزیرِاعظم اور لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر نے لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں کہا ہے کہ پارٹی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی درپیش ہے۔ انہیں دائیں بازو کی نئی سیاسی جماعت ریفارم یوکے کا مقابلہ ہر حال میں کرنا ہوگا۔ اسٹارمرکی لیبر پارٹی جولائی 2024 میں 14 سال بعد لیبر پارٹی اقتدار میں آئی تھی،جو اب اندرونی اختلافات، حکومتی اسکینڈلز اور گرتی ہوئی مقبولیت کے باعث شدید دباؤ میں ہے۔ تازہ سروے کے مطابق ریفارم پارٹی لیبر سے 12 پوائنٹس آگے ہے جبکہ اسٹارمر کی عوامی مقبولیت 1977 ء سے کسی بھی برطانوی وزیراعظم کے لیے سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہاکہ ہمیں ریفارم کا مقابلہ کرنا ہے اور انہیں شکست دینی ہے۔ اس کے اثرات نسلوں تک رہیں گے۔ اسٹارمر نے ریفارم کے مہاجرین کے خلاف سخت ویزا قوانین کو نسل پرستانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ منصوبہ ملک کو توڑ دے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم کو داخلی مسائل کے ساتھ معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ برطانیہ کی سست معیشت کے باعث ٹیکس بڑھانے والا بجٹ متوقع ہے جبکہ حالیہ فیصلوں پر پارٹی کے بائیں بازو کے ارکان ناراض ہیں۔ ڈپٹی وزیراعظم اینجلا رینر کے استعفے اور واشنگٹن میں برطانیہ کے سفیر پیٹر مینڈلسن کو برطرف کرنے کے فیصلے نے اسٹارمر کی قیادت پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس سے قبل ایک کانفرنس میں آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانی نے اسٹارمر کی حمایت میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشکل راستہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں آگے لے جاتا ہے۔ اسٹارمر آج اپنا کلیدی خطاب کریں گے جہاں وہ آئندہ الیکشن کو لیبر پارٹی اورریفارم کے درمیان معرکہ قرار دیں گے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: لیبر پارٹی اسٹارمر کی

پڑھیں:

متاثرین کو بیانات نہیں، فوری امداد چاہیے

سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہونے والے افراد کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے سیاسی بیانات نے مزید پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور سیاسی تشہیر کے لیے سیاسی رہنماؤں کی تصاویر کے کارڈ ان کی امداد میں تاخیر کا سبب بن گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چاہتے ہیں کہ ان کی شہید رہنما بے نظیر بھٹو کے نام پر جو انکم سپورٹ پروگرام ملک بھر میں 2008 سے چل رہا ہے۔

 اسی کے مطابق سیلاب متاثرین کو فوری امداد دی جائے جب کہ مسلم لیگ (ن) والوں کا موقف ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پنجاب کے سیلاب متاثرین کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ متاثرین کی ضرورت دس بارہ ہزار سے پوری نہیں ہو سکتی۔ پنجاب کے جو علاقے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں وہاں بڑی تعداد میں گھر تباہ، فصلیں برباد اور ان کے لاکھوں روپے کے جانور ہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں متاثرین حکومت کے ریلیف سینٹروں میں اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں جن کے تباہ حال گھر رہنے کے قابل نہیں ہیں اور ہر متاثرہ خاندان کو اپنی ضرورت کے مطابق امداد چاہیے جو حکومت پنجاب انھیں فراہم کرے گی۔

بے نظیر کے نام پر پیپلز پارٹی نے اپنی گزشتہ حکومت میں یہ پروگرام شروع کیا تھا جس کا بڑا مقصد سیاسی تھا کیونکہ اس پروگرام کے تحت مستحقین کو جو امداد مل رہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مطابق ہے مگر ہمارے کرپٹ افسروں نے غریبوں کی برائے نام امداد کے اس پروگرام کو بھی نہیں بخشا تھا اور انھوں نے اپنی بیگمات کے نام مستحق غریبوں کی فہرستوں میں شامل کرکے یہ امداد وصول کی اور جب اس فراڈ کا انکشاف ہوا تو حکومت نے سیاسی مفاد کے لیے ان افسروں اور ان کی بیگمات کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔

ایسے افسروں کو برطرف ہونا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کرنا تھا، اس لیے ایسے افسروں کے نام چھپائے گئے جن کی امیر بیگمات نے غریب بن کر یہ امداد ہڑپ کی تھی۔ حکومت نے ان بیگمات سے کہا کہ وہ وصول شدہ رقم واپس جمع کرا دیں انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

