لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) تحریک انصاف نے معین ریاض قریشی کو  پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کردیا۔ 

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق پنجاب اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر  احمد خان بچھر کی نااہلی کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے نئے اپوزیشن لیڈر کیلئے معین ریاض قریشی کو نامزد کیا ہے۔ 

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ احمدخان بچھر اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور انہیں پوری پی ٹی آئی کی تائید حاصل ہے۔ 

واضح رہے 9 مئی کیس میں ملک احمدخان بچھر کی سزا اور  نااہلی کے بعد سے  پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خالی تھا۔

ویڈیو: چین-امریکہ تجارتی مذاکرات، کیا کوئی نتیجہ نکلا؟ ٹک ٹاک کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوا؟ آپ بھی جانیے

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی

پڑھیں:

فلسطین: جنرل اسمبلی سے ٹرمپ منصوبے تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251002-03-6
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس بظاہر دنیا کے معمول کے سفارتی اجتماع کی ایک اور قسط تھا، مگر اس بار جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ غیر معمولی اور تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ دہائیوں سے دبے ہوئے مسائل، مسخ شدہ سچائیاں اور دنیا کے طاقتوروں کی منافقت اس اجلاس میں کھل کر سامنے آئی۔ فلسطین کے مسئلے پر جو لہریں اٹھیں، انہوں نے اسرائیل کے استبداد کو بے نقاب کیا اور دنیا کے مختلف خطوں سے نئی امید کی کرن بھی دکھائی۔ اجلاس کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب شام کے صدر احمد الشرع نے پہلی بار جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ تقریباً ساٹھ برس بعد کسی شامی صدر کی واپسی تھی۔ ان کے خطاب میں صرف ایک ریاستی موقف نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ کی جھلک تھی۔ انہوں نے کہا کہ شام چھے دہائیوں تک ایک جابر نظام کے سائے میں رہا، جہاں ایک ملین انسان قتل ہوئے، دو ملین سے زائد گھر اجڑے اور عوام کو آزادی کے لیے خون دینا پڑا۔ احمد الشرع نے دنیا کو یاد دلایا کہ آج کا شام جبر و استبداد کے سائے سے نکل کر انصاف اور تعمیر ِ نو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صدر نے اپنے خطاب میں شہداء کی ماؤں، لاپتا افراد کے لواحقین اور مظلوم عوام کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ الفاظ ایک ایسے شام کی عکاسی کرتے ہیں جو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک نئی ریاستی تشکیل کا خواہاں ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ شام بات چیت اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، مگر ساتھ ہی پابندیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرایا کہ اقتصادی و سیاسی دباؤ کسی بھی ریاست کو جھکانے کا پائیدار حل نہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر احمد الشرع نے اہل ِ غزہ کی بھرپور حمایت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ موقف شام کی نئی قیادت کو خطے کی مزاحمتی سیاست سے جوڑتا ہے۔

اسی اجلاس میں کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کی تقریر نے سفارتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ انہوں نے اسرائیل کو نازیوں سے تشبیہ دی اور مطالبہ کیا کہ ایشیائی ممالک ایک بین الاقوامی فوج تشکیل دیں جو فلسطین کے دفاع کے لیے کھڑی ہو۔ یہ بیانات محض الفاظ نہیں تھے بلکہ مغرب کے استحصالی رویے پر کھلا چیلنج تھے۔ پیٹرو نے دوٹوک کہا کہ اسرائیل کو اسلحہ لے جانے والا کوئی جہاز اب نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ یہ وہی کولمبیا ہے جو ماضی میں امریکی پالیسیوں کا قریب ترین اتحادی رہا، مگر آج اس کے صدر نے فلسطین کے حق میں وہ بات کی جس کی جرأت بڑے بڑے مسلم حکمران بھی نہیں کر پاتے۔ یہ عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کے بدلنے کا اشارہ ہے۔

اسی اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تقریر بھی ایک تاریخی حوالہ بن گئی۔ انہوں نے کہا: ’’ہم صرف رکوع میں جھکتے اور سجدے میں گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نہ کبھی جھکتے ہیں اور نہ گھٹنے ٹیکتے ہیں‘‘۔ یہ جملے صرف خطابت نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اجتماعی غیرت کو جھنجھوڑنے والے پیغام تھے۔ اردوان نے دو ریاستی حل کی بحث میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کو آزادی کی تحریک قرار دیا اور کہا کہ اسے دہشت گردی کا نام دینا ظلم ہے۔ ان کا یہ مؤقف امت کی سب سے مضبوط اور واضح آواز کے طور پر ابھرا، کیونکہ باقی بیش تر مسلم حکمران خاموشی یا مصلحت پسندی کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔

