چین کا قومی دن ،خاندان اور ملک کے لئے جذبات کی حقیقی ترجمانی WhatsAppFacebookTwitter 0 30 September, 2025 سب نیوز

بیجنگ : چینیوں کے لیے یکم اکتوبر کا قومی دن سال کا ایک اہم وقت ہے، جب چینی لوگ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی سالگرہ مناتے ہیں، تاریخ کو یاد کرتے ہیں اور مستقبل کی جانب دیکھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، چینیوں کے قومی دن منانے کے طریقے بدلتے رہے ہیں، لیکن ان میں پنہاں خاندان اور ملک کے لئے جذبات ہمیشہ یکساں رہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین قائم ہونے کے ابتدائی دور میں، قومی دن کی تقریبات پروقار مگر نسبتاً سادہ ہوا کرتی تھیں۔ 1950 سے 1959 تک، ہر سال بڑے پیمانے پر جشن اور پریڈ کا انعقاد ہوتا تھا، جس میں ملک کی فوجی طاقت اور تعمیری کامیابیوں کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ 1960 سے 1970 تک، تھیان آن من اسکوائر پر بڑے پیمانے پر اجتماعات اور عوامی مارچ کا انعقاد کیا جانے لگا۔ 1971 سے 1983 تک، بیجنگ اور دیگر اہم شہروں میں بڑے پیمانے پر گارڈن پارٹیوں اور دیگر تقریبات کے ذریعے قومی دن منایا جانے لگا۔

میرے بچپن کی یادوں میں، ہر قومی دن کے موقع پر مرکزی سڑکیں پھولوں اور جھنڈیوں سے سجائی جاتی تھیں اور قومی دن پر لوگ نئے کپڑے پہن کر پارکوں میں جمع ہوتے، ثقافتی پروگرام دیکھتے، باغات میں گھومتے اور پھولوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ 1984 میں قومی دن کی 35ویں سالگرہ سے شروع ہو کر، ہر چند سال بعد شاندار فوجی پریڈ اور عوامی جشن کے مارچ منعقد کیے جانے لگے، جن میں دنیا کے سامنے چین کی ترقی اور پیشرفت کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔

آج کل، قومی دن منانے کے طریقے زیادہ متنوع ہو گئے ہیں۔ تھیان آن من اسکوائر پر پرچم کشائی کی تقریب اب بھی پورے ملک کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ ہر سال قومی دن کے موقع پر ، ملک بھر سے لوگ اسکوائر کے ارد گرد جمع ہو کر اس پر وقار لمحے کا انتظار کرتے ہیں۔ جب پانچ ستاروں والا پرچم قومی ترانے کے ساتھ بلند ہوتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں وطن کی محبت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ قومی دن کے موقع پر منعقد ہونے والی قومی تمغوں اور اعزازات کی تقریب ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، جنہوں نے ملک کے لیے شاندار خدمات سرانجام دی ہیں، اور ان کی کہانیاں دوسروں کو محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ چینی عوام کے لیے قومی دن خاندان سے ملنے کا وقت بھی ہے۔

لوگ چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقوں میں واپس آتے ہیں، اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہیں۔ عوام کے معیار زندگی میں بہتری کے ساتھ، سیاحت بھی قومی دن کے دوران جشن منانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ آج کل، زیادہ سے زیادہ لوگ قومی دن کی چھٹیوں میں سیر سپاٹے اور گھومنے پھرنے کے لیے نکلتے ہیں، وطن کے خوبصورت مناظر دیکھتے ہیں، دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور مختلف خطوں کی ثقافتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خاص طور پر، سرخ سیاحت (ریڈ ٹورزم) نے حالیہ برسوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ لوگ انقلابی مقامات کا دورہ کرتے ہیں، سرخ تھیم پر مبنی نمائشوں میں شرکت کرکے انقلابی ورثے کو یاد کرتے ہیں اور اپنے خاندان اور ملک کے لئے جذبات کو مضبوط کرتے ہیں۔

