دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں شدید گرمی کے دنوں میں 25 فیصد اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 اکتوبر2025ء) دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں 1990 کی دہائی کے مقابلے میں اب ہر سال 25 فیصد زیادہ شدید گرمی کے دن ریکارڈ کیے جا رہے ہیں، یہ بات ایک تازہ تجزیاتی رپورٹ میں بتائی گئی ہے ۔اماراتی نیوز ایجنسی ’’وام‘‘ کے مطابق بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات و ترقی (آئی آئی ای ڈی) نے 2024 میں دنیا کے 20 سب سے زیادہ آبادی والے دارالحکومتوں میں 30 برس (1994 تا 2023) کے دوران گرمی کی شدت کا جائزہ لیا جس میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ درجہ حرارت والے دنوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ سامنے آیا۔
اس سال کے تازہ اعداد و شمار اور مزید 40 دارالحکومتوں کو شامل کرنے کے بعد یہ واضح ہوا کہ 2024 دنیا کا سب سے زیادہ گرم سال رہا جیسا کہ عالمی موسمیاتی تنظیم نے تصدیق کی ہے۔(جاری ہے)
واشنگٹن ، میڈرڈ، ٹوکیو اور بیجنگ سمیت متعدد بڑے شہروں میں انتہائی گرم دنوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ تجزیے کے مطابق 43 بڑے دارالحکومتوں میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت والے دنوں کی اوسط تعداد 1994 تا 2003 میں سالانہ 1,062 تھی جو 2015 تا 2024 میں بڑھ کر 1,335 ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق روم اور بیجنگ میں شدید گرمی کے دنوں کی اوسط تعداد دوگنی جبکہ منیلا میں تین گنا بڑھ گئی۔ میڈرڈ میں اب اوسطاً سالانہ 47 دن 35 ڈگری سے زیادہ ریکارڈ ہوتے ہیں، جو اس سے پہلے 25 دن تھے۔ لندن جیسے نسبتاً معتدل موسم والے شہر میں 30 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت والے دنوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔آئی آئی ای ڈی کی محقق آنا والنیکی کے مطابق عالمی درجہ حرارت حکومتوں کی توقعات سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے جتنا ان کا ردعمل نظر آ رہا ہے۔ موافقت اختیار نہ کرنے سے کروڑوں شہری غیر آرام دہ بلکہ خطرناک حالات سے دوچار ہوں گے۔انہوں نے خبردار کیا کہ ترقی پذیر ممالک کے غیر منصوبہ بند یا کم آمدنی والے علاقوں میں یہ اثرات مزید شدید ہوں گے کیونکہ وہاں کم معیار کی رہائش عام ہے، جبکہ دنیا کے ایک تہائی شہری کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں۔ماہرین کے مطابق فوسل فیول کے استعمال سے پیدا ہونے والی عالمی حدت ہر گرمی کی لہر کو مزید شدید اور بار بار رونما کر رہی ہے۔ ماحولیاتی بحران کو جنم دینے والے یہ اخراج اب بھی بڑھ رہے ہیں، حالانکہ پیرس معاہدے کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح پر 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے کے لیے 2030 تک اخراج میں 45 فیصد کمی ناگزیر ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دارالحکومتوں میں کے مطابق سے زیادہ دنیا کے دنوں کی
پڑھیں:
پہلی سہ ماہی میں برآمدات 3.83 فیصد کم، درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ
ملک کی برآمدات مالی سال 26 کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبرتک کے عرصے میں 3.83 فیصد کمی کے بعد 7.60 ارب ڈالر پر آگئی ہیں۔
پاکستان ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں برآمدات 7.91 ارب ڈالر رہی تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق درآمدات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے اور پہلی سہ ماہی میں یہ 13.49 فیصد بڑھ کر 16.97 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں، جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 14.95 ارب ڈالر تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف کا نفاذ، پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر مگر کیسے؟
ستمبر 2025 میں برآمدات 2.50 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال اسی ماہ میں 2.84 ارب ڈالر تھیں، اس طرح 11.71 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
دوسری جانب درآمدات اس ماہ 5.84 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 5.13 ارب ڈالر تھیں۔
ستمبر میں تجارتی خسارہ 45.83 فیصد اضافے کے ساتھ 3.34 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال اسی ماہ میں 2.3 ارب ڈالر تھا۔
مزید پڑھیں: پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟
تاہم ماہانہ بنیاد پر برآمدات میں 3.64 فیصد اضافہ ہوا اور اگست کے 2.42 ارب ڈالر کے مقابلے میں ستمبر میں برآمدات 2.50 ارب ڈالر رہیں۔
درآمدات بھی اگست کے مقابلے میں 10.53 فیصد بڑھیں، نتیجتاً ماہانہ تجارتی خسارہ 16.33 فیصد اضافے کے بعد 3.34 ارب ڈالر ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملکی برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ ٹیکسٹائل شعبے کی گرتی ہوئی کارکردگی ہے، جو کل برآمدات کا 60 فیصد بنتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ، وفاقی حکومت نے ماہانہ معاشی آؤٹ لک رپورٹ جاری کر دی
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عاصم انعام کے مطابق عالمی منڈی میں کپاس کی قیمتوں میں نمایاں کمی اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات برآمدات پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران کپاس کی قیمت 1.50 ڈالر فی پاؤنڈ سے کم ہو کر 64 سینٹس رہ گئی جس سے ٹیکسٹائل صنعت کے منافع پر دباؤ بڑھ گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر برآمد کنندگان کو بجلی 7 سینٹس فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جائے تو 2 سے 3 سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات 25 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں کتنے ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے؟
دوسری جانب ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے اگست میں خدمات یعنی سروسز کی برآمدات 11.73 فیصد اضافے کے ساتھ 1.4 ارب ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 1.25 ارب ڈالر تھیں۔
اسی عرصے میں خدمات کی درآمدات بھی 15.37 فیصد بڑھ کر 2.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس طرح خدمات کے شعبے میں تجارتی خسارہ 16.94 فیصد اضافے کے ساتھ 707 ملین ڈالر تک جا پہنچا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن برآمد کنندگان برآمدات پاکستان ادارہ شماریات ٹیکسٹائل درآمدات سہ ماہی عاصم انعام