غزہ: ’ٹرمپ امن معاہدہ‘ کا یو این چیف کی طرف سے خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ امن معاہدے کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام فریقین سے اس پر عملدرآمد کی اپیل کی ہے۔
سیکرٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پائیدار امن معاہدے کے لیے عرب اور مسلمان ممالک کے اہم کردار کو سراہتے ہیں۔
7 اکتوبر کے حملوں کے بعد غزہ میں تباہ کن جنگ سے لوگوں کو پہنچنے والی بے پایاں تکالیف میں کمی لانا ترجیح ہونی چاہیے۔ Tweet URLانہوں نے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری و غیرمشروط رہائی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ان اقدامات سے فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کو حقیقت بنانے کے لیے سازگار حالات جنم لیں گے۔
(جاری ہے)
بڑے پیمانے پر نقل مکانیامریکہ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے نے جنگ بندی کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی تکالیف میں کمی لانے کے لیے علاقے میں فوری امن قائم ہونا ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ترجمان ریکارڈو پیریز نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ شہر میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں جبکہ موسم سرما کی آمد پر ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
ان حالات میں فوری جنگ بندی اور بڑی مقدار میں انسانی امداد کی فراہمی ضروری ہو گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال علاقے میں گرتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں مختلف طرح کے مسائل جنم لیں گے جن میں بچوں اور خاندانوں کی صحت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔
المواصی میں بدترین حالاتترجمان نے بتایا کہ شمال سے جنوب کی جانب نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی بیشتر تعداد ساحلی علاقے المواصی میں مقیم ہے جہاں عارضی خیمہ بستیوں میں انہیں بدترین حالات کا سامنا ہے۔
غزہ شہر سے کم از کم چار لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے۔ پورے غزہ کا صرف 18 فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں سے نقل مکانی کے احکامات نہیں دیے گئے یا اسے عسکری زون میں شامل نہیں کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ یونیسف نے 11 ہزار خیمے اور ترپالیں تیار رکھی ہیں جنہیں اجازت ملتے ہی کسی بھی وقت غزہ میں بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم فی الوقت امداد پہنچانے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد تقسیم کرنے میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ گزشتہ دنوں علاقے میں لائی گئی امدادی خوراک کی بدولت بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز کو ضروری سازوسامان کی فراہمی ممکن ہو سکی ہے۔ گزشتہ اتوار کو غزہ بھر میں ایسے 137 مراکز کے ذریعے تقریباً 660,000 کھانے تیار اور تقسیم کیے گئے تھے۔
امدادی خوراک کی لوٹ مارجینز لائرکے نے کہا ہے کہ امدادی ٹیموں کو امداد جمع اور تقسیم کرنے کی اجازت دینے کی صورت میں ہی زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ تاہم کبھی امدادی ٹیموں کو امدادی کارروائی کی اجازت مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔ بعض اوقات اسرائیل کی جانب سے سہولت کی عدم فراہمی اس کا سبب ہوتا ہے اور کبھی دیگر مسائل رکاوٹ بنتے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ حالیہ دنوں غزہ میں پہنچنے والی امدادی خوراک کا بڑا حصہ بھوک سے ستائے لوگوں یا مسلح گروہوں نے ٹرکوں سے اتار لیا۔
انہوں نے موجودہ صورتحال کو انتہائی ابتر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موثر، مربوط اور مکمل امدادی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے کی جانب سے نقل مکانی کہا ہے کہ کے لیے
پڑھیں:
ترک صدر نے غزہ کے امدادی جہازوں کو روکنے کو بحری قزاقی قرار دے دیا
ترک صدر نے کہا ہے کہ امدادی فلوٹیلا عملے کی گرفتاری غزہ میں ہونے والی بربریت کی مثال ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے امدادی جہازوں کو روکنے کو ’بحری قزاقی‘ قرار دے دیا۔
اپنی AKP پارٹی سے خطاب میں اردوان نے کہا کہ بین الاقوامی پانیوں میں یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ “نسل کشی کا آلہ غزہ میں اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے جنون کی حالت میں ہے”۔
اردوان نے کہا کہ “نسل کشی کرنے والی [اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن] نیتن یاہو حکومت امن قائم کرنے کے معمولی سے موقع کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔”
ان کا کہنا تھا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا نے ایک بار پھر دنیا کو غزہ میں ہونے والی بربریت اور اسرائیل کا قاتلانہ چہرہ دکھایا ہے ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کو نہیں چھوڑیں گے اور جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لیے اپنی پوری قوت سے کام کریں گے۔
اردوان کی تقریر اس وقت سامنے آئی جب استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کرنے والی کشتیوں پر سوار ترک شہریوں کو حراست میں لینے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