قومی دن کے دوران، چینی عوام میں خاندان اور ملک کے جذبات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بزرگ نسل نے ملک کے مشکل دور کا سامنا کیا تھا، اور وہ قومی دن کو تاریخ کے احترام اور مستقبل کی امید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ماضی کی کہانیاں سناتے ہوئے اپنے جذبات اگلی نسل تک منتقل کرتے ہیں۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر “قومی دن کا جوش” شیئر کرتی ہے—پرچم والے کپڑے پہنتی ہے، شہر میں لگائے گئے قومی دن کے تھیم والے ڈیزائنز کی تصاویر لیتی ہے، اور سڑکوں پر سرخ نظاروں کو کیمرے میں قید کرتی ہے۔ نوجوان “قومی دن کی سماجی خدمات” میں حصہ لیتے ہیں—کمیونٹی سینٹرز میں بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں، رضاکارانہ ماحولیاتی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں، اور ” وطن کی محبت” کے جذبے کو عملی اقدامات کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم چینی طلباء انفرادی طور پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کرتے ہیں، تاکہ پانچ ستاروں والا پرچم غیر ملکی زمین پر بھی لہرائے۔ خواہ بزرگ ہوں یا نوجوان، سبھی جانتے ہیں کہ ملک کی خوشحالی اور ان کی ذاتی خوشی کا گہرا تعلق ہے، اس لیے وہ قومی دن کے اس خاص موقع پر اپنے اپنے طریقوں سے وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چینیوں کے لیے قومی دن وقار اور محبت سے بھرا تہوار ہے۔ یہ چین کی ترقی کی تاریخ کا گواہ ہے، اور خاندان اور ملک کے لئے چینی عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ مختلف طریقوں سے جشن منا کر، چینی عوام نہ صرف وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ قومی یکجہتی کو مضبوط کرتے ہیں اور چینی عوام کو عظیم نشاۃ ثانیہ کے سفر پر گامزن رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نئی تاریخ رقم مائیں اپنے بچوں کی جان کیوں لے رہی ہیں؟ ’’شنگنس لمحہ‘‘: شائستگی کی فتح رقص کریں، دلوں کو جوڑیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ مارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: خاندان اور ملک کے لئے جذبات

پڑھیں:

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

کیا آپ کو کسی نوعمر لڑکی یا لڑکے نے بتایا کہ وہ سٹریس اور تنہائی کا شکار ہے؟ آپ نے سوچا ہوگا یہ تو دنیا بھر سے جڑا ہوا ہے، ہزاروں دوست آن لائن ہیں، پھر کیسی تنہائی ؟ یہ ہے جین زی (Gen Z) ، وہ نسل ہے جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی اور آج ان کی عمریں قریباً 13 سے 28 برس کے درمیان ہیں۔

میرے اپنے بچے جین زی سے ہیں تو اس کالم کو ایک ماں کا مکالمہ سمجھا جائے۔ یہ نوجوان موبائل اور ٹیکنالوجی کے حصار میں بڑے ہوئے ہیں۔ ذہین ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے سے پہلے کی نسل سے آگے ہیں، مگر سماجی سطح پر کوئی خلا بہر طور ان کی زندگیوں میں موجود ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات جین ٹوینج (Jean Twenge) اپنی کتاب iGen میں لکھتی ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت جڑی رہتی ہے لیکن عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ تنہا اور بے چین دکھائی دیتی ہے، 2023 کی ایک رپورٹ (Deloitte Global Survey) کے مطابق 46 فیصد جین زی نوجوان روزانہ دباؤ اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور ماہرین سماجیات انہیں “Loneliest Generation” یعنی سب سے تنہا نسل قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:’لائیو چیٹ نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے‘،پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد جمع

سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسل اتنی اکیلی کیوں ہے؟ جب کہ ان کے اردگرد دنیا سکڑ کر جام جم میں آگئی ہے۔ یہ صبح اٹھتے ہی اپنا موبائل کھولتے ہیں اور ان کی مرضی کی دنیا، مرضی کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ ہماری نسل یا اس سے پچھلی نسل کو یہ ’میری دنیا، میری مرضی‘ والی سہولت میسر نہ تھی۔

ہمارے بچپن میں دوست، محلے دار بلا تفریق ساتھ کھیلا کرتے۔ ساتھ پڑھا کرتے۔ کوئی زیادہ امیر کوئی مڈل کلاس کسی کا گھر تنگی معاش کا شکار ، اگر کبھی مڈل کلاس بچہ اپنا موازنہ امیر دوست سے کرتا تو ماں باپ کے پاس وہی گھڑے گھڑائے جواب ہوتے، ’بیٹا قناعت اختیار کرو، اپنے جیسوں میں دوستی کرو، ان کی قسمت ان کے ساتھ ہماری قسمت ہمارے ساتھ‘ اور مزے کی بات ہماری اکثریت مان بھی جاتی۔

جین زی کو آپ اس قسم کی فرسودہ مثالیں نہیں دے سکتے۔ ان کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کمپیریزن/موازنہ کلچر، جو شاید پہلے مین اسٹریم نہیں تھا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے مقابلہ اور موازنہ اب ان کے رہن سہن کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل کو جھوٹے پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف

اس تنہائی کی ایک بڑی وجہ بہت سارے غیر اہم، غیر متعلقہ لوگوں اور معلومات تک فوری رسائی ہے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک پر گزرتا ہے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر جھوٹ یا آدھا سچ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے والے میاں بیوی، سوشل میڈیا پر بغل گیر ہوتے وڈیو، تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، سر عام اظہار محبت کرتے ہیں۔