ان تقاریر کے شور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبہ بھی زیر ِ بحث رہا۔ اسے ’’شہر عزیمت منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، جو بظاہر غزہ کی تعمیر ِ نو اور جنگ بندی پر مبنی ہے مگر دراصل یہ ایک سازش ہے تاکہ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے مفادات کا مہرہ بنایا جا سکے۔ منصوبے کے اہم نکات میں یہ شامل ہے کہ غزہ کی تعمیر نو خلیجی دولت سے ہوگی، خلیجی افواج تعینات ہوں گی، اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے گی جس میں مزاحمتی قوتوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ منصوبہ صاف طور پر اسرائیل کے حق میں ہے، کیونکہ اس میں نہ جنگ بندی کی ضمانت ہے، نہ آبادکاری روکنے کا کوئی ذکر، نہ القدس کے تحفظ کی کوئی شق۔ گویا یہ غزہ کے عوام کو ایک نئے قید خانے میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی فارمولے پر ووٹنگ بھی جاری ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ یہ فارمولا کمزور اور غیر مؤثر ہے، مگر پھر بھی اسرائیل اور ٹرمپ دونوں اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ہدف فلسطینی ریاست کو کسی نہ کسی بہانے سبوتاژ کرنا ہے۔ اسی تناظر میں ’’اعلانِ نیویارک‘‘ سامنے آیا، جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں حماس کی حکمرانی ختم کی جائے، ہتھیار ضبط ہوں اور فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ ساتھ ہی فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا کی بات کی گئی۔ یہ اعلامیہ بظاہر فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش رفت دکھاتا ہے مگر اس کے اندر وہی پرانی سازشیں چھپی ہیں۔ غیر مسلح ریاست کی جھلک نمایاں ہے، جسے فلسطینی کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ حماس نے اگرچہ عالمی کانفرنس کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ اسرائیل کو مستقل جنگ بندی اور مکمل انخلا پر مجبور کیا جائے۔

یہ ساری صورتِ حال فلسطین کے گرد امید اور خوف کے دھارے بہا رہی ہے۔ ایک طرف دنیا کے بڑے ممالک؛ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، ڈنمارک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی اور جرمنی ابھی باقی ہیں۔ یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، جس نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ مگر دوسری طرف امریکی اور اسرائیلی ضد اس خواب کو حقیقت بننے سے روک رہی ہے۔ غیر مسلح فلسطینی ریاست کا تصور مزاحمتی تحریک کے لیے ناقابل ِ قبول ہے۔ کیونکہ ایسی ریاست دراصل ایک جیل ہوگی جس پر اسرائیل ہر وقت حملہ آور ہو سکے گا۔

اہل ِ غزہ کی قربانیاں اس سارے منظرنامے کی اصل بنیاد ہیں۔ اگر وہ کفن باندھ کر میدان میں نہ نکلتے تو فلسطین کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں دب جاتا۔ آج فلسطین دنیا کے ایجنڈے پر ہے تو اس کی قیمت لاکھوں شہداء اور لاکھوں زخمیوں نے چکائی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی فرانس اور برطانیہ تھے جنہوں نے جنگ ِ عظیم دوم کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے حصے بخرے کیے اور اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔ آج وہی ممالک فلسطینی ریاست کی حمایت پر مجبور ہیں۔ یہ تاریخ کا پلٹا ہوا ورق ہے۔ مظلوم کی آہ اور خون کی لالی آخر کار عالمی سیاست کے رنگ بدل دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا حالیہ اجلاس یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب دنیا کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔ شام کی نئی قیادت کی واپسی، کولمبیا کے صدر کی جرأت مندانہ تقریر، اردوان کا دو ٹوک مؤقف، ٹرمپ کے سازشی منصوبے کی مخالفت اور فلسطین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت۔ یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ تاریخ ایک نئے موڑ پر ہے۔

مگر امتحان ابھی باقی ہے۔ خلیجی ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل کے مہرے بنیں۔ مغرب فلسطین کو ایک غیر مسلح ریاست کے خول میں بند کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں امت مسلمہ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ خاموش تماشائی بنی رہے گی یا اہل ِ غزہ کے لہو کا قرض اتارے گی۔ دنیا نے سفارتی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے، مگر حقیقی آزادی تبھی آئے گی جب فلسطین کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں گے، نہ کہ عالمی طاقتیں۔ اہل ِ غزہ نے اپنے لہو سے دنیا کو جگایا ہے۔ اب دنیا کے ایوانوں میں فلسطین کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صدائیں محض سفارتی شور ثابت ہوں گی یا ایک آزاد فلسطین کی اذان میں ڈھل جائیں گی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا، مگر تاریخ کے صفحات پر فلسطین کے حق میں لکھا جا چکا ہے۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • محمود اچکزئی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کیلیے دوبارہ نامزد
  • پی ڈی ایم اے نے پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا فلڈ سروے جاری کردیا
  • پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ: دفاتر میں روایتی فائل سسٹم ختم، تمام کارروائی ڈیجیٹل نظام پر منتقل
  • محمود خان اچکزئی کا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کا ایک بار پھر امکان
  • سندھ بلڈنگ ،اسکیم 33میں غیر قانونی تعمیرات کا طوفان
  • مریم نواز کے بیانات کیخلاف پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی سے واک آؤٹ
  • مریم نواز نے پیپلز پارٹی کا معافی مانگنے کا مطالبہ مسترد کردیا
  • ن لیگ سے لفظی جنگ:پیپلز پارٹی نے اہم فیصلہ کر لیا
  • فلسطین: جنرل اسمبلی سے ٹرمپ منصوبے تک
  • لاڑکانہ ،اسسٹنٹ کمشنر راجا خان قریشی کی زیرنگرانی ریشم گلی مارکیٹ میں تجاوزات کیخلاف آپریشن ہورہا ہے