بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
بلوچستان میں سنہ 1972 سے لے کر آج تک سیاسی تاریخ زیادہ تر مخلوط حکومتوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ صوبے میں کبھی کسی بڑی سیاسی جماعت کو اکیلے حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا بلکہ مختلف جماعتوں کے اتحاد اور سیاسی سمجھوتوں سے حکومتیں قائم ہوئیں تاہم بیشتر مخلوط حکومتیں اختلافات، گورنر راج یا مرکز صوب کشیدگی کے باعث اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہیں۔
پہلی مخلوط حکومتبلوچستان کی پہلی مخلوط حکومت اپریل 1972 میں بنی جب نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اتحاد کر کے سردار عطا اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
یہ حکومت تعلیم، صحت اور زرعی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی لیکن مرکز کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔
حکومت پر الزام لگا کہ وہ غیر ملکی اسلحہ کے ذریعے صوبے کو آزاد کرانے کی سازش کر رہی ہے۔ یوں صرف 9 ماہ بعد فروری 1973 میں یہ حکومت برطرف کر دی گئی اور صوبے میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔
سنہ 1989: نواب اکبر بگٹی کی وزارت عالیہسنہ 1989 میں نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی حکومت میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور آزاد ارکان شامل تھے لیکن چند ہی ماہ بعد اختلافات شدت اختیار کر گئے۔
مزید پڑھیے: بلوچستان: مائنز اینڈ منرلز بل پر اتفاق رائے کی کوششیں، وزیر اعلیٰ کی اسمبلی میں تفصیلی وضاحت
بگٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے، مرکز کے ساتھ بھی تصادم ہوا اور آخرکار صرف 14 ماہ بعد اس حکومت کا خاتمہ ہوا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔
سال 1990: ظفراللہ جمالی وزیراعلیٰ بن گئےسنہ 1990 کے عام انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ جمالی وزیراعلیٰ بنے لیکن وہ ایوان میں اکثریت ثابت نہ کر سکے اور ان کی حکومت صرف 22 دن کے اندر ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر اسمبلی بحال ہوئی اور نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے مگر یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اندرونی اختلافات اور اتحادیوں کی بغاوت کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی۔
الیکشن 1997: سردار اختر مینگل نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالاالیکشن1997 میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی جماعت بی این پی نے جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد وہ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے اور استعفیٰ دینا پڑا۔
ان کے بعد میر جان محمد جمالی وزیراعلیٰ بنے مگر سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور یوں یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔
وہ حکومت جس نے 5 سالہ مدت پوری کیسنہ 2002 میں پہلی بار بلوچستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت بنی جس نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی۔ وہ دور پرویز مشرف کے زیر سایہ تھا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت
جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بنے اور مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل نے اتحاد کیا۔ اس حکومت میں اتحادی اختلافات ضرور تھے لیکن وفاق کی پشت پناہی اور مشرف دور کے غیر معمولی کنٹرول نے حکومت کو گرنے سے بچائے رکھا۔ یوں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مخلوط حکومت نے اپنی مدت مکمل کی۔
سنہ 2008: نواب اسلم رئیسانی اور پھر گورنر راجسنہ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی جس میں بلوچستان اسمبلی میں اس وقت 62 اراکین جن میں ق لیگ کے 20 میں سے 19، جمعیت علماء اسلام کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، نیشنل پارٹی پارلیمینٹیرین کے ایک اور 9 آزاد اراکین نے نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کی اور یوں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔
نواب اسلم رئیسانی کا حکومتی دور تقریباً 4 سال چلا لیکن کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے پے در پے 2 دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باعث صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔
انتخابات 2013سنہ2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایک منفرد پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل ہوا۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے معاہدے کے تحت حکومت بنائی۔