لوگ کامیابی، خوشی، چمک دمک، شادیاں، مہنگے کپڑے، گاڑیاں دکھائیں گے تو کیا وہ کچے ذہن پر اثر نہ کریں گی؟ معصوم ذہن یہی سوچے گا کہ زندگی یہی ہے، اور پھر سوچے گا میری زندگی ایسی کیوں نہیں؟ نتیجتاً اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے گا۔ یہی وہ comparison culture ہے جو بے سکون کرتا ہے۔ زندگی سے توقعات بڑھاتا ہے، خواب اور حقیقت کا فرق مٹا دیتا ہے۔

نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب کوئی ہر وقت دوسروں کی کامیابی کو معیار بنائے تو اس کا نتیجہ anxiety اور depression کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اسی کیفیت نے آج جین زی کو اپنے ہی بنائے سراب کا قیدی بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، صدر آصف زرداری

تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ شاید صبر کا نہ ہونا ہے۔ صبر ایسا کمال وصف ہے کہ یہ انسانی دماغ کے لیے سب سے بڑا anti-depressant ہے۔ جین زی کو فوری نتائج کی جلدی ہوتی ہے۔ محبت ہے تو فوری اظہار ہو، نفرت ہے تو منہ پر کہہ دو، بالکل اسی طرح جیسے پوسٹ لگا کر فوری لائیکس اور کمنٹس کا انتظار کیا جاتا ہے جسے ماہرین instant gratification بھی کہتے ہیں۔

یہ نسل فوری نتیجہ چاہتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہے، پیچیدہ ہے، تعلقات، رشتوں، دوستیوں میں آئیڈیل ملنا یا آئیڈیل حالات نصیب ہونا، قریباً ناممکن ہے۔ رشتوں کی پیچیدہ گرہیں اگر ہاتھوں سے کھولنی ہیں تو سوچنے، غور کرنے، دوسرے کی بات سننے، دوسرے کے جوتوں میں اپنا پیر رکھنے یعنی empathise کرنے سے ہی ممکن ہے۔

سمجھداری اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں ، جین زی کو فوری ری ایکشن دینے کی عادت ہے، یہ عادت تعلق اور دوستیوں میں دراڑ ڈالتی ہے۔ منہ پھٹ ہونا کوئی طرہ امتیاز نہیں۔ جب آپ سب سے ذرا ذرا سی بات پر نالاں رہیں گے تو تنہا ہی رہ جائیں گے ناں۔ کیا خیال ہے؟ محبت ہو، رشتہ ہو یا پروفیشنل کامیابی، یہ سب صبر، سمجھداری اور وقت مانگتی ہیں۔

مزید پڑھیں: چین نے سوشل میڈیا پر سختی کیوں بڑھا دی؟

یہی عادت انہیں ورک پلیس پر بھی مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک پراجیکٹ جسے ہفتوں یا مہینوں لگنے ہیں، وہ چاہتے ہیں کل ختم ہو جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو مایوسی اور دباؤ کا احساس بڑھتا ہے۔ یوں فوری خوشی کی چاہ انہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں رکھتی ہے۔

اس نسل کا کمال یہ ہے کہ کھل کر ذہنی صحت پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوست کے غصے کو برداشت کرنا، نفسیاتی بیماریوں کے شکار باس کے ساتھ کام کرنا اور اچھا کام کرنا، میاں بیوی کے درمیان مسائل، لڑائیوں میں درمیانی رستہ نکالنا، رشتوں کی نزاکت کو سمجھنا، یا اختلاف کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا۔ یہ سب چیزیں مشکل ہیں۔

یہ آمنے سامنے مکالمے سے حل ہوتی ہیں، ٹیکسٹ میسج پر نہ جذبات کی ٹھیک ترجمانی ہوتی ہے نہ باڈی لینگویج کے ذریعے بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ اب ملاقات سے گریز ہے اور مکالمے کا رواج کمزور ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ فیس بک پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ ” feeling alone with 99 others”

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

جاری ہے ۔۔۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

تنہائی کا شکار ٹوئٹر جین زی سٹریس سوشل میڈیا فیس بک نوجوان نسل

متعلقہ مضامین

  • حقیقی امن صرف انصاف کے ذریعے ہی قائم کیا جا سکتا ہے، میر واعظ
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • قوم، علماء پاکستان کی سلامتی، دفاع کیلئے افواج کیساتھ کھڑے: عبدالخبیر آزاد
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • اسلام آباد پریس کلب پر پولیس دھاوے کیخلاف صحافیوں کا قومی اسمبلی سے واک آؤٹ
  • مودی کی زبان نہ بولیں، اپنے چاچو کی حکومت ختم کرنی ہے کیا؟
  • چینی نوجوان دانتوں پر ٹیٹو کیوں بنوا رہے ہیں؟
  • بینظیرانکم سپورٹ کےساڑھے13 ہزار ایک خاندان کےلیےبہت اہمیت رکھتےہیں، حقارت سےنہ دیکھاجائے،روبینہ خالد
  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نیا اعلان، ہراہل خاندان کو کتنی رقم ملے گی؟
  • صہیونیت دنیا بھر کیلئے واحد حقیقی خطرہ ہے، وینزویلا