افسروں اور ان کی بیگمات کی یہ حرکت قابل سزا بنانے کے بجائے انھیں خصوصی رعایت دی گئی۔ بی ایس آئی ایس پروگرام کا زیادہ فائدہ غیر مستحقین کو تو ہوا ہی مگر یہ رقم جن کا حق تھا ان کو بھی پوری رقم نہ ملنے کی شکایات عام ہیں اور حکومت کوشش کے باوجود اصل مستحقین کو پوری رقم دلوانے میں ناکام رہی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے حال ہی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو فراڈ قرار دیا ہے اور دیگر سیاسی و عوامی حلقے بھی اس پروگرام سے مطمئن نہیں مگر پیپلز پارٹی مطمئن ہے اور شہباز حکومت سے ہر سال بجٹ میں اس پروگرام کی رقم بڑھواتی رہی ہے کیونکہ پی پی کا اس میں سیاسی فائدہ ہے اور جو خواتین اس پروگرام سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں وہ زیادہ تر پی پی کی حامی ہیں اور پی پی اس پروگرام کو مزید بڑھانا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی نے اپنی رہنما کے نام پر یہ پروگرام شروع کیا تھا جس پر بے نظیر بھٹو کی تصویر نمایاں ہے اور خواتین کی مدد کے اس پروگرام کے لیے حکومت بجٹ میں رقم مختص کرتی ہے جس کا سیاسی فائدہ بھی پیپلز پارٹی اٹھا رہی ہے جس میں دیگر جماعتوں کو اعتراضات بھی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت غریب خواتین کی کچھ مدد ہو جاتی ہے مگر یہ پروگرام سیلاب متاثرین کے لیے واقعی ناکافی ہے۔ اس پروگرام سے مالی مدد حاصل کرنے والوں کی فہرستیں بنی ہوئی ہیں جس پر عمل ہوتا آ رہا ہے۔ 2022 میں بھی سیلاب آیا تھا اور 2025 میں بھی آیا ہے مگر صورتحال مختلف ہے۔

پہلے پنجاب کے بعض اضلاع متاثر ہوئے تھے مگر اس بار پنجاب میں سیلاب سے تباہی زیادہ اور سندھ میں کم ہوئی ہے۔ پنجاب سے قبل کے پی میں سیلاب سے جو تباہی ہوئی تھی اس وقت پی پی رہنماؤں نے بے نظیر پروگرام سے متاثرین کی مدد کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور اب یہ مطالبہ پنجاب حکومت سے کیا گیا ہے۔ کے پی حکومت نے پنجاب اور سندھ کی امدادی پیشکش کے جواب میں ان کی مدد نہیں لی تھی اور کہا تھا کہ اپنے وسائل سے ہم کے پی کے متاثرین کو آباد کریں گے۔

پنجاب بڑا صوبہ ہے جس کے مالی وسائل زیادہ ہیں اور حکومت پنجاب اسی نام سے متاثرین کی ان کی ضروریات کے مطابق امداد اور آبادکاری چاہتی ہے اور ممکن ہے اس کارڈ پر وزیر اعلیٰ کی تصویر بھی ہو جس پر سیاسی اعتراض ضرور ہوگا اس لیے اس سے گریز بہتر ہوگا مگر وزیر اعلیٰ پروگرام پر فوری عمل ضروری ہے۔ پنجاب کے کسانوں کو گندم کی کاشت کے لیے فوری حکومتی مدد چاہیے تاکہ آنے والی فصل متاثر نہ ہو۔

پنجاب کے سیلاب متاثرین ایک ماہ سے بے گھر اور پریشان ہیں انھیں فوری امداد چاہیے مگر سیاسی بیانات ان کی امداد میں تاخیر پیدا کر رہے ہیں۔ انھیں سیاسی بیانات یا امدادی کارڈز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امدادی کارڈ کسی کی بھی تصویر کے ہوں یا بغیر تصویر ان کی ضرورت نہیں بلکہ عملی طور پر امداد کی فراہمی ان کی فوری اور حقیقی ضرورت ہے وہ مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے پنجاب حکومت متاثرین کو عملی طور فوری امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے سیاستی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات میں نگرانی اختیار مانگ لیا
  • جاپان کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیراعظم بننے جا رہی ہیں
  • آزاد کشمیر بحران حل ہوگیا، حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی معاہدے پر متفق
  • نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکریٹری قاسم جمال کورنگی انڈسٹریل ایریا میں انڈس فارما یونین کے محنت کشوں کو غزہ ملین مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں
  • چیئر مین سینٹ کی پیپلز پارٹی کی خواتین اراکین اسمبلی سے ملاقات،صوبہ کی سیاسی صورتحال گفتگو
  • یوسف رضا گیلانی کی پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین سے ملاقات،صوبہ کی سیاسی صورتحال پرگفتگو
  • بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
  • فلوٹیلا پر حملے کی ذمے داری امریکی حکومت ہے‘فلسطین فاؤنڈیشن
  • امریکا میں شٹ ڈاؤن: لاکھوں ملازمین فارغ، بحران شدید ہوگیا
  • متاثرین کو بیانات نہیں، فوری امداد چاہیے