طے پایا کہ ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ رہیں گے اور باقی مدت مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئے گی۔ یہی ہوا پہلے عبدالمالک بلوچ نے اقتدار سنبھالا اور پھر نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان حکومت اور پاکستان ریلویز کا پیپلز ٹرین سروس شروع کرنے پر اتفاق
نواب ثناء شہری بھی اپنا دور مکمل نہ کر پائے اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سنہ 2018: پی ٹی آئی اور باپ پارٹی کی حکومتسال2018 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) وجود میں آئی اور اس نے پی ٹی آئی اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے لیکن ان کے خلاف اپنی جماعت کے اندر ہی اختلافات شدید ہو گئے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔
ان کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے اور باوجود اس کے کہ حکومت میں بار بار بحران پیدا ہوئے، اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کر لی۔
گزشتہ انتخابات اور موجودہ وزیراعلیٰسنہ2024 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں نے ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل دی۔ میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ ہیں۔
موجودہ حکومت مائنز اینڈ منرلز ایکٹ، ایوی ایشن ڈویلپمنٹ پلان اور روزگار پروگرام پر کام کر رہی ہے تاہم حکومت کو اندورنی اختلافات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
بلوچستان کی نصف صدی پر محیط تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومتیں ناگزیر ہیں لیکن بار بار ناکام ہونے کی بڑی وجہ مرکز اور صوبے کے درمیان عدم اعتماد اور اتحادی جماعتوں کے باہمی اختلافات رہے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اگر موجودہ حکومت بھی سیاسی استحکام برقرار رکھ پائی تو یہ صوبے کے عوام کے لیے ترقی اور استحکام کی نئی مثال قائم کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان حکومت بلوچستان کی حکمران جماعتیں بلوچستان کے حکمران اتحاد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان حکومت بلوچستان کی حکمران جماعتیں بلوچستان کے حکمران اتحاد انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی بلوچستان کی مخلوط حکومت نیشنل پارٹی حکومت میں گورنر راج مدت پوری یہ حکومت مسلم لیگ کے ساتھ ماہ بعد
پڑھیں:
ہم بند کمروں میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کی حکومت نہیں چلائیں گے: بلاول بھٹو زرداری
’جیو نیوز‘ گریبچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہم بند کمروں میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کی حکومت نہیں چلائیں گے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کے عوام کو مبارک باد دیتا ہوں، اب کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے کشمیر میں سیاست کو بحال کیا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کشمیر سے پیپلز پارٹی کا 3 نسلوں کا رشتہ ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر مظفرآباد اور سری نگر میں بھی احتجاج ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو نے بتایا تھا جہاں کشمیریوں کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون گرے گا، پیپپلز پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر بانی پی ٹی آئی کو اقتدار دیا گیا تھا۔
فیصل ممتاز راٹھور کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ میں خود انتخابات میں آپ کے پاس آیا تھا، آپ نے اور گلگت بلتستان نے مایوس نہیں کیا، جتنا سیاسی شعور کشمیر میں ہے اتنا کہیں نہیں، کشمیر کے عوام جب سراپا احتجاج تھے تو فیصل راٹھور اس کو بھی دیکھ رہے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فیصل راٹھور نے عوام سے جو وعدے کیے وہ میرے پاس آپ کی امانت ہیں، فیصل راٹھور کے اختیار میں عوامی مسائل وہ حل کریں، آپ نے عوام سے کیے وعدے پورا کرنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کا نمائندہ آپ کی نمائندگی نہیں کرسکتا تو عوام کو خود جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اب مظفرآباد میں آپ کا نمائندہ فیصل راٹھور ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت سے جنگ کے بعد پاکستان کا اسٹینڈرڈ سب کے سامنے ہے۔ بھارت منہ چھپا رہا ہے دنیا سے، بھارت کس سے بات کرے گا، امریکا سے لے دیگر ممالک انہیں یاد دلائیں گے 7 جہاز گرے تھے، بھارت پاکستان اور کشمیر کا جو بھائی چارہ ہے اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی اپنا منہ دنیا سے چھپا رہا ہے، دنیا کا کوئی فورم ہو بھارت وہاں سے بھاگ رہا ہے، مودی سرکار کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ جنگیں بھی ہارے اور اب سازش بھی ہارو گے۔